مکتوبی ادب اور ایپس ٹولری ناول ”پاپی“


کون جانتا تھا کہ ای میل کے توسط سے مکتوبی ادب ’کا جو سلسلہ، دو سال قبل ”درویشوں کا ڈیرہ“ سے شروع ہوا تھا۔ ایک دن سات کتابوں کی شکل میں انگریزی و اردو ادب کے افق پر ایک درخشاں قوس قزح بن کر نمو دار ہوگا اور عالمی ادب میں خطوط نویسی کو بطور ادبی صنف کہ دوبارہ زندہ و تابندہ کر دے گا۔ اس اہم صنف کے احیا ء کا خواب خالد سہیل نے 2018 ء میں دیکھا تھا۔ ادبی، علمی اورتخلیقی خطوط پر مشتمل جو کتب لمحہ موجود تک منظر عام پر آ چکی ہیں، ان میں : درویشوں کا ڈیرہ، ادبی محبت نامے، In Search of Peace، Literary Love Letters، Dervishes Inn، شامل ہیں۔

زیر نظر کتاب ”پاپی“ مرزا یاسین بیگ اور خالد سہیل کے مابین لکھے گئے اڑتالیس خطوط کے تبادلے کا مجموعہ ہے۔ چونکہ خطوط کے تبادلے کے دوران دو مرکزی کرداروں کے بیچ ایک رومان آمیز دوستی پروان چڑھتی ہے۔ اس حوالے سے یہ کتاب ایک مستند Epistolary ناول بھی ہے۔ کہانی کا خاکہ کچھ اس طرح سے ہے ::

کراچی میں رہائش پذیر رضوانہ حسین (مرزا یاسین بیگ) ایک شادی شدہ عورت ہے جو اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ ایک تکلیف دہ زندگی گزار رہی ہے۔ اس کرب انگیز زندگی کی وجہ اس کا اپنا شوہر ہے جو مہاجر نظریے کی سیاسی جماعت کا عہدے دار ہے۔ یہ وہ دور ہے جب کراچی پر بھتہ خوروں، منشیات فروشوں اور اغوا برائے تاوان ایسے افراد کا قبضہ تھا۔ اس جماعت کا لیڈر ملک سے فرار ہو کر بیرون ملک جا بسا تھا۔ رضوانہ کا شوہر کاشف آئے دن ڈاکے، قتل و اغوا ء برائے تاوان ایسی مختلف وارداتوں میں ملوث ہے۔

اس کا ذاتی کردار اتنا کمزور اور گھناؤنا ہے کہ وہ رضوانہ کو مجبور کرتاہے کہ وہ باقی عہدے داروں کی بیویوں کی طرح پارٹی لیڈر کا دل لبھانے کے لئے اس کے ساتھ بیرون ملک کا سفر کرے تاکہ اعلیٰ قیادت خوش ہو کر اس کو بڑا عہدہ عطا کرے۔ رضوانہ کے انکار پر وہ اس کوشدید زد و کوب کرتا ہے۔ کاشف اپنی بیوی کو ذہنی اذیت دینے کے لئے اپنی پارٹی کارکن خواتین کو اپنے گھر میں بلا کر رنگ رلیاں منانے سے بھی باز نہیں آتا۔ رضوانہ کے پاس اس قیدتنہائی کی واحد کھڑکی انٹرنیٹ ہے۔ اس گھٹن شدہ ماحول میں فیس بک کے ذریعے رضوانہ کا رابطہ اپنے ایک پرانے یونیورسٹی میٹ سے ہوتا ہے۔

عرفان قمر (خالد سہیل) کینیڈا میں گزشتہ تین چار دہائیوں سے رہائش پذیر ہے۔ وہ ایک انسان دوست، شاعرو ادیب ہے۔ دونوں یونیورسٹی کے زمانے میں قلمی دوست تھے، مگر پھر اچانک ان کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ جو اب فیس بک کی بدولت بحال ہو چکاہے۔ عرفان اور رضوانہ کا بھائی شارق انسان دوست افراد ہونے کے ناتے ہم خیال دوست بن جاتے ہیں۔ وہ دونوں رضوانہ کو اس کی عائلی زندگی کے جہنم سے نکال کر کینیڈا پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ رضوانہ کینیڈا میں اپنے بھائی شارق اور اس کی سابقہ بیوی کے ساتھ رہتی ہے۔ کینیڈا میں قیام کے دوران رضوانہ اور عرفان کی دوستی مزید پروان چڑھتی ہے۔ رضوانہ اور عرفان کی دوستی کا انجام کیا ہوا؟ یہ بات آپ پر کتاب پڑھ کر کھلے تو بہتر ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ان خطوط کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں :

، ”ڈئیر عرفان!

۔ دنیا میں سیکس ہی کیا سب سے بڑا سکہ ہے؟ کیا طاقت، مشہوری اور دولتمندی کا پہلا کام خوبصورت عورت کے ساتھ زبردستی سونا ہے؟ ایک تم ہو سب میں محبت اور پیار بانٹتے پھر رہے ہواور ادھر یہ دو مرد ہیں ایک وہ جو اپنی بیوی کو سیڑھی بنا کر دولت اور طاقت سمیٹنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ جو جس کو اپنے ورکروں کی بیویوں کے ساتھ سو کر طمانیت ملتی ہے۔ یہ کیسی دنیا ہے اور کیسے مرد ہیں؟ (خط نمبر 14 سے اقتباس)

”ڈئیر رضوانہ!

تمہارا خط پہلی بار پڑھا تو میں بہت دکھی ہوا۔ اگر تم قریب ہوتیں تو ایک دوست کی حیثیت سے تمہیں گلے لگا لیتا۔ تا کہ تمہارا دل ہلکا ہو اور تمہارے جسم اور ذہن کے زخم مندمل ہوں۔ تمہارا خط دوسری بار پڑھا تو مجھے مرد ہونے پر ندامت ہوئی۔ مجھے احساس ہوا کہ مرد نجانے کب سے عورت پر ظلم کرتے آئے ہیں۔ جبر کرتے آئے ہیں۔ نا انصافیاں کرتے آئے ہیں۔ وہ عورتوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ان کا جب چاہیں جسمانی، ذہنی اور جنسی استحصال کرتے ہیں۔ اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ مجھے تمہارا شوہر ایک مجرم اور ایک ذہنی مریض لگتا ہے۔ اور اس سے بڑا مجرم اور ذہنی مریض اس کی پارٹی کا لیڈر ہے۔ جو طاقت کے نشے میں اتنا مدہوش ہے کہ اپنے ممبروں کی بیویوں کا استحصال اور اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔ (خط نمبر 15 )

مغرب و مشرق کے بے شمار تضادات کے با وجود ایک چیز جو دنیا بھر میں مشترک ہے وہ محبت کا جذبہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مغرب میں اس جذبے کو عورت کے استحصال کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔ اور مشرق کی طرح جذباتی بلیک میلنگ نہیں کی جاتی اور نہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ مشرق میں عورت پر اندرون خانہ تشدد بھی کیا جاتا ہے جس کا مہذب دنیا میں کوئی تصور نہیں۔ وہاں عورت کی مرضی کے بغیر اس کی طرف زیادہ دیر دیکھنا بھی ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ مغرب میں عورت مختصر لباس میں بھی محفوظ ہے جب کہ ہمارے ہاں اونچی اونچی دیواروں اور سات حجابوں میں لپٹی عورت بھی غیر محفوظ ہے۔

جب رضوانہ اور عرفان کے مابین بے تکلفی ہوجاتی ہے۔ تو ایک خط میں عرفان، رضوانہ کو مرد عورت کی دوستی کے اپنے نظریے اور امیگرینٹس کے نفسیاتی مسائل کے بارے میں یوں بتاتا ہے :

”پیاری رضوانہ!

اب میں تمہیں ایک دل کی بات بتاتا ہوں۔ میری نگاہ میں مرد اور عورت کی دوستی کی تین منزلیں ہیں : پہلی منزل عزت، دوسری منزل محبت اور تیسری منزل فخر جسے انگریزی میں pride کہتے ہیں۔ میں تم سے محبت ہی نہیں کرتا۔ مجھے تمہاری دوستی پر فخر ہے۔ اور میں تمہارا تعارف اپنے دوستوں سے بڑے فخر سے کرواؤں گا۔ میں تم سے متفق ہوں کہ بعض مسلمان عورتیں اور مرد کینیڈا آ کر کچھ زیادہ ہی شدت پسند اور فنڈا منٹلسٹ ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ مذہب کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جس کے پیچھے وہ اپنے نفسیاتی مسائل ’اپنی غیر یقینیاں اور اپنی insecurities چھپاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ایسی بنیاد پرستی کی کوکھ سے منافقت جنم لیتی ہے۔ ”

مشرق ومغرب میں رومانی تعلقات کی تفاوت بارے رضوانہ کے ایک خط میں پوچھے گئے سوال کا جواب عرفان یوں دیتا ہے :

”ڈئیر رضوانہ!

تم نے مجھ سے مشرق و مغرب میں رومانی تعلقات کے بارے میں پوچھا ہے۔ میری نگاہ میں مشرق میں ایک مولوی دو اجنبیوں کے سامنے دو بول پڑھتا اور ان کا نکاح کر دیتا ہے۔ اور وہ ایک دوسرے کے لئے حلال ہو جاتے ہیں۔ میں ایسے کئی حلال جوڑوں سے مل چکا ہوں۔ جو برسوں سے loveless and sexless شادیاں نبھا رہے ہیں۔ وہ جوڑے سب کے سامنے ہنستے ہیں اور تنہائی میں روتے ہیں۔ وہ سب ایک منافقت کی زندگی گزارتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں مغرب میں مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو ڈیٹ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں۔ اور محبت کی شادیاں کرتے ہیں۔ اور اگر محبت مر جائے تو خوش اسلوبی سے جدا ہو جاتے ہیں۔ اور کسی اور کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ وہ مشرقی لوگوں کی طرح ایک ہی شادی پر ایمان نہیں رکھتے۔

میری نگاہ میں مشرق میں لڑکیوں اور لڑکوں کی سکول اور کالج میں اور مردوں اور عورتوں کی معاشرے میں کے ہر ادارے میں جو صنفی امتیاز ہے وہ غیر فطری ہے۔ ہم نے اس غیر فطری طرززندگی کو محترم، معتبر اور مقدس بنا دیا ہے۔

 جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ”(خط نمبر 13 )

ان خطوط میں عرفان اور رضوانہ کی ذاتی زندگیوں کے تضادات کے ساتھ ساتھ خاندانی، سماجی اور سیاسی زندگیوں کے نشیب و فراز منکشف ہوتے ہیں۔ ان کی دوستی اور محبت کبھی سلجھ جاتی ہے کبھی الجھ جاتی ہے۔ روایت اور بغاوت کبھی آپس میں جھگڑتے ہیں کبھی آپس میں بغل گیر ہو جاتے ہیں۔ ان کا رشتہ زندگی کی طرح پیچیدہ بھی ہے، گنجلک بھی اور پر اسرار بھی۔ ان خطوط میں وہ دونوں محبت سے لے کر سیاست تک اور مذہب سے لے کر دہریت تک کے مو ضوعات پر ایک دوسرے سے اتفاق بھی کرتے ہیں اور اختلاف بھی۔ ان کی زندگی کی جد و جہد ان کے سماج اور ان کے عہد کے مسائل کی آئینہ دار ہے۔ وہ اپنے تمام تر اختلافات کے با وجود اپنی دوستی کے رشتے کو کیسے قائم رکھتے ہیں یہ ان دونوں کے لئے بھی حیران کن ہے۔ ’‘ (صفحہ نمبر 4 )

قرات (readibilty) کے اعتبار سے ”پاپی“ ایک محویت آمیز (engaging) کتاب ہے۔ ایک ناول کی جملہ خصوصیات: روانی، دلچسپی، پراسراریت، موڑاور منطقی انجام جیسی تمام صفات ”پاپی“ گوناگوں اپنے اندر رکھتی ہے۔ یوں ”پاپی“ ایپی سٹولری epistolary) (ناول کی ایک عمدہ مثال ہے۔ جس نے خطوط نویسی جیسی معدوم ہوتی صنف کو نئی زندگی عطا کی ہے۔ یہ کا م دونوں مصنفین کی جانفشانی اور عرق ریزی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ خاص کر عورت بن کر خط لکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ ایسی کتاب اردو ادب کو عطا کرنے پر مصنفین مبارک باد کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).