ہزارہ برادری کی عورتو! اب بس بھی کر دو


ہزارہ برادری کی عورتو! اب بس بھی کر دو، اب اٹھاؤ اپنے جوانوں کے لاشے اور انھیں زمیں برد کر دو، اب خاک ڈال بھی دو ان کٹے پھٹے جسموں پر، اب آنسو بہانا بند کرو، اب ماتم کرنا چھوڑ دو، اب بین ڈالنا ترک کردو۔

نہ تمھارے آنسو کارگر ہو رہے ہیں، نہ منجمد ہوتے، ماتم کرتے بچوں پر کسی کو رحم آ رہا ہے، نہ منفی چھے ڈگری درجہ حرارت میں دھرنے سے کسی کا دل لرز رہا ہے، نہ قیامت کی گھڑی آ رہی ہے، نہ آسمان ٹوٹ رہا ہے، نہ زمین شق ہو رہی ہے، نہ تمھاری نصرت کو گردوں سے کوئی فرشتہ آ رہا ہے، نہ حکومت کوہی ترس آ رہا ہے، نہ وزرا کی سیاسی فوائد کی خواہش مر رہی ہے، نہ وزیر اعظم آ رہے ہیں، نہ مطالبات مانے جا رہے ہیں۔ تم بس اتنا رحم کرو کہ ان لاشوں کو دفن کر دو، قبیلے میں اب کوئی مرد ایسا نہیں بچا جس کے دھڑ پر اس کا سر قائم ہو۔ تو اے ہزارہ برادری کی عورتو! خود جنازے اٹھاؤ، کلمہ شہادت کا ورد کرو، میتوں کو کاندھے دو اور قبر میں ان ادھورے جسموں کو اتار دو، ان کی مغفرت کے لیے دعا مانگو، ان قربانیوں کو عظیم جانو، ان کی یادوں کو سینے سے لگاؤ اور بس خدا کے لیے چپ ہو جاؤ۔

لاشوں کے سرہانے منجمد تین ہزار عورتوں اور بچوں کو یہ علم ہے کہ ان کے مطالبات نہیں مانے جائیں گے، نہ آئی جی ایف سی استعفی دیں گے، نہ ونگ کمانڈر ایف سی، متعلقہ ڈی پی او نہ ڈپٹی کمشنر برطرف ہوں گے، نہ مجرمان کی تلاش کبھی مکمل ہو گی، نہ انھیں قرار واقعی سزا ملے گی، نہ گزشتہ سانحوں کے مجرمان کو سرعام پھانسی دی جائے گی، نہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کا کوئی نتیجہ نکلے گا، نہ شفاف تحقیقات ہوں گی، نہ کوئی قاتل گرفتار ہو گا، نہ لاشوں کی قیمت ملے گی، نہ لاپتہ افراد بازیاب ہوں گے، نہ عدالت انصاف دے گی، نہ ہزارہ مسافروں کو تحفظ ملے گا، نہ کوئی باقی ماندہ زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گا، نہ شناختی کارڈ ملیں گے، نہ پاسپورٹ میں دشواریاں ختم ہوں گی، نہ وزیراعظم آئیں گے، نہ ظلم کی یہ روایت دم توڑے گی۔

ہزارہ برادری کی عورتو! تم جانتی ہو کہ تمھارا مقصد یہ مطالبات منوانا نہیں ہے لیکن پھر بھی تم مصر ہو۔ تم تو صرف اتنا چاہتی ہو کہ حکومتی وزرا کے یہ کھوکھلے بیانات اب ختم ہونے چاہیں کہ ہم دشمن کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے کہ تم جانتی ہو اب دشمن تو کامیاب ہو چکا ہے، گیارہ جوان جسم سر برد کر چکا ہے، وہ فتح یاب ہو چکا ہے، گیارہ جوان اس کی کامیابی کا ثبوت بن چکے ہیں، اب طفل تسلیاں تمھیں اور اذیت دیتی ہیں، یہ قربانی کی مثالیں تمھارے زخموں کو کھرچتی ہیں، اس لیے کہ یہ گیارہ جیتے جاگتے انسان قربانیاں دینے کو نہیں گئے تھے، نہ ان کا کسی جہاد میں شرکت کا ارادہ تھا، نہ کسی ملک کے خلاف سازش میں یہ شریک تھے، نہ قربانی کی مثال بننے کا ان کا کوئی ارادہ تھا، نہ بہادری کی مثال بننا ان کی خواہش تھی، نہ جرات کا نشان بننا ان کا مطمح نظر تھا، نہ دلیری کے کسی تمغے کی ان کو کوئی خواہش تھی؛ یہ معصوم مزدور تو اپنے گھروں سے روزگار کمانے نکلے تھے، رزق حلال کمانے گئے تھے، اپنے بچوں کا پیٹ پالنے گئے تھے، کان کنی ان کا پیشہ تھا، یہی ان کی روزی تھی، یہی ان کی زندگی تھی۔ اب انھیں اسی کان کے تہہ میں دفن کر دو، ہزارہ برادری کی عورتو! اب بس کر دو، اب بس کر دو۔

اب مت بتاؤ ہمیں کہ یہ مرنے والے کتنے ذہین تھے، کتنے شفیق تھے، ان کی تعلیم کے میدان میں کیا کارنامے تھے، بچوں سے یہ کتنا پیار کرتے تھے، گھر کی عورتوں پر کتنے مہربان تھے، ان کی زندگی سے بھرپور تصاویر ہمیں مت دکھاؤ، ان کی جینے کی امنگوں کی کہانی ہمیں مت سناؤ، ان چہروں کی نرمی کا احساس ہمیں مت دلاؤ، ان بچوں کو تو اس عمر میں ماتم کرتا مت دکھاؤ، سر میں خاک ڈالتی ان عورتوں کے مناظر ہمیں مت دکھاؤ ؛ اس لیے کہ ہم اب ان مناظر کے عادی ہو چکے ہیں، اب تم بھی ان لاشوں کی عادی ہو جاؤ، بچوں کو ذبح ہونے کے لیے جوان کرو، انھیں شفقت سے پالو پوسو، ان کے زندہ جسموں کے بوسے لو اس لیے کہ انھیں جلد ذبح ہونا ہے، ان کے سر کو ان کے تن سے جدا ہونا ہے۔

ہزارہ برادری کی عورتو! بس اب تم تحفظ کی خواہش چھوڑ دو، بس تم اب امن کی تمنا ترک کر دو، اب ریاست کو آواز دینا بند کرو، رحم کی اپیلیں کرنا چھوڑ دو؛ اس لیے کہ یہ واقعہ آخری نہیں ہے جب تمھارے نوے لوگ مار دیے گئے تھے تو اس وقت بھی تم نے سارے پاکستان میں دھرنا دیا تھا جس کا نتیجہ اب تمھارے سامنے برف میں پڑا ہے۔ اے تین ہزار عورتو اور بچو! اب چاہے تم ماتم کرتے کرتے برف ہو جاؤ، بس حفاظت کے خواب چھوڑ دو۔ اس لیے کہ ان سانحوں کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے، اذیت ناک سرکاری بیانات تھمنے والے نہیں ہیں، ظلم کی یہ رات ڈھلنے والی نہیں ہے۔ یہ واقعات پھر ہوں گے، پھر جوانوں کے لاشے گریں گے، پھر برف میں تم احتجاج کرو گی اور پھر طفل تسلیاں تمھارا مقدر بنیں گی، پھر تمھیں حوصلہ رکھنے کا مشورہ دیا جائے گا، پھر تمھاری ہمت کی داد دی جائے گی، پھر تمہاری عظیم قربانی کی مثال دی جائے گی۔

یاد رکھو ہزارہ برادری کی عورتو! یہ نعرے اس لیے لگتے ہیں کہ تم اگلے سانحے کے لیے تیار ہو جاؤ، ایک دفعہ پھر ماتم کے لیے کمر کس لو ایک دفعہ پھر اپنے پیاروں کی لاشیں سامنے رکھ کر دھرنا دے سکو، اب تمھیں اس کا عادی ہو جانا چاہیے، تمھیں یقین ہو جانا چاہیے کہ یہاں کچھ نہیں بدلنے والا، یہاں یہی ظلم ہوتا رہے گا، یہاں قاتلوں کی پشت پناہی والے طاقتور لوگ موجود رہیں گے، یہاں دہشت گردوں کی پیٹھ تھپکنے والے حاضر رہیں گے، یہاں نفرت کی آگ میں تمھاری نسلیں بھسم ہوتی رہیں گی۔

برف میں منجمد ہوتی ہزارہ برادری کی عورتو! بس ایک نصیحت یاد رکھنا کہ کبھی اپنی بچیوں کو مرد بننے کی تلقین نہ کرنا، اس لیے کہ تمھارے قبیلے کے مردوں کے سر تن سے جدا کر دیے جاتے ہیں، ان کو رسیوں سے باندھ کے ذبح کر دیا جاتا ہے۔

ہزارہ برادری کی عورتو! اب بس بھی کر دو، اب اٹھاؤ اپنے جوانوں کے لاشے اور انھیں زمیں برد کر دو، اب خاک ڈال بھی دو ان کٹے پھٹے جسموں پر، اب آنسو بہانا بند کرو، اب ماتم کرنا چھوڑ دو، اب بین ڈالنا ترک کردو۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar