گیارہ روحوں نے فرشتوں کو حساب دینے سے انکار کیوں کیا؟


یار فاطمہ ہمارا کیا بنے گا؟ اتنے مہینوں سے ریڈیو کے باہر دھرنا دے رہے ہیں نہ ہی عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے نہ ہی حکومت کے کان پر جوں تک رینگ رہی ہے امی اور بھائی کہہ رہے تھے کہ تم لوگوں کا کچھ نہیں بننا کیوں کہ تم لوگ تو ڈیلی ویجرز تھے ریڈیو میں تو پکے ملازمین تک کو نکالا جا رہا ہے۔ فاطمہ بولی، مولا کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا پریشان نہ ہو دیکھ اللہ کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں۔ بتول مایوسی کی تصویر بنے بولی یار ابو کی شہادت کے بعد گھر میرے ہی آسرے پر چل رہا تھا اور تمہیں تو پتہ ہے کہ میں پانچ بہنوں اور ایک بھائی کا واحد آسرا ہوں مگر ریڈیو سے فارغ ہونے کے بعد ہم تو فاقہ کشی پر مجبور ہیں بس یہ سمجھو کہ گھر میں قیامت صغری برپا ہے۔

بتول تمہیں تو میرے گھر کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ اپنے شوہر کی شہادت کے بعد اپنے باپ کے ساتھ گھر چلانے کے لیے کما رہی ہوں اور میرے ابو کافی عرصے سے بیمار ہیں کوئلے کی کان میں کام کر، کر کے انہیں سانس کی بیماری لاحق ہو گئی ہے اور میرا بیٹا معصوم قاسم جو ابھی بہت چھوٹا ہے وہی میرا واحد سہارا ہے وہ تو ابھی تک آسمان کے ستاروں کی طرف دیکھ کر اپنے باپ عباس کو بلاتا رہتا ہے کہ ابو جلدی آ جاؤ۔ ہاں یار میرا بھائی طیب بھی بتا رہا تھا کہ تمہارے ابو آئے روز کان میں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔

ہائے ری غربت تمہارے ابو ٖضعیف ہیں اور میرا بھائی بہت چھوٹا ہے مگر بیماری، غربت اور لاچاری کے باعث کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یار کیا کریں نا تو ریڈیو کی نوکری بحال ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے نہ ہی یہ بیروزگاری کا تحفہ دینے والی حکومت جاتی نظر آر ہی ہے۔ تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ اس تبدیلی سرکار کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ اس حکومت کا کچھ بھی نہیں ہونا۔ اسے بھلا کیوں ہو پرواہ غریبوں کا، روزگار چھیننے کی۔ مگر یار چوبیس گھنٹے یہ ریاست مدینہ کا راگ الاپتے رہتے ہیں یہ کیا اوپر سے لوگوں کو بدحال کرنے کا اجازت نامہ لے کر آئے ہیں؟

نہیں یار یہ تو نیچے والے فرشتوں کا کام ہے۔ چلو چھوڑو یہ باتیں لگتا ہے کہ تمہارے فون کی بیل بج رہی ہے۔ ہیلو کیا کیا؟ کون کون، نہیں نہیں، فوں سنتے ہی بتول بے ہوش ہو گئی فاطمہ چیخی ارے کوئی مولا کے صدقے بتول کو اٹھائے۔ بتول اٹھو یہ کیا ہوا تمہیں، فاطمہ نے جیسے ہی بتول کو ہوش میں لانے کے لیے منھ پر پانی چھڑکا تو بتول چلائی ہائے، ہائے قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کیا مطلب؟ بتول بولی تمہارے ابو اور میرے بھائی کو ظالم دہشتگردوں نے بڑی بیدردی سے شہید کر دیا ہے۔ کیا کہہ رہی ہو تمہارا دماغ تو ٹھکانے پر ہے؟ نہ پوچھو یار مچھ میں تو کربلا برپا ہے۔

ہر طرف رونے کی آوازیں، ماتم کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ نعرے بلند ہو رہے تھے کہ یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے۔۔۔۔ کوئی فریاد سننے والا نہیں کوئی نہیں، کوئی نہیں ہے جو ببانگ دہل سچ بولنے کی جسارت کر سکے۔ بس سائرن کی بلند آوازیں سنائی دے رہے تھیں اور پولیس والے سیٹیاں بجا کر راستے خالی کرانے میں مصروف تھے کہ ریاست مدینہ کے خلفا کی آمد آمد ہے۔ کوئٹہ کی سرد ہواؤں سے خون جسم میں منجمد ہو رہا تھا مگر لاشوں کے ورثا اپنی لاشوں کے ساتھ ماتم کناں تھے کہ وزیر اعظم عمران خان کے آنے اور انصاف کے ملنے تک لاشوں کو دفنایا نہیں کیا جائے گا۔

بلوچستان کے جام صاحب دبئی سے واقعے کے چار دن بعد کوئٹہ پہنچے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ٹوئٹر پر میتوں کو دفنانے کے اپیلیں جاری ہیں اور ریاست مدینہ کے ترجمان یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر خان صاحب کوئٹہ چلے گئے تو پھر یہ رجحان عام ہو جائے گا اور ہر دفعہ اس طرح کے واقعات کے بعد لوگ خان صاحب کو بلاتے نظر آئیں گے۔ فاطمہ بتول سے بولی کہ بتول اس سے زیادہ بے بسی کیا ہوگی کہ ہمارے گھروں کو تو قبرستان بنا دیا گیا ہے اب تو جنازوں کو کندھا دینے کے لیے گھر کا کوئی مرد نہیں بچا۔

یار قاسم کے معصوم سوال سن کر میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے جب وہ پوچھتا ہے کہ ہم ان لاشوں کو آسمان پر تارے بننے کے لیے کیوں نہیں بھیج رہے جس طرح ابو آسمان کا تارہ بنے ہوئے ہیں میں اب کیا جواب دوں اس ننھے فرشتے کو، کہ بیٹا بس ریاست مدینہ کے حاکم کے آنے کا انتظار ہے کہ وہ آئیں تو ہم اس دہشتگردی پر پڑے پردے کو ہٹا سکیں۔

کہیں دور آسمان سے یہ تمام منظر دیکھا جا رہا تھا کہ ہزارہ برادری کی گیارہ روحیں فرشتوں سے تکرار میں مصروف ہیں کہ اب ہم براہ راست جنت الفردوس میں جائیں اور وہ بھی، کسی بھی طرح کے حساب کے بغیر کیوں کہ ہم جہاں سے آ رہے ہیں وہاں کے حاکموں اور محافظوں نے ہمیں اپنا حساب نہیں دیا۔ آسمان والوں کو حساب لینا ہے تو ہمارا زمین والا حساب صاف کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).