پولیس کب بدلے گی؟


اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی پولیس دستے کے ہاتھوں بائیس سالہ نوجوان اسامہ کے قتل نے پورے پاکستان کو ہلا کے رکھ دیا۔ اب بیان آتے رہیں گے، مذمت ہوتی رہے گی، وزراء تحقیقات کے اعلان کرتے رہیں گے، اخباروں میں اداریے شائع ہوتے رہیں گے، اپوزیشن کے راہنما اسے حکومت کی نا اہلی قرار دیتے رہیں گے۔ لیکن اسامہ کے والدین، اس کے بہن بھائی اب کبھی اس کی شکل نہیں دیکھ پائیں گے۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس کے والدین پر کیا گزری ہو گی۔

کس طرح انہوں نے خود کو مشکلوں میں ڈال کر اسامہ کو پروان چڑھایا ہو گا۔ اسے لکھا یا پڑھایا ہو گا۔ اس سے کیا کیا امیدیں وابستہ کی ہوں گی اور کس طرح پولیس کے ایک دستے نے جسے دہشت گردی کے خاتمے کی تربیت دی گئی تھی، جو دہشت گردوں کی بیخ کنی پر مامور تھا، اس نے انتہائی رعونت کے ساتھ دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نہتے نوجوا ن کا بدن گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ کیا دہشت گردی کی خصوصی تربیت رکھنے والے ان پانچ اہلکاروں کے لئے ممکن نہ تھا کہ کسی گاڑی کو روک لیتے؟

کیا ان پانچوں میں سے کسی کو نشانہ لگانے کی یہ تربیت نہیں ملی تھی کہ وہ گاڑی کے ٹائروں پر نشانہ لگا کر اسے روک لیتا؟ کیا وجہ ہے کہ صرف اکیلے نہتے نوجوان کو چاروں طرف سے گھیر کر، بالخصوص سامنے کھڑے ہو کر صرف نوجوان کو نشانہ لگانا ہی واحد حل رہ گیا تھا؟ کیا اس کے پاس کوئی مہلک ہتھیار تھا؟ کیا اس نے مقابلہ کرنے یا مزاحمت کی کوشش کی؟ ایسے کوئی آثار نہیں ملے۔ کوئی اہلکار زخمی نہیں ہوا۔ کسی کے بدن پر خراش تک نہیں آئی۔ پولیس کی گاڑی پر فائرنگ کا ایک بھی نشان نہیں ملا۔ تو پھر اس سنگ دلی کو دہشت گردی نہ کہا جائے تو کیا نام دیا جائے؟

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال کی افسوسناک مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد اسی طرح شور اٹھتا ہے۔ اسی طرح چیخ پکار ہوتی ہے۔ اسی طرح مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح زوردار بیانات آتے ہیں۔ اسی طرح کمیٹیاں بنتی ہیں۔ اسی طرح وقتی طور پر اہل کاروں کو حراست میں لیا جاتا ہے اور پھر چند دنوں، یا چند ہفتوں بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ جس پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کے دعوے ہوتے ہیں وہ کلچر جوں کا توں موجود رہتا ہے۔ اصلاحات کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی۔ پولیس کے مزاج میں رعونت کا خناس اسی طرح سمایا رہتا ہے۔ کوئی نہ کوئی اسامہ اسی طرح نشانہ بنتا رہتا ہے۔ کسی نہ کسی گھر میں صف ماتم اسی طرح بچھی رہتی ہیں۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے، پولیس کا چلن بھی یہی ہے اور پولیس کی اصلاحات کے دعوے بھی یہی ہیں۔ حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہر شہری کے لئے پولیس کی وردی خوف کی علامت ہے۔ پولیس کا اہلکار خوف کی علامت ہے۔ پولیس کا تھانہ خوف کی علامت ہے۔ پولیس کی گاڑی خوف کی علامت ہے۔ پولیس کا معروف ”ڈالا“ خوف کی علامت ہے۔ ایسا آج تک نہیں ہوا، برسوں سے ہو رہا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ مختلف حکومتوں نے اصلاح کی کوشش نہیں کی۔ ایسی بہت کوششیں ہوئیں۔

کئی کمشن بنے۔ پولیس آرڈی نینس بھی جاری ہوئے۔ مشرف دورمیں کچھ تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی آئیں۔ لیکن ان ساری کوششوں کو جانچنے کا معیار یہ ہے کہ کیا پولیس کے رویے میں تبدیلی آئی؟ کیا وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ عوام دوست ہو گئی ہے؟ کیا اب وہ چالان کے لئے گاڑی روکتے ہوئے ”اوئے“ نہیں کہتی؟ کیا تھانے ہمدردانہ اور دوستانہ کلچر کے نمونے بن گئے ہیں؟ کیا گالی گلوچ اور مار پیٹ اب پرانی باتیں ہو گئی ہیں؟ کیا ایف۔ آئی۔ آر درج کرانا اب آسان ہو گیا ہے؟ ایسی ایک بہت طویل چیک لسٹ بنائی جا سکتی ہے۔ نتیجہ یقیناً حوصلہ شکن ہی نکلے گا۔

پولیس اصلاحات کے لئے بنائے جانے والے کمشن نہ جانے پولیس کے اس رویے کے کیا اسباب بتاتے اور پھر اصلاح کے لئے کیا اقدامات تجویز کرتے ہیں۔ لیکن ایک عام شہری کے ذہن سے سوچا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کی بھرتی، تربیت، کارکردگی کے جائزے اور احتساب کا کوئی موثر نظام نہیں۔ جب پولیس کی طرف سے کوئی ناروا اقدام ہوتا ہے تو نعرے ضرور لگتے ہیں لیکن عملاً کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔ اسلام آباد تو چھوٹی سی جگہ ہے۔

پورے شہر میں سیف سٹی نظام کے کیمرے موجود ہیں۔ ایک زبردست کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کام کر رہا ہے لیکن آئے روز جرائم میں اضافے کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ محاسبے کا نہ ہونا ہے۔ اسی اسلام آباد میں صحافی اغواء ہوئے۔ کچھ پتہ نہ چلا۔ مطیع اللہ جان کی بات تو ابھی کل کا واقعہ ہے۔ اغواء کرنے والے صاف دیکھے جا سکتے ہیں کہ وہ پولیس ہی کی وردیوں میں ہیں۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ لیکن کچھ نہ ہوا۔

کوئی اڑھائی سال پہلے معروف صحافی اور کالم نگار عرفان صدیقی کو ایک دہشت گرد کی طرح گھر سے اٹھایا گیا۔ ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں لایا گیا۔ اڈیالہ جیل میں ڈالا گیا۔ اس واقعے کی وزیر اعظم، چیف جسٹس، وزیر داخلہ، قومی اسمبلی کے سپیکر اور سرکاری ترجمانوں کی طرف سے یکساں مذمت کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اعلیٰ سطح تحقیقات کا اعلان کیا گیا۔ نہ کوئی کمیٹی بنی۔ نہ کوئی تحقیقات ہوئیں۔ نہ کسی کا محاسبہ کیا گیا۔ نہ کسی پولیس اہلکار سے پوچھا گیا کہ تم نے کرایہ نامہ کے کیس پر یہ سب کچھ کیو ں کیا؟

اسی سے پولیس کو من مانی کرنے اور اپنی حدود سے تجاوز کونے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اسی سے رعونت پیدا ہوتی ہے جو پولیس اہلکار کو دہشت گرد بنا دیتی ہے اور وہ کسی اسامہ کا سینہ چھلنی کر دیتا ہے۔ ایک اور پرانا مرض یہ ہے کہ سیاست نے پولیس کو کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ سیاسی مداخلت پولیس کے محکمے میں ہوتی ہے۔ فلاں کو فلاں عہدے پر لگا دو۔ فلاں کا فلاں شہر میں تبادلہ کر دو۔ فلاں کو فلاں تھانے میں بٹھا دو۔ فلاں کی ترقی کر دو۔ اس سیاست بازی نے پولیس کو اکھاڑہ بنا کے رکھ دیا ہے۔

پولیس میں بہت اچھے، دیانتدار، محنتی اور فرض شناس اہلکار بھی ہیں۔ لیکن وہ کلچر پر اثر انداز نہیں ہو رہے۔ نہ جانے وہ دن کب آئے گا جب پولیس کا فرض واقعی عام آدمی کی مدد ہو گا اور پولیس خود کو اسی فرض پر مرکوز رکھے گی۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).