’ٹھٹھہ غلام کا‘: وہ گاؤں جہاں گُڑیاں عورتوں کی طاقت بن گئیں


 

گُڑیاں

آج ہم آپ کو ایک کہانی سنائیں گے۔۔۔ لیکن آپ پوچھیں گے کہ آخر یہ کہانی ہے کس بارے میں؟ تو یہ قصہ دراصل پاکستانی پنجاب کے ایک گاؤں کا ہے۔

ارے نہیں۔۔۔ رُکیں۔۔۔ یہ کہانی اُس گاؤں کی نہیں بلکہ وہاں تیار ہونے والی کپڑے کی گُڑیوں کی ہے۔

نہیں نہیں۔۔۔ ٹہریں۔۔۔ ایک بار پھر شروع کرتے ہیں۔۔۔۔ یہ کہانی اوکاڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے جرمنی جانے والے نوجوان کی بھی ہو سکتی ہے۔

لیکن کیا پتا آپ کہیں کہ یہ کہانی تو دراصل پاکستانی لڑکے اور اُس کی جرمن استانی کی دوستی کی ہے۔

ایک سیکنڈ۔۔۔ اِس چکر میں پڑنے کے بجائے کہ یہ قصہ کس بارے میں ہے۔۔۔ آئیے کہانی شروع کرتے ہیں۔۔۔ اِس کے پلاٹ اور سکرین پلے کے بارے میں پھر آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے گا۔

گُڑیوں کا گاؤں

گُڑیاں

اِس افسانوی گاؤں کا نام ہے ‘ٹھٹھہ غلام کا دَھروکا’۔ لاہور سے ساہیوال کی جانب چلیں تو یہ گاؤں اوکاڑہ شہر سے پہلے کوئی ڈیڑھ سو کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔

پہلی نظر میں یہ پنجاب کا کوئی عام سا گاؤں ہی لگتا ہے۔ اردگرد کے دوسرے دیہات کی طرح یہاں بھی ہر طرف سبزا نظر آتا ہے۔ لہلہاتے کھیتوں کے بیچ کچھ کچے پکے مکان بھی ہیں۔

آٹھ سو لوگوں کے اِس قصبے میں سکول، ڈسپنسری اور پینے کے صاف پانی کا پلانٹ بھی ہے۔ لیکن آج سے 30 سال پہلے ’ٹھٹھہ غلام کا‘ کا نقشہ کچھ اور ہی تھا۔

کہانی شروع ہوتی ہے

گُڑیاں

یہ سنہ1982 کی بات ہے جب بیس سال کے کھلنڈرے امجد علی نے اِس گاؤں سے یورپ جانے کی ٹھانی۔ وہ جرمنی گئے اور وہاں گرافک ڈیزائننگ کی ڈگری کے لیے آرٹ کی تعلیم دینے والے ادارے ’لَیٹے فَیرآئن‘ میں داخلہ لیا۔

یہاں اُنھیں ڈیزائن پڑھانے والی ٹیچر کا نام سینتا سیلر تھا۔ چھ سو طلبا کے ادارے میں امجد علی واحد پاکستانی تھے اور دن رات سینتا کو اپنے گاؤں کی کہانیاں سُناتے نہیں تھکتے تھے۔

سینتا سیلر نے امجد کی زبانی پاکستان کا اتنا ذکر سُنا کہ اُن دنوں اُنھیں خواب بھی پاکستان کے آنے لگے اور وہ بھی اُردو زبان میں۔ آخر تھک ہار کر ایک دن سینتا کو کہنا پڑا۔۔۔ امجد تم مجھے صرف کہانیاں ہی سُناؤ گے یا کبھی اپنے گاؤں کا دورہ بھی کراؤ گے۔

گرمی کی شام اور آم

گُڑیاں

سینتا سیلر کے اصرار پر امجد علی کو اپنا وعدہ نبھانا پڑا اور یوں سنہ 1990 کی سردیوں میں سینتا اپنے شوہر کے ساتھ ’ٹھٹھہ غلام کا‘ پہنچیں۔

ساری زندگی برلن کے کنکریٹ کے جنگل میں گزارے والی سینتا نے جب گاؤں کی قدرتی خوبصورتی اور سادہ زندگی دیکھی تو ایسی محو ہوئیں جیسے کوئی چھوٹی بچی پریوں کے دیس پہنچ گئی ہو۔

گرمیوں کی شاموں میں ٹھنڈی ہوا کا چہرے سے ٹکرانا، چلچلاتی دھوپ میں ٹیوب ویل میں اُتر کر پاؤں گیلے کرنا اور درخت سے توڑ کر میٹھے رس بھرے آم چوس کر کھانا۔ یہ سب سینتا کو بھا گیا۔

یہ ’لو ایٹ فرسٹ سائٹ تھی‘۔۔۔ سینتا کو پاکستان سے پیار ہو گیا۔

بُڑھیا کی فرمائش

گُڑیاں

سینتا سیلر گاؤں میں امجد علی کے گھر ہی رُکیں۔ کچھ جھجھک کم ہوئی تو انھوں نے نئے دوست بنانے کا سوچا۔ بات چیت شروع ہوئی تو یوں ہی امجد علی کی نانی جان سے پوچھ بیٹھیں کہ وہ اُن کے لیے کیا کر سکتی ہیں۔

شاید بُڑھیا نے پردیس سے آئی گوری میم سے کچھ زیادہ ہی امیدیں باندھ لی تھیں۔ جھٹ جواب دیا کہ گاؤں کے بچوں کے لیے تعلیم کا مناسب بندوبست نہیں ہے۔ دوسرا یہاں قریب کوئی ڈسپنسری یا ہسپتال بھی نہیں ہے۔ یہ دونوں انتظام ہونے چاہیں۔

بُڑھیا کی بات نے سینتا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

جو چاہیں پا لیں

گُڑیاں

یورپ کے ترقی یافتہ معاشرے میں آنکھ کھولنے والی سینتا سوچنے لگیں کہ تعلیم اور صحت جیسی عام سہولیات جو مغرب میں ہر شہری کا بنیادی حق تسلیم کی جاتیں ہیں، اوکاڑہ کے اِس گاؤں میں کسی کم یاب نعمت سے کم نہیں۔

سینتا نے محسوس کیا کہ گاؤں والے اپنے مستقبل سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ بجائے اِس کے کہ باہر سے مدد کا انتظار کیا جائے کیوں نہ مقامی لوگوں کو خود اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔ پھر وہ جو چاہیں گے پا لیں گے۔

سینتا اِس کھوج میں لگ گئیں کہ کھیتی باڑی کے علاوہ کوئی ایسا کام تلاش کیا جائے جو کر کے یہ لوگ اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکیں۔

گُڑیا گُڈّے کا کھیل

گُڑیاں

سینتا سیلر اِسی کشمکش میں تھیں کہ ایک دن انھوں نے گاؤں کی ایک لڑکی کے ہاتھ میں کپڑے کی بنی گُڑیا دیکھی۔ پوچھا کہ یہ کس نے بنائی ہے تو عورتوں نے جواب دیا کہ یہ بنانا تو گاؤں کی ہر عورت جانتی ہے۔

اب سینتا کا اگلا سوال تھا کہ آپ تو اِن خوبصورت گُڑیوں سے بہت پیسہ کماتی ہوں گی۔ عورتیں ہنس پڑیں۔ بولیں کیسا پیسہ۔ یہ تو بچوں کے کھیلنے یا لڑکیوں کو جہیز میں دینے کے کام آتی ہیں۔

بوڑھی جرمن نے ٹھان لی کہ وہ گاؤں کی عورتوں سے ایسی ہی گُڑیاں تیار کروائیں گی جنھیں شہروں میں فروخت کیا جائے گا۔ لیکن پہلے مردوں سے اجازت لی گئی۔ جب اُنھیں بتایا گیا کہ اِس طرح گھر میں اضافی آمدنی آنے لگے گی تو وہ تیار ہو گئے۔

ثقافتی گُڑیاں

گُڑیاں

گُڑیا بنانا ایسا کام تھا جو سینتا سیلر نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ لیکن اُن کی جمالیاتی حس اچھی تھی۔ اُنھیں رنگوں اور ڈیزائنز کی بھی پہچان تھی۔

عورتوں کو کام کرتے دیکھ کر پہلے انھوں نے خود گُڑیا بنانا سیکھا۔ پھر اُس میں جدت اور نفاست لانے کی کوشش کی۔

سینتا نے طے کیا کہ ایسی گُڑیاں بنائی جائیں گی جو پاکستان کے مختلف علاقوں کی ثقافت کی نمائندگی کریں۔ اِس مقصد کے لیے وہ ملک کے کونے کونے میں گئیں اور مقامی رہن سہن اور پہناؤوں کو دیکھا۔ پھر واپس آ کر اُسی قسم کی گُڑیاں ڈیزائن کیں۔

گُڑیا کی تیاری

گُڑیاں

اب گاؤں میں ہی ایک تین کمرے کا گھر منتخب کیا گیا اور وہیں عورتوں کی تربیت کے کام کا آغاز ہوا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ عورتوں کو بات سمجھانا تھا۔ سینتا کو پنجابی یا اردو نہیں آتی تھی لیکن وہ اندازے سے بات سمجھ لیتی تھیں۔

گاؤں کی واحد انگریزی کی شد بد رکھنے والی عورت کی خدمات لی گئیں۔ یوں وہ سینتا اور عورتوں کے بیچ رابطے کا ذریعہ بنیں۔

سینتا سیلر نے عورتوں کو مرحلہ وار گُڑیا تیار کرنا سِکھایا اور کام بانٹ دیا۔ ایک لڑکی گُڑیا کا جسم تیار کرتی تو دوسری لباس۔ کوئی زیور بناتی تو کوئی گُڑیا کے بال تراشتی۔ عورتوں کو آزادی تھی کہ گھر بیٹھ کر کام کریں اور مقررہ دن تیار کام لا کر سینتا کو دے دیں۔

گُڑیوں کی فروخت

گُڑیاں

سینتا سیلر نے برلن میں اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی اور کئی کئی ماہ ’ٹھٹھہ غلام کا‘ میں گزارنے لگیں۔ اب مرحلہ تیار شدہ گُڑیوں کو بیچنے کا تھا۔

یہ کام چھوٹے پیمانے پر شروع کیا گیا۔ شروع شروع میں شہروں میں گھروں کے اندر ہونے والی نمائشوں اور مینا بازاروں میں گُڑیاں رکھی گئیں۔ سینتا نے یہ گُڑیاں فائیو سٹار ہوٹلوں، سفارت خانوں اور ثقافتی میلوں میں بھی لے جا کر بیچیں جو غیر ملکیوں کو خوب بھائیں۔

پھر سینتا گاؤں کی لڑکیوں کو بھی ساتھ لے جانے لگیں۔ اِس طرح یہ عورتیں پہلی بار گاؤں سے باہر نکلیں اور شہر دیکھا۔ کئی نے تو زندگی میں پہلی بار ریل گاڑی دیکھی۔

آمدنی کی تقسیم کیسے کی گئی

گُڑیاں

گُڑیوں کی فروخت کا سلسلہ چل نکلا تو فیصلہ کیا گیا کہ ہر سو روپے کی سیل میں سے تیس روپے عورتوں کو اجرتوں کی صورت میں دیے جائیں گے۔ تیس فیصد سے خام مال خریدا جائے گا۔

تیس فیصد آمدنی بینک میں رکھی جائے گی تاکہ آگے چل کر اُس سے خواتین کے لیے ٹریننگ سینٹر قائم کیا جا سکے۔ جبکہ دس فیصد متفرق اخراجات کے لیے رکھے گئے۔

جب سرمایہ جمع ہوگیا تو زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر اُس پر ٹریننگ سینٹر کی عمارت بنائی گئی جو آج بھی موجود ہے۔

دنیا بھر میں پہچان

گُڑیاں

’ٹھٹھہ غلام کا‘ کی یہ گُڑیاں قدر دانوں کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پہنچیں اور اوکاڑہ کے اِس چھوٹے سے گاؤں کی پہچان بنیں۔

یہ عالمی ثقافتی نمائشوں اور شاپنگ فیسٹولز تک بھی پہنچیں۔ آج یہ گُڑیاں دنیا کے کئی کھلونوں کے عجائب گھروں میں بھی موجود ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ گُڑیوں کے علاوہ کئی اور دستکاریوں کا بھی اضافہ ہوا۔ آج ’ٹھٹھہ غلام کا‘ میں سو سے زیاده آرائشی اشیا تیار ہو رہی ہیں۔ اِن میں کشیدہ کاری والے گریٹنگ کارڈز، بُک مارکس، فنگر پپٹس اور گُڑیوں سے بنے لاکٹ اور بُندے بھی شامل ہیں۔

گُڑیاں، عورتوں کی طاقت بن گئیں

گُڑیاں

’ٹھٹھہ غلام کا‘ کی گُڑیوں نے یہاں کی عورتوں کو طاقت بخشی ہے۔ اب وہ نہ شوہروں کی محتاج ہیں اور نہ ہی باپ بھائیوں کی۔ وہ اپنا خرچ خود اُٹھاتی ہیں اور بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھا رہی ہیں۔

جب عورت گھر آمدنی لائے گی تو اُس کی بات بھی سُنی جائے گی۔ اب وہ فیصلوں کے وقت کواڑ سے جھانکتی نہیں بلکہ مَردوں کے سامنے بیٹھ کر اپنی رائے دیتی ہے۔

عورتوں کی حالت سُدھری تو گھر کے نصیب بھی جاگ گئے۔ آج گاؤں کے ہر مکان کے صحن میں ٹریکٹر اور دو دو موٹر سائیکلیں کھڑی ہیں۔ گھر بھی پختہ ہو گئے ہیں۔

سکول اور ڈسپنسری

گُڑیاں

تیس برس پہلے سینتا سیلر کو گاؤں میں ملی بُڑھیا تو اب اِس دنیا میں نہیں رہی لیکن اُس کی خواہش ضرور پوری ہو چکی ہے۔

جہاں پہلے بچے درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے ٹھیک اُسی جگہ اب لڑکے لڑکیوں کے الگ الگ سکول قائم ہیں۔

گُڑیوں کی آمدنی سے ایک ڈسپنسری قائم کی گئی جہاں لڑکیوں کو لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کی تربیت بھی دی گئی۔ گاؤں والوں کے لیے پینے کے صاف پانی کا پلانٹ بھی اِسی پیسے سے لگایا گیا۔

گزرا وقت ایک خواب سا محسوس ہوتا ہے

گُڑیاں

آج پچاسی سال کی عمر میں سینتا سیلر ’ٹھٹھہ غلام کا‘ میں گزارے گئے وقت کے بارے میں سوچتی ہیں تو وہ اُنھیں کسی معجزے سے کم نہیں لگتا۔ جب کبھی وہ اپنے برلن والے فلیٹ میں پرانی تصویریں نکال کر دیکھتی ہیں تو وہ سب اُنھیں ایک خواب سا محسوس ہوتا ہے۔

سینتا کو احساس ہے کہ زندگی کی شام ہونے کو ہے۔ اب وقت کی باگ دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ وہی اُن کے کیے کام کو آگے بڑھائیں گے۔

لیکن ایک آخری بار وہ پھر ’ٹھٹھہ غلام کا‘ جانا چاہتی ہیں۔ شام کی ٹھنڈی ہوا چہرے پر محسوس کرنے، ٹیوب ویل کے یخ پانی میں پیر بھگونے اور رسیلے آموں کا مزا ایک بار اور چکھنے۔ اپنے امجد سے ملنے اور اُن گُڑیوں کو دیکھنے جو آج بھی گاؤں کی گلیوں میں اُن کی راہ تکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp