ہمارے یہاں شہید بنانے کا کام تسلی بخش کیا جاتا ہے


میرے عزیز ہم وطنو،

میں جانتا ہوں کہ آپ کو اب میرے خطاب سے کوئی دلچسپی نہیں اس لئے میں اس تحریر کے ذریعے آج آپ سے مخاطب ہوں۔ آج میں آپ کو یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں شہید بنانے کا کام تسلی بخش کیا جاتا ہے۔ پڑھ کر حیران مت ہوں یہ حقیقت ہے یہ سعادت آپ کو کب کہاں، کیسے میسر آ جائے آپ کو بھی معلوم نہیں۔ لیکن یقین جانیے جب بھی ایسا ہو گا آپ کو اس منصب سے نوازا جائے گا بھلے آپ نے اپنی زندگی میں بے پناہ گناہ کیے ہوں یا معصوم رہے ہوں، آپ ابھی بچے ہوں یا بوڑھے ہوں، آپ گھر کے واحد کفیل ہوں یا بوڑھے والدین کا سہارا ہوں یہ تمغہ ملتے ہی آپ کا جنت کا ٹکٹ یقینی ہے کیونکہ جیسے ہی آپ قتل ہوئے، دھماکے میں مارے گئے یا عبادت کے دوران فائرنگ یا بم دھماکے کی نذر ہوئے عین اسی وقت مابدولت آپ کا نام شہداء کی لسٹ میں داخل کر کے سیدھا پاکستان پوسٹ سے اللہ تعالی کو ارسال کردیں گے۔

ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ خدا کی بارگاہ میں جیسے ہی پاکستان کے حکمران، اپوزیشن یا بڑی شخصیات کی جانب سے سفارش جائے گی اسے فوراً قبول کیا جائے گا کیونکہ ہم نے ماضی سے لے کر اب تک سب سے زیادہ جنت میں شہداء کے لئے پلاٹ بک کروائے ہیں۔ ہم چونکہ بحیثیت مسلمان جنت میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پر یقین رکھتے ہیں اس لئے ہماری بھیجی گئی سفارش کو کسی طور رد نہیں کیا جا سکتا۔ یقین مانیے جب کوئی فوجی محاذ پر ارض وطن کی رکھوالی کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرتا ہے تو اس کا ادارہ اس کو تمغہ دینے کی سفارش محکمہ دفاع کو بھیجتا ہے۔ ہم اس پر بھی غور کرتے ہیں اور وقت لگاتے ہیں ایسے ہی نہیں تمغے کا اعلان کر دیتے ہیں۔

آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ”یہاں رفو کا کام تسلی بخش کیا جاتا ہے“ سے بھی زیادہ جلدی ہم آپ کے عام لوگوں کو شہید کا درجہ دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں آپ سے شکایت ہے اتنا اعلی درجے پر فائز ہونے کے باوجود آپ ہماری قدر نہیں کرتے نہ ہمیں سراہتے ہیں۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی جب میں نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے ایک شہید بچے کی ماں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ خبردار جو اب کسی نے مجھے شہید کی ماں کہا، میرا بچہ اسکول پڑھنے گیا تھا جنگ کے محاذ پر نہیں۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ اس قوم کو جتنا بھی دے دو، انھیں عزت راس نہیں آتی۔

آپ اگر امریکہ میں ہوتے ناں تو آپ کو کبھی ایسے رتبوں سے نوازا نہ جاتا۔ وہ جو 2020 میں سیاہ فام جارج فلائیڈ پولیس کے تشدد سے ہلاک ہوا۔ کتنے بڑے مظاہرے ہوئے لیکن اسے حکومت نے کسی طور شہید کے رتبے سے نہیں نوازا۔ جب کہ پورا امریکہ مظاہروں کی زد میں رہا، احتجاج کرنے والوں کا سیلاب سڑکوں پر امڈ آیا لیکن ان کا صدر ٹس سے مس نہ ہوا۔ آپ کو تو ہمارا احسان مند ہونا چاہیے کہ ہم آپ کو مرنے کے اگلے چند گھنٹوں میں شہید کا درجہ دے دیتے ہیں۔ ایسا بھلا کون کرتا ہے؟

آپ کو ہمارے کیے ہوئے کام پر تنقید کرنا ہمیشہ یاد رہتی ہے یہ یاد رہتا ہے کہ ہم نے جمہوری دور میں کرپشن کی، ہم نے آمریت تلے سیاسی رہنماؤں کو ناک و چنے چبوا دیے، ہمارے کوڑے مارنا یاد ہے۔ ملک کو دو لخت کرنا یاد ہے، مجیب الرحمن کی کامیابی کو نہ ماننا یاد ہے، ہمارے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنا یاد ہے، ہمارا ایک وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکانا یاد ہے، آپ ابھی تک ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم نے اس ملک میں کرائے کی جنگ کے عوض کلاشنکوف اور ہیروئن کا زہر پھیلا دیا اور اسلحہ چوری کر کے اوجڑی کیمپ بنایا۔

آپ ابھی تک شاکی ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کی جنگ کے نتیجے میں کراچی، پشاور، کوئٹہ، لاہور کو لہو لہان کر دیا۔ آپ ہم سے شکوہ کرتے ہیں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے محرکات سامنے نہ آ سکے۔ آپ ہم پر ایوانوں میں ہوتے ہوئے مہنگائی بڑھانے، آٹا، چینی چوری کا الزام لگاتے ہیں۔ آپ ہم پر الیکشن چوری کا الزام دھرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم نے مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی سے تعاون لیا اور پھر انھیں آج تک پھانسیوں کے لئے چھوڑ دیا۔ پاکستان کے لئے مشرقی بنگال ہجرت کرنے والے بہاریوں کی کبھی خبر نہیں لی۔

آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان ہمارے بچے تھے جو اب ہمارے حلق کی ہڈی بن گئے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم نے منی لانڈرنگ کی، غریب عوام کا پیسہ کھایا۔ آپ آج بھی طنز کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا وجود ایک آمر نے بنایا اور جمہوری لیڈر نے ان کے خونریز آپریشن کی حمایت کی اور آج انھیں تتر بتر کر دیا۔ آپ ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ ایمل کانسی، عافیہ صدیقی کو ہم نے امریکہ کے حوالے کیا۔ آپ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے امریکہ کو اپنے فوجی اڈے دے دیے تھے۔

آپ تو اتنے بے حس ہیں کہ ہم کو یہ طعنہ بھی دے دیتے ہیں کہ ہم نے کارگل کا سودا امریکہ جا کر کیا۔ آپ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہم نے اب کشمیر کا سودا کر دیا۔ آپ کو شکوہ ہے کہ ہم آج بھی طالبان سے کہیں کہیں نرمی رکھتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو چین کی کالونی بنانے جا رہے ہیں۔ آپ کو یہ کہتے ہوئے بھی لاج نہیں آتی کہ لاپتہ افراد کا پتہ صرف ریاستی اداروں کو ہے۔ آپ یہ بھی کہتے پھر رہے ہیں کہ کرونا کی وبا نے جب تیزی پکڑی تو ہم نے پی ڈی ایم کے نام پر جم غفیر اکٹھا کر کے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔ ہاں ہاں مجھے معلوم ہے کہ آپ کو اور بھی الزام لگانے ہیں بہت کچھ آپ کے ذہن میں ہے لیکن رکئیے۔

کس کا اتنا ظرف ہوتا ہے کہ وہ اتنے الزامات سن کر بھی آپ کو کچھ دے، آپ کو نوازے؟ میں یاد دلاؤں؟ ملک جب دو لخت ہوا تو ہم نے جنگ کا شکار ہونے والے اور اس جنگ میں شریک ہونے والوں، دونوں کو ہی شہید کا رتبہ دیا۔ بھٹو پھانسی چڑھا وہ شہید کہلایا، جس نے اسے پھانسی پر لٹکایا وہ بھلے فضائی حادثے میں جاں بحق ہوا وہ بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوا۔ آپ نے جب دو مانی جانی شخصیات کو اس عزت سے نوازے جانے پر حسد محسوس کیا تو اسی روز ہم نے طے کیا کہ آپ کو احساس محرومی سے دوچار نہیں ہونے دیں گے بھلے آپ ہم کو اچھا نہ سمجھیں۔

یاد کریں وہ کراچی کا 1992 کا آپریشن ہو یا 12 مئی ہم نے تمام مرنے والوں کو شہید کہا۔ لیاری کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا 27 اکتوبر 2007 کا کارساز واقعہ ہم نے سب کو شہید ڈکلیئر کیا۔ 27 دسمبر کو جب بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو ہم نے انھیں شہادت کے عظیم رتبے سے نوازتے ہوئے ان تمام افراد کو بھی اعزازی شہید کہا جو اس قتل کے بعد ملک بھر میں پھوٹنے والے ہنگاموں کی نذر ہوئے تھے۔ ہم نے سانحہ علیگڑھ، سانحہ حیدر آباد پکا قلعہ، لاہور گلشن اقبال پارک واقعے، آرمی پبلک اسکول پشاور، واہگہ بارڈر دھماکے، شکار پور سانحے، صفورا گوٹھ سانحے، کراچی ائر پورٹ حملے سمیت لائن آف کنٹرول پر گولہ باری، کوئٹہ وکلا حملے، پارہ چنار میں ہونے والے سات دہشت گرد حملوں، لال مسجد واقعے، ماڈل ٹاؤن واقعے، ساہیوال دہشت گردی، پشاور چرچ حملے، آب پارہ چوک دہشت گردی، سانحہ نشتر پارک، سانحہ عباس ٹاؤن، سہیون دہشت گردی، کراچی میں نو محرم کے جلوس پر حملے سمیت بلوچستان میں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے نتیجے میں مرنے والوں کو بلا تفریق شہید قرار دیا۔ یہاں تک کہ نقیب اللہ محسود اور اسامہ ستی کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں لیکن وہ بھی اس ملک کے شہید ہی سمجھے جائیں گے۔

ہمارے یہا ں ملزم کو مجرم ثابت ہونے میں کئی سال کا عرصہ درکار ہے لیکن آپ کو شہید قرار دینا ہمارے لئے سب سے اولین ترجیح ہے۔ اس کے باوجود میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ آپ کو اتنی عزت دینے کے لئے ہم پوری سچائی سے دل و جان سے آپ کی خدمت میں بیٹھے ہیں اور آپ ہیں کہ یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ مقتدر اعلیٰ جب مچھ سانحے کے واقعے پر کوئٹہ آئے گا تو ہی ہم میتیں دفنائیں گے۔ خدا کا خوف کیجئے آپ کے پیاروں کی میتیوں کو ابھی مٹی نصیب نہیں ہوئی لیکن آپ ہماری نیک نیتی اور برق رفتاری دیکھئے کہ ہم نے آپ کے پیاروں کو شہید قرار دیے جانے اور انھیں جنت میں اعلی مقام دینے کا خط اسی روز اوپر بھجوا دیا تھا۔ جب آپ ان کے گلے کٹی لاشوں کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ ان کے حلق میں نوالا پھنس جاتا تھا تو ان کی ماں کا کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے کہ میرا بچہ کس اذیت میں آ گیا، یہ کون ایسا پیدا ہوا ہے جس نے ان کی شہ رگوں کو کاٹتے وقت ذرا بھی ہاتھوں کو جنبش نہ آنے دی۔

یاد رکھئے یہ تو صرف دس کان کن ہیں ماضی میں اس ملک میں کتنے ہی بے شمار بیٹے شہید کے رتبے پر فائز ہوچکے ہیں۔ آپ کچھ ایسے نہیں جن کے لئے بار بار مقتدر اعلیٰ کو آنا پڑے۔ آپ کو اب خود کو اس بات کے لئے تیار رکھنا چاہیے کہ آپ کے بیٹے اس ملک کا وہ قرض ہیں جو جان جانے سے ہی اتر سکتا ہے۔ آپ کی ماؤں کو اس بات کا فخر ہونا چاہیے کہ ان کے بیٹے اس ارض وطن پر کسی بھی وقت جان نچھاور کر کے پورے خاندان کو شہید کے خاندان کی عزت دلا سکتے ہیں۔

آپ کی بیویوں کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ وہ شہید کی بیوہ کہلانے کا شرف پاسکتی ہیں اور آپ کے بچوں کو اس بات کی عادت ہونی چاہیے کہ وہ پارکوں میں کھیلنے کے بجائے یونہی قبرستانوں کا رخ کیا کریں تاکہ ان کے اندر کا ڈر اور خوف ختم ہو سکے کیا پتہ اچانک انھیں کبھی اپنے باپ کو دفنانے کے لئے جانا پڑے تو وہ اسے قبول نہ کرسکیں۔ اس لئے اٹھیں اور اپنے پیاروں کو مٹی دے کر ان کی روحوں کو سکون دیں کیونکہ آپ 2021 کے برس کے پہلے دس شہیدوں کے خاندان کہلارہے ہیں۔

اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
پاکستان زندہ باد

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar