کیا امریکا پاکستان کے بارے میں اپنی سوچ بدل چکا؟


روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ”امریکی پارلیمنٹ کی امور خارجہ کمیٹی میں ری پبلیکن رکن اینڈی بگس نے ایک بل پیش کیا ہے جس میں پاکستان کی اہم اتحادی کی حیثیت ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایک میڈیا خصوصی رپورٹ کے مطابق ایری زونا سے منتخب ہونے والے کانگریس کے رکن اینڈی بگس نے 117 ویں کانگریس میں پاکستان مخالف بل پیش کیا ہے۔ بل میں استدعا کی گئی ہے کہ پاکستان کو امریکا کے ایک اہم غیر ناٹو اتحادی کی حیثیت حاصل ہے جس کی مناسبت سے کئی مراعات کا حامل بھی ہے تاہم اب پاکستان کی اہم اتحادی کی حیثیت پر نظرثانی کا وقت آ گیا ہے“۔

بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس بل پر فوری طور پر کتنا عمل ہوتا ہے اور پاکستان کو ”ناٹو“ سے بالکل ہی الگ کر دینا امریکا کے لیے کتنا سود مند یا نقصان دہ ثابت ہو گا، یہ الگ بحث ہے لیکن پاکستان کو استعمال کرنے والوں کی نیتیں اب بدلتی دکھائی دے رہی ہیں جو کسی بھی لحاظ سے پاکستان کے لئے بہت زیادہ خوش کن خبر نہیں۔

کئی دہائیوں سے افغانستان کے سلسلے میں پاکستان ایک ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتا چلا آیا ہے۔ ہر وہ ملک، پارٹی یا گروہ جو کسی دوسرے کے لئے محض استعمال کیے جاتے ہیں وہ مقاصد پورے ہو جانے کے بعد اسی طرح کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ دنیا میں کسی اور ملک کی سیاسی پارٹیاں یا عوام ممکن ہے اس بات سے اتنا واقف نہ ہوں لیکن پاکستان کے عوام اور تمام سیاسی پارٹیاں اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کسی کو استعمال کیا جانا اور پھر استعمال کے بعد اسے کچرے میں پھینک دینا کسے کہا جاتا ہے۔

پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں، عوام کے درمیان موجود مخصوص تہذیب و ثقافت کی حامل آبادیاں، جہادی و سیاسی تنظیمیں اس بات سے خوب اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ان سب کو کن کن موقعوں پر کس کس طرح استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جس طرح کچھ طاقتور حلقے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ان سب کو مختلف مواقع کی مناسبت سے استعمال کرتے رہے ہیں بالکل اسی طرح پاکستان بھی کئی دہائیوں سے امریکی مفادات کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان کو امریکا جن جن مقاصد کے لئے استعمال کرتا رہا ہے وہ پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر حاصل بھی نہیں کیے جا سکتے تھے اور اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو آج بھی پاکستان امریکا کی اتنی ہی بڑی ضرورت ہے جتنی کل تھا۔ خاص طور سے جب تک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا اس وقت تک پاکستان کو نیٹو سے الگ کر دینا امریکا کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔

بحث یہ نہیں کہ نیٹو سے الگ کر دینے والا بل کانگریس سے منظور ہوتا ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ امریکا میں ایسی سوچیں آخر کیوں جنم لے رہی ہیں کہ اب ان کے لیے پاکستان غیر مفید ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہے وہ بنیادی نکتہ جو پاکستان کے ارباب اقتدار و اختیار کو غور کرنے کی دعوت دے رہا ہے اور جس پر سوچ و بچار میں اگر تاخیر کی گئی یا غیر سنجیدہ انداز فکر اختیار کیا گیا تو اس کے نتائج نہایت منفی بھی ہو سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان سے روس کا قبضہ چھڑانے میں پاکستان کا بہت اہم کردار رہا تھا۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد وہاں قابض کئی جہادی گروہوں کے خلاف امریکا کا اتحادی بن کر پاکستان کو بے شمار جانی و مالی نقصانات کا سامنا بھی رہا جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ امریکا کا اتحادی بن جانے کے بعد پاکستان کو وفاداری کے معاوضے کے طور پر امریکا سے بہت کچھ حاصل بھی ہوتا رہا لیکن پاکستان وفاداری نبھانے والے معاوضے کو پاکستان پر لگانے کی بجائے اس کی خرد برد میں زیادہ مصروف نظر آیا جس کی وجہ سے ایک جانب تو یہ اپنی عزت و وقار کو خاک میں ملاتا رہا تو دوسری جانب امریکا کی نظر میں اپنا اعتماد بھی کھوتا چلا گیا۔ آج جس بل کی باز گشت امریکی میڈیا اور اس کے ایوانوں میں سنائی دے رہی ہے یہ سب ان ہی بے اعتدالیوں کا شاخسانہ ہے۔

پاکستان کے لئے امریکا کا اتحادی بن جانا سانپ کے منہ میں چھپکلی جیسا ہی لگنے لگا ہے جس کو اگلنے کی صورت میں اس کے نوکیلے پنجے سانپ کو اندھا کر دیں گے اور اگر اسے نگل لیا جائے تو اسے کوڑھی ہو جانے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ امریکا کا مسلسل افغانستان میں موجود رہنا نہ تو پاکستان کے لیے سود مند ہے اور نہ ہی مکمل انخلا پاکستان کے لیے کوئی خوشگواری کا سبب بنتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک جانب امریکا کا اتحادی بن جانے کی وجہ سے پاکستان کے اپنے ہی جہادیوں کے خلاف کارروائیاں اپنوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بنیں تو دوسری جانب افغانستان کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ ان ہاتھوں میں ہے جن کے خلاف ماضی میں پاکستان برسر پیکار رہا ہے ، لہٰذا امریکا کے انخلا کے بعد اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحدیں کس حد تک محفوظ رہ سکیں گی۔

پاکستان کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت بھی امریکا سے دیرینہ تعلقات میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ اس پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے اور دو کشتیوں میں پیر رکھے رہنے کی بجائے کسی ایک کشتی کا انتخاب کر لیا جائے ورنہ انجام ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم“ کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

خارجی معالات میں سارا کھیل ”مفادات“ کا ہی ہوا کرتا ہے۔ امریکا کی پاکستان کے لیے بدلتی سوچ بتا رہی ہیں کہ اب اس کی نیت شوق بھرتی جا رہی ہے اس لیے پاکستان آہستہ آہستہ اس کے دل سے اترنا شروع ہو چکا ہے اس لیے کانگریس میں اینڈی بگس کی جانب سے پیش ہونے والے پاکستان مخالف بل پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ

لو وہ بھی کہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے

یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).