کیپیٹل ہل: عمارت میں موجود ایک خاتون صحافی نے کیا دیکھا


امریکہ
جیمی سٹائم سیاسی موضوعات پر لکھنے والی ایک امریکی کالم نگار ہیں جو واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی عمارت کیپیٹل ہل میں اُس وقت موجود تھیں جب ٹرمپ کے حامیوں نے اس پر دھاوا بولا۔ ایوانِ نمائندگان کی پریس گیلری میں موجود جیمی نے کیا مناظر دیکھے ان ہی کی زبانی سُنیے۔

میں نے اپنی بہن سے پہلے ہی کہا تھا ‘آج کچھ بُرا ہونے والا ہے۔ مجھے نہیں پتا کیا، لیکن کچھ نہ کچھ بُرا ضرور ہوگا۔’

کیپیٹل ہل کے باہر میرا سامنا ٹرمپ کے انتہائی پُرجوش حامیوں کے ایک گروپ سے ہوا جو جھنڈے لہرا رہے تھے اور اُن سے اپنی وفاداری کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا کہ بات بگڑ رہی ہے۔

میں کانگریس کی عمارت کے اندر داخل ہوئی اور اس گیلری میں چلی گئی جو صحافیوں کے لیے مخصوص ہے اور وہاں ہمارے لیے سیٹیں مختص کر دی گئیں تھیں۔ ہم وہاں سے بیٹھ کر ایک پُروقار تقریب کو دیکھ رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ہنگامہ آرائی میں چار ہلاکتیں، بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے لیے اجلاس جاری

کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے: جو بائیڈن

کیپیٹل ہل کا محاصرہ تصاویر میں

ہاؤس سپیکر نینسی پیلوسی کے ہاتھ میں اُن کی مخصوص ‘ہتھوڑی’ تھی اور وہ لوگوں کو ان کے پانچ منٹ کے بیان تک محدود رکھے ہوئے تھیں۔

جب ہم ہاؤس کی کارروائی کے دوسرے گھنٹے میں داخل ہوئے تو اچانک ہم نے شیشے ٹوٹنے کی آواز سُنی۔ فضا میں دھواں بھرنا شروع ہو گیا۔ کیپیٹل پولیس کی جانب سے اعلان ہوا: ‘ایک فرد عمارت میں زبردستی داخل ہوگیا ہے۔’ سو ہم سب نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر معمول کے مطابق چیزیں جاری رہیں۔ مگر اس کے بعد اعلانات مسلسل ہونے لگے اور یہ مزید ‘فوری نوعیت’ کے تھے۔

امریکہ

جیمی سٹائم

سکیورٹی نے اعلان کیا کہ زبردستی گھس آنے والے افراد کیپیٹل ہل کی عمارت کے مشہور ماربل کے گنبد کے نیچے موجود جگہ میں داخل ہوگئے ہیں جسے ‘روٹنڈا’ کہا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مقدس ایوان حملے کی زد میں تھا۔

ہم میں سے کئی صحافی ایسے تھے جو پہلے بھی کئی مرتبہ کشیدہ حالات دیکھ چکے ہیں۔ میں نے بالٹی مور میں قتل کی وارداتوں کی کوریج کے دوران بہت تشدد دیکھا ہے، مگر یہ انتہائی غیر متوقع اور ناقابلِ پیش گوئی تھا۔

پولیس کو بظاہر معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ان میں کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔ انھوں نے چیمبر کے دروازوں کو تالے لگا دیے مگر ساتھ ہی ساتھ ہم سے کہا کہ ہمیں ایوان خالی کرنا ہوگا۔ چنانچہ افراتفری پھیل گئی۔

اگر میں آپ کو سچ بات بتاؤں تو میں بھی ڈری ہوئی تھی۔ میں نے وہاں موجود دوسرے صحافیوں سے بات کی جنھوں نے کہا کہ وہ خوفزدہ محسوس کرنے کے باعث خود سے تھوڑے شرمندہ بھی ہیں۔

اگر عمارت کے اندر کی بات کی جائے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ‘اس جگہ کا کوئی انچارج (والی وارث) نہیں ہے، حالات پولیس کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں، اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘

اگر آپ کو امریکہ پر 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملے یاد ہوں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ صرف ایک طیارہ اپنے ہدف سے ٹکرانے سے قبل ہی گر گیا تھا اور وہ ہدف کیپیٹل ہل تھا اور اس ماضی کے واقعے کو وہاں سرگوشیوں میں دہرایا جا رہا تھا۔

میں نے اپنے اہلخانہ کو فون کیا تاکہ انھوں آگاہ کر سکوں کہ میں اس عمارت میں ہوں اور ایک خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہی ہوں۔

اور پھر گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ ہم دیکھ سکتے تھے کہ جس چیمبر میں ہم موجود تھے وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ تھی۔ سکیورٹی کے پانچ افراد بندوقیں تھامے دروازے پر کھڑے تھے۔ یہ دل دہلا دینے والا منظر تھا۔ یہ اسلحہ بردار اہلکار کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے سے باہر مظاہرین کو دیکھ رہے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت فائرنگ کر سکتے ہیں۔

امریکہ

خدا کا شکر ہے کہ جس چیمبر میں ہم تھے وہاں کوئی گولی نہیں چلی۔ مگر اندر موجودگی کے دوران ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں لگ رہا تھا۔ کیونکہ صورتحال بہت تیزی سے بگڑ رہی تھی۔

اس جگہ سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں زمین پر رینگنا پڑا اور میں نے بالکل بھی ایسے کپڑے نہیں پہن رکھے تھے جس میں ایسا کرنا آسان ہوتا۔ وہاں موجود زیادہ تر خواتین عمدہ کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھیں جبکہ ان کے پاؤں میں اونچی ہیل والے جوتے تھے، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ وہ ایک باقاعدہ تقریب میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھیں۔

وہاں سے نکل کر میں نے دوسرے افراد کے ہمراہ ہاؤس میں موجود کیفیٹیریا میں پناہ لی۔ میں ابھی بھی ڈر سے کپکپا رہی ہوں۔

میں نے بطور صحافی اپنے کیریئر میں بہت کچھ دیکھا ہے مگر یہ واقعہ کچھ زیادہ ہی تھا۔ یہ ایک عوامی علامت کو نیچے دکھانے، اس پر حملہ کرنے اور اس کی توہین کرنے کے مترادف تھا۔

صورتحال کنٹرول میں ہونے کے بعد مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اب مجھے واپس چیمبر میں جانا چاہیے یا نہیں۔ اور پھر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے واپس چیمبر ضرور جانا چاہیے کیونکہ ایسا سوچتے ہوئے میرے ذہن میں یہ پیغام تھا ’آپ ایک مجمے کو اُکسا اور بھڑکا سکتے ہیں، مگر ہم آگے کا سفر جاری رکھیں گے۔‘

میرے خیال میں یہ بہت اہم سیاسی پیغام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp