بہتا خون، فاقے اور بے رحم سیاست


اقتدار میں آنے سے قبل علی محمد خان کہا کرتے تھے کہ جس مقتول کا قاتل نہ ملے اس کا قاتل حکمران ہوتا ہے، مراد سعید بھی اربوں روپے آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے کو تیار تھے، فیصل واوڈا متحدہ قومی موومنٹ سے وابستہ کئی افراد کو جیل بھیجنے کے لیے پر عزم تھے ۔ وزیراعظم 90 دن میں تبدیلی لے کر آرہے تھے اور پھر اچانک تحریک انصاف کو اقتدار مل گیا، عوام خواب سے جاگ گئے، سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ ایسا معلوم ہونے لگا کہ کپتان بھی سابقہ حکمرانوں سے کچھ خاص مختلف نہیں ہیں۔ جو ہو رہا تھا وہی چل رہا ہے اور شاید وہی چلتا رہے گا اور کافی معاملات میں تو حالات گزشتہ ادوار سے بھی بدتر ہیں۔

ماضی ہی کی طرح اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے جان کی بازی ہار جانے والے اسامہ ندیم ستی کے گھر حکومتی ذمہ داروں کا جا جا کر دعا کرنے کا سلسلہ جاری ہے، پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آ چکی ہے اور اسامہ ندیم ستی پر ماضی میں کٹنے والی ایف آئی آر بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ نوجوان کو 20 سے زائد گولیاں ماری گئیں۔ گولیاں سینے، کمر اور پیر میں بھی ماری گئی۔ ایک لمحے کے لیے مان لیجیے کہ اسامہ کراچی میں فیکٹری کو آگ لگانے والوں سے، لیاری میں سروں سے فٹبال کھیلنے والوں سے، مساجد امام بارگاہوں کو بموں سے اڑانے والوں سے بڑا مجرم تھا تو بھی پولیس کو بیس سے زائد گولیاں چلانے کی اجازت کس نے دی؟

یہ ایک سانحہ نہیں ہے، مچھ میں جو واقعہ پیش آیا ہے وہ بھی اس ملک کا ایک عظیم سانحہ ہے۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو ذبح کر کے ویڈیوز بنائی گئیں اور انہیں وائرل کیا گیا۔ ایسے سانحات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں بلکہ ملک میں 70 سال سے ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں اور انہیں کوئی کنٹرول نہیں کر سکا۔ افسوس کہ اتنا بڑا ا واقعہ ہوا لیکن وزیراعظم اور پوری حکومت صرف اور صرف پی ڈی ایم کو نیچا دکھانے میں لگی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ پی ڈی ایم ہے اور حکومت کا فوکس صرف اپوزیشن پر ہے۔

ملک بھر میں مچھ واقعے کے خلاف احتجاج ہوا، اہم شاہراہیں بند ہوئیں، سب سے زیادہ سزا اہل کراچی کو ملی، وہ وزیراعظم جو پچھلی حکومتوں میں ہزارہ قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم پر ٹویٹ کیا کرتے تھے کہ کہیں حکومت نام کی چیز نظر نہیں آتی آج ان کی ہی حکومت میں جب ایسا سانحہ ہوا ہے تو مظاہرین کے احتجاج کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم وہاں جانے کو تیار نہیں ہیں۔ ماضی میں ایسے واقعات پر پوری حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والے عمران خان صاحب نے وزیراعلی بلوچستان سے بھی استعفی طلب نہ کیا۔

بلوچستان میں ہونے والے واقعے کے متاثرین اور لواحقین کا مطالبہ ہے کہ جب تک وزیراعظم خود ان کے پاس جا کر یقین دہانی نہیں کرائیں گے کہ انہیں آئندہ مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی، دہشت گرد گرفتار ہوں گے تب تک احتجاج جاری رہے گا۔ یہ مطالبہ اتنا بڑا نہیں کہ جسے پورا نہیں کیا جاسکتا، پورا ملک مظاہرین کی جانب سے بند ہے، ایسے میں وزیراعظم کا مطالبہ نہ ماننا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اسلام آباد اور مچھ واقعے پر پوری قوم کا دل زخمی ہے لیکن سنا ہے کہ ایک وزیر نے کابینہ کی میٹنگ میں اسلام آباد واقعے پر کہا ہے کہ ایسے واقعات ملک میں ہوتے رہتے ہیں۔

یہ المیہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ اپوزیشن کا بھی یہی حال ہے، پی ڈی ایم جو اپنی موت خود مر چکی ہے، اسے بھی عوامی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں۔  ان کا اس وقت ایک ہی مقصد ہے اور وہ بس حکومت کو گھر بھیجنا ہے۔ اس قسم کے واقعات پر آگے بڑھنے کے بجائے اپوزیشن کی جانب سے سیاسی اسکورنگ کی جا رہی ہے اور کوئی حل نکالنے کے بجائے بس حکومت پر ہی تنقید کی جا رہی ہے۔ ملک میں سیکیورٹی کے مسائل واضح نظر آرہے ہیں، کراچی میں الرٹ جاری ہو چکا ہے لیکن کرسیوں سے چپکی بیٹھی اپوزیشن مستعفی ہونے کو تیار نہیں، بس صرف جلسے کر کے عوام  کی زندگیوں کو دہشت گردی اور کورونا جیسے خطرات میں جھونکنا مقصود ہے اور بھولے عوام ان کے پیچھے نعرے مارتے پہنچ ہی جائیں گے۔

ملک اس وقت مشکل سے گزر رہا ہے، اپوزیشن کو تو اس صورتحال میں کچھ کہنا مناسب نہیں ہو گا کیوں کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ برصغیر میں سیاسی کلچر یہی ہے کہ اپوزیشن کا کام صرف اور صرف حکومت کو ناکام بنانا ہی ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں بھی یہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا ۔ خود عمران خان صاحب جب حکومت میں نہیں تھے تو ان کا بھی یہی مشن تھا جو کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن حکومت کی بنیادی تین ذمہ داریاں ہیں، تعلیم، صحت، اور عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنا، لیکن اب تک کی تمام حکومتیں اس معیار پر پوری اترتی نظر نہیں آتیں۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا کہ محمد علی جناح کو جب پاکستان ملا تو ایسی حالت میں تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ ملک قائم نہیں رہے گا، جناح کی بصیرت اور اللہ کے کرم سے ملک آگے بڑھا لیکن اس کہ بعد ملک میں بس عہدوں اور اقتدار کے حصول کی جنگ ہی نظر آتی رہی، فلاحی ریاست کا تصور الفاظ کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔

ہزارہ برادری کے لوگوں کا خون میں لت پت ہونا یا اسامہ ستی کے والدین کے دل پر ایک ساتھ 22 وار ہونا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، سانحہ ساہیوال اور اس جیسے مزید کئی واقعات سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے، کتنی ہی ماؤں نے اپنے بھوک سے بلکتے بچوں کے گلے دبا دیے، انہیں نہروں میں پھینک دیا، کتنوں ہی کہ بچے سر عام قتل کر دیے گئے، کتنوں کو اس سسٹم نے دہشت گرد بنا دیا۔ کتنے ہی پاکستانی تعلیم سے محروم رہے اور کتنے تعلیم حاصل کر کے مستقل کے لیے اس ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

سڑکوں پر بچوں کی پیدائش، پیٹ پالنے کے لیے جسم فروشی اور نہ جانے کیا کیا ہم برسوں سے سنتے آرہے ہیں۔ عمران خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے سب نوے دن میں ٹھیک کرنے کا وعدہ کیا کرتے تھے، ہر باشعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ نوے دن میں ستر سال کا بگاڑ ٹھیک نہیں ہو سکتا لیکن اب اس حکومت کو اڑھائی سال ہوچکے ہیں، عمران خان صاحب نے اپنے کنٹینری وعدوں میں سے کون سا پورا کیا؟ سابقہ ادوار کے مقابلے میں عوام کو کیا ریلیف ملا؟ 2013 میں عمران خان صاحب پوچھا کرتے تھے ریاست کہاں ہے؟ آج پورا پاکستان یہی سوال ان سے پوچھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).