کیپیٹل ہل میں تشدد: کیا امریکی مقننہ پر پہلے بھی کبھی حملہ کیا گیا ہے؟


ٹرمپ کے حمایتی
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے کیپیٹل پر دھاوے کو ’بغاوت‘ سے تعبیر کیا ہے
جمہوری انتخابات کے نتیجے کو الٹنے کے لیے امریکی دارالحکومت میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی تصاویر نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔

یہ حملہ صدر ٹرمپ کے حامیوں نے ان کے واشنگٹن میں ایک ریلی سے خطاب کے بعد کیا جس میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اسے ’بغاوت‘ قرار دیا، جبکہ نائب صدر مائیک پینس نے کہا کہ یہ تشدد امریکی کیپیٹل کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

کیپیٹل ہل پر مظاہرین کا دھاوا: کیا امریکہ کا پاکستان سے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟

’انھوں نے زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی، پھر میں نے گولی چلنے کی آواز سُنی‘

کیپیٹل ہل کا محاصرہ تصاویر میں

وہ سلوک جسں نے ایک سیاہ فام امریکی کو ہائی جیکر بنا دیا

لیکن یہ پہلا موقع نہیں وہ عمارت جس کو امریکی جمہوریت کے علامتی دل کے طور پر سمجھا جاتا ہے تشدد کا نشانہ بنی ہو۔

بموں سے لے کر غیر ملکی جارحیت تک، امریکی کیپیٹل پر چار مرتبہ حملہ ہو چکا ہے۔

1814: برطانوی فوج نے اسے جلانے کی کوشش کی

شاید اس پر سب سے مشہور حملہ 1812 کی جنگ کے دوران برطانوی فوج نے کیا تھا۔

وائس ایڈمرل الیگزانڈر کاکبرن اور میجر جنرل رابرٹ راس کی قیادت میں برطانوی فوج نے اگست 1814 میں واشنگٹن ڈی سی پر قبضہ کرنے کے بعد اس وقت کیپیٹل کی زیرِ تعمیر عمارت کو جلانے کی کوشش کی۔ تاہم بارش کی وجہ سے عمارت تباہ ہونے سے بچ گئی۔

برطانوی حملے کے بعد کیپیٹل کی عمارت کی ایک تصویر

برطانوی حملے کے بعد کیپیٹل کی عمارت کی ایک تصویر

امریکیوں کی جانب سے یارک میں اپر کینیڈا کے دارالحکومت کو آگ لگانے کے جواب میں برطانوی فوجیوں نے واشنگٹن ڈی سی کی دیگر اہم عمارتوں جن میں وائٹ ہاؤس بھی شامل تھا آگ لگائی۔ انھوں نے شہر کے اور کئی حصوں میں کارروائی کی۔

سنہ 1814 کا حملہ وہ واحد واقعہ تھا جب کسی بیرونی طاقت نے واشنگٹن پر قبضہ کیا ہو۔

سنہ 2014 میں واشنگٹن میں برطانوی سفارتخانے نے وائٹ ہاؤس کو جلانے جانے کے 200 سال پورے ہونے کے بعد ایک ٹویٹ کیا تھا جس میں وائٹ ہاؤس کی عمارت کی طرح کا کیک دکھایا گیا تھا جس کے ارد گرد پھل جھڑیاں تھیں۔ سفارتخانے نے اس پر معذرت کی تھی۔

سنہ 1915: چار جولائی کا ڈئنامائٹ حملہ

برطانوی حملے کے ایک سو سال بعد ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر ایرک میونٹر نے سینیٹ کے استقبالیہ کے کمرے میں تین ڈئنامائیٹ بم چلائے تھے۔ ایرک پہلے ہارورڈ میں جرمن پڑھایا کرتے تھے۔

ان دھماکوں سے عمارت کو نقصان پہنچا لیکن ان سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

بعد میں میونٹر نے کہا کہ یہ حملہ پہلی جنگِ عظیم میں امریکی فنانسیئرز کے جرمنی کے خلاف برطانیہ کی مدد کے ردِعمل کے طور پر کیا گیا تھا۔

واشنگٹن ایوننگ سٹار میں ایک فرضی نام سے لکھتے ہوئے میونٹر نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ یہ حملہ ’اتنی آواز پیدا کرے کہ یہ جنگ کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو مانند کر دے گی۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’یہ دھماکہ امن کی میری اپیل کے حوالے سے ایک علامت ندائیہ ہے۔‘

اس حملے کے ایک دن بعد میونٹر نے فائنانسیر جے پی مورگن جونیئر کو گولی مار کر زخمی کر دیا۔ انھیں مورگن کے بٹلر نے قابو کر کے گرفتار کروایا۔ بعد میں میونٹر نے خود کشی کر لی تھی۔

سنہ 1954: پیورٹو ریکن قوم پرستوں کا حملہ

یکم مارچ سنہ 1954 کو پیورٹو ریکو کے چار قوم پرستوں نے ایوانِ نمائندگان میں موجود ویزیٹرز گیلری میں ایک دم اپنے جزیرے کا جھنڈا نکالا، ’پیروٹو ریکو کے لیے آزادی‘ کا نعرہ لگایا اور فائر کرنے شروع کر دیے۔ اس حملے میں کانگریس کے پانچ ارکان زخمی ہوئے تھے۔

اس گروہ کی رہنما لولیٹا لیبورن نے گرفتاری کے وقت کہا کہ ’میں کسی کو مارنے نہیں آئی ہوں، میں پیورٹو ریکو کے لیے مرنے آئی ہوں۔

' گروہ کی رہنما لولیتا لیبورن نے کہا کہ 'میں پیورٹو ریکو کے لیے جان دینے آئی ہوں۔'

‘ گروہ کی رہنما لولیتا لیبورن نے کہا کہ ’میں پیورٹو ریکو کے لیے جان دینے آئی ہوں۔‘

لیبورن کو 50 سال قید کی سزا جبکہ ان کے تین ساتھیوں کو 75 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

اس سزا کو بعد میں صدر جیمی کارٹر نے معاف کر دیا۔ ان کی انتظامیہ نے کہا کہ رہائی ’ایک اہم انسانی ہمدردی کا اشارہ ہو گا اور بین الاقوامی برادری بھی اسے اسی طرح ہی دیکھے گی۔‘

رہائی کے بعد اس گروہ کے پیورٹو ریکو پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا۔

سنہ 1983: ’مزاحمتی سازش کا بم‘

7 نومبر 1983 کو سینیٹ کی عمارت کے دوسری منزل پر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔

دھماکہ سے ایک منٹ پہلے کسی نے اپنا تعلق ایک گروہ ’آرمڈ ریسسٹینس یونٹ‘ سے بتاتے ہوئے کیپیٹل سوئچ بورڈ پر کال کر کے بتایا کہ دھماکہ ہونے والا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ حملہ امریکی فوج کی غرناطہ اور لبنان میں فوجی کارروائی کے جواب میں کیا جا رہا ہے۔

حملے کے بعد کیپیٹل کے باہر پولیس کی گاڑیاں

حملے کے بعد کیپیٹل کے باہر پولیس کی گاڑیاں

اس حملے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی لیکن کافی نقصان ضرور ہوا۔

سنہ 1988 میں ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے بائیں بازو کے ریزسٹینس کانسپائریسی گروہ کے سات اراکین کو کیپیٹل اور فورٹ مکنائیر اور واشنگٹن نیوی یارڈ پر مختلف حملوں کے الزام میں گرفتار کیا۔ یہ حملے سنہ 1983 اور 1984 میں کیے گئے تھے۔

سنہ 1991 میں لنڈا ایونز اور لورا وائٹ ہارن کو سازش اور جان بوجھ کر بدنیتی سے حکومتی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ دونوں اب آزاد ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp