سندھ میں خاموش سیاحتی انقلاب


دیکھا جائے تو کورونا وائرس کی وجہ دنیا کے مختلف ممالک کی معیشت بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے وہاں کاروباری دنیا سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور اس میں سب سے زیادہ سیاحت کی انڈسٹری اور اس سے وابستہ لوگوں کو مالی نقصان پنہچا۔ اگر پاکستان کے ٹورازم کی بات کی جائے تو ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل ٹوئرزم بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔

اسی تناظر میں پاکستان کا صوبہ سندھ اپنی مخصوص عدم تشدد اور روایتی صوفی ثقافت کی وجہ سے سیاحوں کے لیے وبا کے دنوں میں بھی ایک پرسکون فضا والا سیاحتی مقام بنا رہا اور گزشتہ دو تین سالوں میں سندھ کی سیاحتی ترقی کے حوالے سے بے پناہ اقدامات کیے گئے ہیں جو کہ کسی خاموش انقلاب سے کم نہیں۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے عمرکوٹ کے سید سردار علی شاہ نے جب سے محکمہ ثقافت، سیاحت و نوادرات کا قلمدان سنبھالا ہے انہوں نے تو اس محکمے کا پورا نقشہ ہی یکسر تبدیل کر دیا ہے۔

پوری دنیا کے کووڈ کے باعث تاریخ کے پریشان کر دینے والے سال 2020 کو الوداع کرنے اور نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے محکمہ سیاحت نے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں موجود بقار جھیل پر نئے سال کے جشن کا پروگرام منعقد کیا جس میں مقامی آبادی کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں اور مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کو سندھ دھرتی کی خوبصورتی اور ثقافت دکھانے کی دعوت دی۔ اس ایونٹ سے پہلے ہی اردو عالمی کانفرنس اور سندھ لٹریچر فیسٹیولز، مشاعرے و ادبی نشستوں کے انعقاد سے ہی سندھ کے وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ اپنا ایک الگ ہی مقام بنا چکے ہیں ، ان پروگرامز میں ان کی ذاتی شرکت اور دلچسپی بھی عوامی پسندیدگی کی حامل رہی ہے ، سندھ کی ثقافت و سیاحت کو ملکی و عالمی سطح پر پروموٹ کرنے کے لیے سردار شاہ نے کئی اقدامات کیے ہیں اور ان اقدامات میں سب سے نمایاں قدم سندھ حکومت کو ڈجیٹل/ سوشل میڈیا پر لانے کا انقلابی کام شامل ہے۔

مجھے نہیں معلوم کے دیگر صوبوں کے کتنے محکمے ڈیجیٹلائز ہوچکے ہیں یا سندھ حکومت کے ہی کون کون سے محکمے سوشل میڈیا پر اس طرح موجود ہیں کہ ایک عام صارف کو نہ صرف ان محکموں کے بارے میں بنیادی آگاہی سوشل میڈیا پر ہی ملے بلکہ ان کے سوال جواب اور مدد کے لیے محکمہ سوشل میڈیا پر چوکنا ہو، جس کو ہم ای گورننس کے زمرے میں شمار کر سکتے ہیں۔ سردار شاہ نے جس طرح سندھ کے محکمہ ثقافت، سیاحت و نوادرات کو ڈیجیٹکائز کیا اور محکمے کی سوشل میڈیا پر 24 گھنٹے کی موجودگی یقینی بنائی تو اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس لحاظ سے محکمے کی صرف تین ویب پورٹل کا وزٹ کیا جائے تو اندازہ ہو جائے گا

ان میں سیاحت کی www.stdc.gos.pk ،  دس کروڑ کتب کا ڈیٹابیس دینے والی el.sindhculture.gov.pk
اور سندھ کے تمام آثار قدیمہ کو ڈیجیٹلائز کرنے والی ویب سائیٹ antiquities.sindhculture.gov.pk

خوشگوار حیرانی کی بات ہے کہ سندھ کے تقربباً ایک ہزار آثار قدیمہ اور سیاحتی سائٹس کی گوگل پر جیو ٹیگنگ کر لی گئی ہے اور گوگل میپ پر محکمے کی سائٹس کی تقریباً 30 ہزار تصاویر شائع ہو چکی ہیں جن کو دنیا بھر سے 20 ملین سیاح دیکھ چکے ہیں اور اس کے علاوہ محکمہ ثقافت، سیاحت و نوادرات کی سائٹس کے 800 سے زائد ورچوئل ٹورز کو گوگل اسٹریٹ ویو نے شائع کیا ہے، جن کو 19 ملین سیاحوں نے دیکھا ہے جو کہ پاکستان جیسے ملک اور سندھ جیسے صوبے کی طرف سے بہت بڑا انقلابی قدم ہے۔ جس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔

سندھ کے محکمہ سیاحت کا ویب پورٹل بھی ایک شاندار قدم ہے کہ یہ پاکستان کے کسی بھی صوبے کے کسی بھی سرکاری محکمے کی یہ پہلی ویب سائیٹ ہے جس کو عالمی طور پر سیاحوں میں سب سے زیادہ مشہور اور بااعتماد ٹور بکنگ کی ویب سائیٹ ’بکنگ ڈاٹ کام‘ کے ساتھ جوڑا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ امریکا یا یورپ میں بیٹھے بٹھائے ننگر پارکر میں ایس ٹی ڈی سی کی طرف سے قائم کردہ روپلو کولہی ریزارٹ کی آن لائن بکنگ کر سکتے ہیں اور اس کے لیے آپ کی آن لائن بینک ٹرانزیکشنز بالکل محفوظ طریقے سے سرانجام ہوں گی ۔

اس طریقے سے سندھ کے تمام سیاحتی مقامات کو ڈیجیٹلائز کر کے 24 گھنٹے آن لائن بکنگ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ ایس ٹی ڈی سی ویب پورٹل میں صوبہ سندھ کے تمام سیاحتی مقامات کے تھری ڈی ورچوئل ٹورز سمیت مکمل انفارمیشن، نقشے، موسم کی صورتحال کے ساتھ ساتھ ہر ٹورسٹ سائیٹ کے لوکل منیجر سے رابطہ کرنے کا نمبر بھی دیا گیا ہے تاکہ سیاحوں کو مکمل سہولیات میسر ہوں۔ ایس ٹی ڈی سی کے ویب پورٹل کو عالمی آن لائن ایجنسی ”بکنگس ڈاٹ کام“ اور ”ٹرپ ایڈوائزر“ کے ساتھ منسلک کر دگیا ہے۔

آن لائن بکنگ کنفرم ہوتے ہی مہمان سیاح، ایڈمن افسر اور لوکل منیجر کو آٹومیٹک ای میل بھیج دی جائے گی جس کے ذریعے انہیں بکنگ والے سیاح کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ ای میل کے علاوہ ایس ایم ایس نوٹیفکیشن کے ذریعے بھی تمام اپڈیٹس ارسال کردی جاتی ہے۔ ویب پورٹل پر سیاحوں کی معلومات کے لیے گائیڈ بکس، انفارمیشن فلائرز اور بروشرز کو ڈاؤن لوڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مہمان سیاح ایس ٹی ڈی سی کے ویب پورٹل پر اپنا پرسنل اکاؤنٹ بھی بنا سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ آگے چل کر اپنی تمام ٹریول ہسٹری بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ویب پورٹل کو انٹرنیشنل کرنسی مارکیٹ سے منسلک کیا گیا ہے جس سے بیرونی سیاح اپنے اپنے ملک کی کرنسی کے ساتھ ہی اپڈیٹ معلومات دیکھ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ سندھ کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور نوادرات نے صوبے کے قدیم تشخص کو قائم رکھنے اور علاقائی قبائل و رسوم کو بھی ڈاکیومینٹری کی شکل میں محفوظ کیا ہے۔ سندھ اور سندھی ثقافت سے متعلق دستاویزی وڈیو فلمیں یوٹیوب پر رکھی گئیں ہیں۔ سندھ کی تاریخ و تہذیب سے دلچسپی رکھنے والے یہ دستاویزی فلمیں خود بھی دیکھتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو بھی دکھاتے ہیں تاکہ انہیں اپنی ثقافت و تہذیب کی درست آگاہی ہو سکے۔ یہ سندھ حکومت کے محکمہ ثقافت کا سرکاری آفیشل یوٹیوب چئنل ہے جس کو دیکھ کر میں تو حیران رہ گئی کہ کسی بھی ٹی وی چینل سے کسی بھی معاملے میں کم نہیں، ایک لاکھ سے زائد سبسکرائیبرز اور طرح طرح کے ثقافتی پروگرامز، کیا ہی بات ہے۔ محکمہ ثقافت کے یوٹیوب چئنل پر سندھی، اردو اور انگریزی زبان میں مندرجہ ذیل فلمیں اپلوڈ کر دی گئی ہیں جو کہ سندھ کی قدیم تاریخ، ثقافتی قبیلے اور ان کا منفرد تشخص و رسومات سمجھنے کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں :

*قومیں /قبیلے :* چارن، گواریا، جت، کاریا، کچھی، کوچڑا، کولھی، ریباڑھی

*آثار قدیمہ:* اچھڑو تھر، کینجھر، کوٹڈجی، تھر، پکہ قلعہ، رنی کوٹ، عمرکوٹ، کولاچی سے کراچی

*لطیفیات:* شاہ عبداللطیف بھٹائی، شاہ سچل اور سامی، سر لیلا چنیسر، مومل رانو، نوری جام تماچی، سسئی، سھنی میھار اور لاڑ میں لطیف

*نامور شاعر:* ابراہیم منشی، سچل سرمست، شیخ ایاز، شمشیر الحیدری، حسن درس

*سائنسی ڈاکیومینٹریز:* وجود کائنات، وجود زمین، انسانی ارتقاء

*دیگر اہم ڈاکیومینٹریز:* اجرک کا بننا، سندھی لوک موسیقی، شادی بیاہ کے سندھی سہرے / گانے وغیرہ شامل ہیں۔

محکمہ ثقافت کی طرف سے ڈیجیٹل لائبرری بھی قائم کی گئی ہے جو کہ اپنی مثال آپ ہے۔

محکمہ ثقافت کی طرف سے حال ہی میں قائم کردہ ذیلی ادارے عبدالماجد بھرگڑی انسٹیٹیوٹ آف لینگویج انجینئر نے کامیابی کے ساتھ پہلا سنگ میل عبور کیا اور پوری دنیا کے طلبا و محققین کے لیے 100 ملین سے زائد کتب و تحقیقی جرنلز تک رسائی والی ڈیجیٹل لائبریری کا قیام کامیابی کے ساتھ عمل میں لایا گیا ہے۔

اس لائبریری میں محکمے کی کتب کے علاوہ جتنی بھی کتب و لغات ڈیجیٹلی موجود ہیں ان کو اوپن سورس ڈیٹا میں بارٹر سسٹم کے تحت اپنی ڈیجیٹل لائبرری میں رسائی دی گئی ہے اور اس بارٹر سسٹم میں دنیا کے دیگر اداروں کو محکمے کی کتب تک رسائی دی گئی اور انہوں نے محکمے کو اپنی کتب تک رسائی دی۔ اب نجی پبلشرز بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کریں اور اپنی کتب آن لائن رکھنے میں محکمے کے ساتھ انہیں منسلک ہو جانا چاہیے تاکہ ان کی کتب تک دنیا بھر کی رسائی ہو سکے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو مستقبل میں زبان و ادب کے تمام ذخیرے صرف کاغذ پر محفوظ نہیں رہیں گے بلکہ جدید دنیا کے تقاضوں کے تحت ان کو ڈیجیٹلائز کرنا پڑے گا۔

اس پورٹل پر دنیا کی معروف ڈیجیٹل لائبریریوں کے کیٹیلاگ سے دس کروڑ سے بھی زیادہ کتب، تحقیقی جرائد اور مضامین تک رسائی ممکن ہے۔ ڈیجیٹل لائبریری میں پی ڈی ایف فارمیٹ کی 40 فیصد کتابیں ہیں اور باقی کتابوں میں آسانی سے تحقیق کرنے کے لیے مطلوبہ متن یا مواد کو تلاش کرنے کے لیے ٹیکسٹ بیسڈ مواد موجود ہے۔ محکمہ ثقافت کی ڈیجیٹل لائبریری کا یہ قدم ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں طلبا اور محققین کو دنیا کے سب سے بڑے ڈیٹا بیس سے منسلک کر دیتا ہے جو کہ علم پر مبنی پورٹلز کا خزانہ تحقیقی کاموں سے مالا مال ہے۔ اس سے بڑھ کر سندھ حکومت کا یہ لینگویج انجینئرنگ کا ادارہ آرٹیفشل انٹیلی جنس اور مشین لرننگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھی زبان کو روبوٹ کی زبان بنانے کے مشن پر عمل پیرا ہے اور اس حوالے سے بہت جلد بڑی کامیابی متوقع ہے۔

محکمہ ثقافت و سیاحت نے حال ہی میں دو ایسے پروگرامز منعقد کیے جن میں جانے کا اتفاق ہوا اور سندھ کے حکومتی محکموں کے بارے میں میری سوچ بالکل 180 ڈگری سے تبدیل ہوئی۔ ایک پروگرام 27 ستمبر کو ورلڈ ٹوئرزم ڈے اور دوسرا نئے سال کے موقع پر سانگھڑ میں منقعدہ جشن پروگرام۔ دونوں میں محکمے کی جانب سے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے یوٹیوبرز، وی لاگرز، فوٹو گرافرز اور رائٹرز کو سندھ کے مختلف مقامات کی سیر کرنے کی دعوت کی گئی اور انہیں سندھ کے مختلف سیاحتی مقامات وزٹ کروائے گئے۔ یوم سیاحت کے دن کا ٹور کلفٹن کراچی میں واقع محکمے کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ٹورازم اینڈ ہوٹل منیجمنٹ سے شروع ہو کر ٹھٹہ میں ہالیجی جھیل، مکلی قبرستان، شاہجہان مسجد اور کھینجر جھیل تک تھا جہاں تقریباً ایک ہزار کے قریب لوگوں سیاحتی میلے سے لطف اندوز ہوئے۔

نئے سال کے موقع پر بھی محکمہ سیاحت کی طرف سے وی لاگرز، یوٹیبورز کو سانگھڑ کی خوبصورت بکار جھیل کی سیر کرائی گئی تاکہ یہ نیا سیاحتی مقام بھی سیاحوں کی نظر میں آئے جس سے نہ صرف سندھ کی سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ مقامی آبادی کے لیے بھی روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

حال ہی میں جب کورونا کے باعث دنیا بھر میں لاک ڈاؤن لگا اور سندھ میں بھی ہر قسم کی سرگرمیوں پر حکومتی پابندی عائد ہو گئی تو سندھ نے اپنی ثقافت کو آن لائن کر دیا۔ محکمہ ثقافت نے اپنے آفیشل فیس بک پیج سے ہفتہ وار پروگرامز کا سلسلہ شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کیفے کلچر کا یہ سوشل میڈیا ہفتہ وار پروگرام عوام میں بے حد مقبول ہو گیا اور اس وقت تک لاکھوں کی تعداد میں فیس بک پر لوگ سندھ کے ثقافتی اور موسیقی کے پروگرامز سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

محکمہ ثقافت کا یہ خاموش انقلاب دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اگر سید سردار علی شاہ جیسے دو چار وزیر اور بھی آ جائیں تو ہر شعبے میں بہتری کو کوئی نہیں روک سکتا اور یہ کیا کم ہے کہ دنیا بھر میں پھیلی عدم برداشت اور انتہاپسندی جیسی فضا میں سب سے مؤثر ہتھیار ثقافتی بیانیہ ہی ہے جو کہ ہر قسم کی انتہاپسندانہ سوچ کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے اور اس حساب سے سندھ تو پہلے ہی تہذیبوں کی ماں ہے اور اپنے صوفی سکیولر مزاج کی وجہ سے ایک وجد و سحر طاری کردینے والی دھرتی ہے تو اس کی ثقافت و سیاحت کو فروغ دینے کے لیے سردار شاہ سے بہتر انتخاب ہو ہی نہیں سکتا۔

اس سے پہلے ایسا بہت کم ہی دیکھنے کو ملا ہے کہ ہم جیسے ڈیجیٹل نومیڈس اور سیاحوں کو اس طرح ہماری حکومتوں کی طرف سے ایسے دورے کرائے گئے ہوں تاکہ ان کو سندھ کی تاریخ کے بارے میں آگاہی ملے، انہیں شاہ لطیف بھٹائی، سچل سرمست، قلندر لال شہباز، نوری جام تماچی، صوفی شاہ عنایت شہید جیسی ہستیوں کے بارے میں پتا چلے کہ سندھ کی خوبصورتی سے کس طرح ہم اور آپ مل کر پاکستان کا مثبت امیج اور سندھ کی خوبصورتی دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔

سندھ میں بے پناہ دلفریب سیاحتی مقامات موجود ہیں اور عالمی ورثہ قرار دیا گیا مکلی قبرستان، سائبیریا کے پرندوں کی آماج گاہ ہالیجی جھیل، مغل فن تعمیر کی شاہکار شاہجہان مسجد، لال شہباز کا سیہون، روپلو کولھی کا ننگر پارکر، ماروی کا تھرپارکر، نوری کا کینجھر، دیوار سندھ رنی کوٹ، یا سندھ تہذیب کا مرکز موہین جو دڑو یا صوفیوں کے سرتاج شاعر بھٹائی کا بھٹ شاہ میں نصب کیا گیا مجسمہ یا پھر صدیوں سے ایک ہی چھت تلے مندر اور مسجد قائم رکھنے والی اور اس مذہبی بھائی چارے پر فخر کرنے والی اڈیرو لال کی درگاہ، سچ پوچھیں تو سندھ محبتوں کی امین دھرتی اور خوبصورتی سے مالامال سرزمین ہے۔ سندھ کو سلام، سندھ کی مہمانوازی اور محبتوں کو سلام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).