اس بار کا ریٹ 25 لاکھ روپے فی لاشہ



اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ایک محب وطن برادری مقیم ہے۔ یہ محنتی اور مزدور قبیلہ پڑھا لکھا اور پر امن قبیلہ مانا جاتا ہے جس کی بڑی مثال ان کی قتل و غارت کے بعد ان کے احتجاج کے شکل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ قبیلہ اتنا مختلف ہے کہ اس کو شکل سے باآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ یہ مسلکی اعتبار سے اہل بیت رسول کے چاہنے والے ہوتے ہیں اور فقہ جعفریہ کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ یہ پورے پاکستان میں محنت مزدوری اور پڑھنے کے لئے آتے ہیں لیکن ان کی بڑی تعداد کوئٹہ کے دو علاقوں میں مقیم ہے۔ یہ برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیں اور پاکستان سے شدید محبت میں گرفتار ہیں۔ یہ ہو گیا ایک سادہ سادہ سا پس منظر، تھوڑی دیر بعد اس پر خون کے چھینٹے نظر آئیں گے۔

تازہ تازہ واقعہ جو اب تک باسی ہو گیا ہوتا اگر کپتان وزیر اعظم چاہتے، لیکن انھوں نے اب تک اس کو تازہ رکھا کیونکہ مرنے والوں نے سادہ سی ڈیمانڈ رکھی کہ ریاست کا سربراہ آئے اور ہم سے وعدہ کر لیں اب وہ سچا ہو یا جھوٹا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ہفتے کی رات کو سیاہ ہاتھ والے مزدور کالی رات میں آنکھوں میں سپنے دفنائے سوئے پڑے تھے۔ درجنوں انسانی شکل والی مخلوق آئی اور مزدوری کر کے تھکے سیاہ ہاتھوں کو رسی سے باندھا اور پھر چھری سے ذبح کر دیا گیا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوپایا ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے انھیں پانی پلایا گیا یا نہیں اور یہ بھی نہیں پتا چل سکا کے چھری پر دھار تیز تھی یا نہیں۔

واقعہ ہوا، پھر دس گیارہ ہزارہ کو ماردیا گیا اور پھر ان کے پیارے ان کی لاشوں کے ساتھ انتہائی سردی میں کھلے آسمان تلے اس امید میں بیٹھے ہیں کہ شاید اب جو وعدے ہو وہ شاید وفا ہو جائے گزشتہ وعدوں کی جفا نہ بن جائے۔ اس باقی ماندہ برادری کی ایک ہی ڈیمانڈ ہے کہ وزیر اعظم آئیں اور ہم سے وعدہ کریں۔ لیکن اب تک کی اطلاعلات کے مطابق ذرائع ابلاغ کے انتہائی محدود وسائل ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم تک یہ ڈیمانڈ نہیں پہنچ پائی ہے ورنہ وہ 2013 والے دل کو لئے اب تک پہنچ چکے ہوتے۔

البتہ کچھ وزیروں اور دبئی میں موجود وزیر اعلی تک بھی پہنچ گئی اور وہ دبئی سے صرف تین دنوں میں ان ہزارہ والوں کے غم بانٹنے آ گئے ہیں ورنہ اتنی جلدی کون آتا ہے بھلا۔ ہزارہ والے بھی عجیب لوگ ہیں جب ان دنوں پوری دنیا سردی کے مزے لوٹ رہی ہوتی ہے تو یہ جنازوں کے ساتھ دھرنا دیے بیٹھے ہوتے ہیں، جب سب سردیوں کی تعطیلات گزار رہے ہوتے ہیں تو یہ دھرنوں کے ساتھ ساعتیں۔ ارے تعطیلات سے یادآیا کہ اگر یہ مزدور تعطیلات پر ہوتے تو بچ جاتے لیکن مزدور تھے ان کو تعطیل کہاں میسر؟

جب اس تحریر کے لئے قلم گھسیٹ رہا ہوں تو اطلاعات آ رہی ہیں کہ مذاکرات ایک بار پھر ناکام ہو چکے ہیں اور جنازوں کے ورثا کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم آئیں گے تو ہم اپنے شہدا دفنائیں گے۔ میں نے اس مطالبہ پر سوچا تو مجھے حیرت ہوئی کہ اتنے واقعات کے بعد بھی یہ قوم کتنی پرامن ہے اوروزیر اعظم کو باقاعدہ عزت کے ساتھ بلا رہے ہیں، ورنہ معاملات تو اس وقت خراب ہوتے جب یہ حکومت سے ملنے سے انکار کر دیتے اور وزیر اعظم کو دھتکار دیتے۔

ویسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاست کے سربراہ ہونے کے ناتے کپتان سب کی شان نیا پاکستان خود جاتے اورشہدا کو دفناتے۔ جس کے گھر اب کوئی مرد نہیں بچا اس کے گھر جاتے اور اس گھر کے شہدا کو اپنے مرد والے کاندھوں پر اٹھاتے اور مٹی میں چھپاتے۔ ویسے ہزارہ والوں کی بھی معصوم سی خواہش ہے اگر انھوں نے یہ خواہش رکھی دی کہ قاتل کو پکڑ لاؤ تو پھر کیا کرتے؟ خیر نہ جانے ایسی کیا وجہ ہے کہ عمران خان صاحب کوئٹہ نہ پہنچے بلکہ اپنا نمائندہ بھیجا ہے اوراس بار کا جو ریٹ کھلاہے وہ 25 لاکھ فی لاشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).