حکومت قیوم چنگیزی کی تجویز پر عمل کر لے


” امن، انسانیت اور دین کے دشمنوں نے ایک بار پھر ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا۔ اب کی بار اس کمیونٹی کے وہ قابل رحم کان کن شہید کر دیے گئے جنہوں نے اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کی خاطر اپنے گھر سے میلوں دور زمیں کی تہ میں اپنی زندگیاں گزارنے کا رسک لیا ہوا ہے۔

تین جنوری کو مچھ کے علاقے میں گیارہ کان کنوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کے ہاتھ پشت پر باندھ کر بعض کو گولیاں مار کر اور بعض کو تہ تیغ کر کے شہید کر دیے گئے کہ انسانیت شرما گئی۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی بہت سے گھرانے اجڑ گئے، بے شمار بچے یتیم اور عورتوں بیوہ ہو گئیں۔ حسب معمول اس مرتبہ پھر ملک کے وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلی اور گورنر صاحباں کی طرف سے ان کے ترجمانوں نے مذمتی بیانات جاری کر دیے۔ کسی نے دہائی دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر دم لیں گے“ ۔ کسی نے پھر سے عہد کرنے کی ٹھان لی ہے کہ ”دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں اور ملک و قوم کو مزید دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔

مصیبت کی اس گھڑی میں اس وقت ہزارہ برادری کے لوگوں کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کے دھرنے میں کم ازکم وزیراعظم تو آئے جنہیں وہ اپنے مطالبات پیش کریں۔ لیکن حکومت نے بڑا تیر یہ مارا کہ اس غمزدہ برادری کے پاس پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بھیجا۔ دھرنا ختم نہیں ہوا تو بعد میں زلفی بخاری کو جہاز میں روانہ کر دیا جس نے لفظی یقین دہائیاں تو دیں لیکن اسلام آباد پہنچنے کے بعد انہوں نے وزیراعظم صاحب کو ابھی تک کوئٹہ آنے پر راضی نہیں کیا ہے۔

شہداء میں ایک معصوم طالبہ معصومہ یعقوب علی کا اکلوتا بھائی محمد صادق اور چار دیگر رشتہ دار بھی شامل تھے۔ ٹھٹھرتی سردی میں سڑک پر پڑے جنازے کے ساتھ کھڑی معصومہ نے کیا دل ہلانے والی باتیں کہی جو بے حس حکمرانوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہی تو ہے، معصومہ کہی رہی تھیں کہ

”کربلا کا منظر اگر کسی نے دیکھنا ہے تو وہ میرے خاندان کو دیکھ لیں جس میں جنازہ کو کندھا دینے والا کوئی مرد نہیں رہا۔ اس کے بعد ہم چھ بہنوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے بھائی اور اپنے رشتہ داروں کے جنازے خود اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ معصومہ کا کہنا تھا کہ میں مدنی ریاست کا راگ الاپنے والوں سے سوال کرنا چاہتی ہوں کہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ کیسی مدنی ریاست ہے جس میں دن دیہاڑے معصوم خاندانوں کے افراد کو دن دیہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس کے بعد میڈیا پر تعزیتی بیانات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے، اگر تو یہ واقعی انصاف کی ریاست ہے، مسلمانوں اور مدینہ کی ریاست ہے تو ہمارے شہداء کے قاتلوں کو فی الفور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔“

سچ بات یہ ہے کہ صوبے میں اس محنت کش برادری کے اندر موت کا کھیل نوے کی دہائی سے بھی پہلے شروع ہوا تھا جو دو ہزار اکیس میں بھی بدستور جاری ہے۔

یہ غالباً 1992 کی بات ہے کہ اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا اٹھا کر تک جانے والے عبدالقیوم چنگیزی نے ایک انٹرویو کے دوران حکومت کو پیشکش کی کہ ویسے بھی ریاست ہم لوگوں کو تحفظ دلوا نہیں سکتی، یوں یہ ہماری برادری کے منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں بھی ہم سے چھین کر اسے بیچ دیں اور ان پیسوں کے عوض ایک بحری جہاز خرید کر اس میں لاکھوں ہزاروں کو بٹھا کر سمندر برد کر دیں تاکہ اسے اس درد سر سے پوری طرح جان چھوٹ جائیں ”۔

عجیب سہل طریقہ ہمارے کرم فرماؤں نے قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا یہ بھی ڈھونڈا ہے کہ ایسے سانحات کے پیچھے بہت جلد انہیں انڈیا اور افغانستان کے جاسوسی اداروں افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کا ہاتھ تو بہت جلد نظر آ جاتا ہے لیکن موت بانٹنے والوں کو گرفتار کرنے میں وہ بے بس رہے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ دہشت گرد اور انتہا پسند کیوں دہشت گردی سے باز نہیں آرہے ہیں بلکہ بنیادی سوال یہ قوم اب یہ پوچھ رہی ہے کہ ریاست دو دہائیوں سے اس عفریت سے آخر نپٹ کیوں نہیں سکتی؟

دو ہزار سولہ میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو فرشتوں جیسے بچوں کے قتل عام کے بعد حکومت نے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ اگر اس منصوبے پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہوا ہے تو انسانیت کے دشمن کہاں سے برآمد ہوتے ہیں؟ یہ ہیں وہ سوالات ہیں جو اس وقت ہرکس و ناکس کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں لیکن ان سوالات کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ دہشتگردی کے نہ تھمنے والے حملوں کے خلاف اگر حکومت کی تغافل پر نکتہ چینی کرتا ہے تو وہ ملک کا غدار، این ڈی ایس اور را کا یار ٹھہر جاتا ہے۔ اسی طرح میڈیا میں جو صحافی اس اندھیر نگری کے بارے میں بولنے کی جسارت کرتاہے تو اس بے چارے کا حشر بھی یہ قوم دیکھ چکی ہے۔

اس سانحے کے بعد پھر کیا ہوگا؟ بس وہی ہوگا جو آٹھ اگست کے سانحے کے ہفتہ دس دن بعد ہوا تھا۔ شہر میں معمولات زندگی پھر سے بحال ہونا شروع ہوں گے اور خاکم بدہن لوگ ایک اور سانحے تک اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ حکومت بھی معمول کی طرح اس مرتبہ بھی سانحہ آٹھ اگست ( وکلاء برادری کا قتل عام) کے سانحہ کی طرز پر ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے گی۔ البتہ یہ پھر الگ بات ہے کہ پہلے کی طرح اس کی رپورٹ آنے کے بعد اس کے اندر بھی کیڑے نکالے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).