جنازے اٹھانے والے مرد


منظر خاصا تکلیف دہ ہے لیکن پچھلے چند دنوں سے میں روز یہ منظر دیکھتی آ رہی ہوں۔ میں خود کو دوسرے کاموں میں مصروف کر کے اس منظر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی ہوں لیکن یہ ہر روز یہ منظر پوری شدت سے میرے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کوئٹہ شہر مجھے کتنا پیارا ہے یہ تو کوئی میرے دل سے پوچھے اور جب اس شہر کو کوئی نیا زخم ملتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ میرے وجود میں کسی نے انگارے بھر دیے ہوں۔ کوئٹہ شہر کی مغربی بائی پاس پر ان دنوں آہوں اور سسکیوں کا راج ہے۔

یہ آہیں، یہ بین میرے کانوں کے پردے پھاڑ دیں گے لیکن میں ان حکمرانوں پر حیران ہوں جو ایک بار بھی پرسہ دینے ان مظلوموں کے گھر نہیں پہنچے۔ کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ اگر ان کا کوئی اپنا اس دنیا سے چلا جاتا تو کیا یہ اتنے دن تک ان کے جنازے پڑے رہنے دیتے۔ یہ مائیں، یہ بہنیں جو جنازوں پر بین ڈال رہی ہیں یہ بھی اسی ملک کی شہری ہیں لیکن ان کو کوئی شہری نہیں سمجھتا۔ ان کے ساتھ ایسا ظلم پہلی بار تو نہیں ہوا۔

ہزارہ برادری کے لوگوں کو تو کئی سال سے اس اذیت کا سامنا ہے۔ سوچتی ہوں مچھ کی اس کان میں موجود ان گیارہ نوجوانوں کی آنکھوں میں کتنے خواب ہوں گے۔ کتنی مسکراہٹوں سے ان کے رابطے ہوں گے۔ وہ زندگی کے حسین راستوں پر شوخ رنگوں کے عکس آنکھوں میں لئے پھرتے ہوں گے۔ وہ تو ایک اور روشن صبح کی آمد کے منتظر تھے کہ ایک بدصورت آندھی چلی توان پھول جیسے چہروں کو لہو لہو کر گئی۔ سوچیں ذرا اٹھارہ سال میں اسی حملے اور ان حملوں میں سولہ سو شہید جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔

ایک مخصوص فرقے کی آڑ لے کر انہیں ذبح کر دیا جاتا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ مذہبی دہشت گردی ہے۔ نہیں، یہ مذہبی دہشت گردی نہیں یہ انسانیت کا قتل ہے۔ یہ مائیں اپنے بیٹوں کے تابوت میں بند وجود کو دیکھتی ہیں اور بے بسی سے آسمان کی طرف نگاہ کرتی ہیں جہاں سے سخت سردی کے قافلے اتر رہے ہیں لیکن ان ماؤں اور بہنوں کے وجود کے اندر جو ہمیشہ کے لئے سرد موسم ٹھہر گیا ہے۔ اس کے آگے تو یہ سردی کچھ بھی نہیں ہے۔ ان جوانوں کی لاشیں اپنی ابدی آرام گاہ میں جانے کی منتظر ہیں لیکن ان ماؤں کے غم کو سمیٹنے والے اس لمحے شہر اقتدار میں سو رہے ہیں۔

ان کے ہاتھوں میں جو کارڈز ہیں ان پر وہی مطالبات لکھے ہیں جو لاشوں کے پاس بیٹھ کر ایک مظلوم کے ہو سکتے ہیں لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ سردی کی وجہ سے ہمارے جذبات بھی جم گئے ہیں۔ ہمارے آنسو بھی کمرشل ہو گئے ہیں۔ جہاں رونے سے ہماری عزت بنتی ہے ہم وہیں روتے ہیں۔ ان مظلوم ہزاروں کے لئے رو کر ہم نے کرنا بھی کیا ہے۔ یہ بھی اگر تابوتوں میں بند اپنے خوابوں کو سرعام نہ رکھتے تو شاید ہم انہیں اتنی اہمیت بھی نہ دیتے جتنی ہم دے چکے ہیں۔ میں نے دیکھا تھا کہ ماں روتے ہوئے ایک ہی بات کہہ رہی تھی۔

”بیٹا ہم اپنے جوانوں کو کیسے دفنائیں ہمارے تو جنازے اٹھانے والے مرد ہی نہیں رہے۔“

اس ماں کو کوئی کیسے سمجھائے کہ اگلے چند دنوں تک ان کے تابوت میں بند خوابوں کو ابدی ٹھکانہ نصیب ہو ہی جائے گا۔ سوئے ہوئے حکمران بھی شاید جاگ جائیں لیکن شناختی کارڈ پر لکھی ان کی شناخت کو تسلیم کرنے میں نجانے کتنا وقت لگ جائے۔ کب ہم یہ تسلیم کریں گے کہ مرنے والے افغانی، پاکستانی، شیعہ یا سنی بعد میں تھے، پہلے انسان تھے اور بے گناہوں کے قتل پر ماتم سب انسان کرتے ہیں۔

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).