محمود غزنوی اور سومنات مندر برصغیر کے تاریخی بیانیے کا اہم حصہ کیسے بنے؟


محمود غزنوی
محمود غزنوی کا فرضی خاکہ

آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا، وہاں پر واقع مندر کو تباہ کر دیا اور وہاں سے ملنے والے مال اسباب کو سمیٹ کر وہ واپس اپنے وطن کو لوٹ گئے۔

اس ایک حملے نے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر ان گنت نقوش چھوڑے ہیں۔

جہاں پاکستان میں محمود غزنوی کی حیثیت ایک مثالی حکمران اور فاتح ہند کی ہے وہیں انڈیا میں بہت سے متشدد گروہ محمود غزنوی کو اسلامی استعمار اور مسلمان حکمرانوں کی بربریت کا ایک استعارہ سمجھتے ہیں اور ان کو برصغیر میں ہندو تہذیب کی بربادی کا ایک بڑا سبب گردانتے ہیں۔

اگرچہ محمود غزنوی کا ہندوستان پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا اور نہ ہی سومنات کا مندر واحد تھا کہ جس کو کسی حکمران نے توڑا تھا۔ نہ ہی مسلمان وہ واحد حمکران طبقہ تھے جنھوں نے ہندوؤں کے مندر کو اس طرح نشانہ بنایا تھا۔

جیسا کہ رچرڈ ایٹن نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا ہے مندروں کو نشانہ بنانے کے کئی واقعات تاریخ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔ خود ہندو حمکران جہاں مندروں کی تعمیر میں حصہ لیتے تھے وہیں وہ اپنے مخالف حکمرانوں کے مندروں کو نشانہ بھی بناتے تھے۔ خاص کر ان مندروں کو جو مقامی حکمرانوں کی سرپرستی میں چلتے تھے اور ان کی سیاسی طاقت کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔

حملہ آور ہندو حکمران ایسے مندروں میں موجود مرکزی مورتی کو یا تو توڑ دیتے تھے یا اس کو جنگ میں فتح کی نشانی کے طور پر اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔

محمود غزنوی سومنات پر حملہ کرنے سے پہلے تھانیسر، ماتھورا اور اس طرح کے کئی دیگر علاقوں پر حملہ کر چکے تھے اور وہ اس خطے میں قائم ہندو شاہی سلسلے کا خاتمہ بھی کر چکے تھے۔

اسی طرح وہ ملتان میں قائم شدہ اسماعیلی حکومت کے ساتھ لڑائی کر کے ان کی حکمرانی کا خاتمہ بھی کر چکے تھے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمود غزنوی نے اپنے حملوں میں جہاں ہندوؤں کے علاقوں اور مندروں کو نشانہ بنایا وہیں پر انھوں نے اسماعیلی مسلمان حکمرانوں اور علاقوں کو بھی تخت و تاراج کیا۔

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے اولین نقوش

محمود غزنوی کا حملہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمان تاریخ کے ابتدائی نقوش میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

حالانکہ محمود غزنوی سے بہت پہلے ہی مسلمانوں کا برصغیر کے علاقوں کے ساتھ ایک تعلق بن چکا تھا۔ ان میں معروف نام کے طور پر ہم محمد بن قاسم کو جانتے ہیں جس نے سندھ پر سنہ 712 میں حملہ کیا اور اسی وجہ سے سندھ کو ’باب الاسلام‘ بھی کہا جاتا ہے۔

محمود غزنوی کے علاوہ شہاب الدین غوری ایک اوراہم نام ہے جس نے دہلی میں مسلمان حکومت کی مرکزیت کو مستحکم کیا جس کے بعد مسلمان سلاطین کا ایک سلسلہ برصغیر پاک و ہند میں شروع ہوا۔

لیکن اس سیاسی و جنگجوانہ تاریخ کے علاوہ بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کی ایک تاریخ موجود ہے۔

قاضی اطہر مبارک پوری نے اپنی متعدد کتابوں میں اس تاریخ کا ذکر کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق عرب اور ہندوستان کے درمیان تعلقات عہد رسالت میں ہی قائم ہو گئے تھے۔ آنے والے ادوار میں، خاص طور پر اموی دورِ حکومت میں، ان سیاسی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا۔

مسلمان تاجر تجارت کی غرض سے برصغیر پاک و ہند کے ساحلی علاقوں کا رُخ کرتے تھے اور جب اسلامی سلطنت کی حدود ایران تک پہنچیں تو وہاں سے لامحالہ ان کا رابطہ ہندوستان کے لوگوں اور ان کی ثقافت سے بھی ہوا۔

اس سیاسی اور تجارتی تاریخ کے علاوہ ایک ’اساطیری تاریخ‘ کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے۔ جہاں مسلمان بطور ایک سیاسی یا حملہ آور گروہ کے ہندوستان میں داخل ہوئے وہیں پر ایک متبادل تاریخی بیانیہ بھی موجود ہے جس کے مطابق مسلمانوں کا اس سرزمین کے ساتھ رشتہ انتہائی گہرا ہے۔

اس کی ایک مثال حسینی براہمن کی کہانی کے ذریعے سے دی جا سکتی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کربلا کے میدان میں جب امام حسین اپنے ساتھیوں کے ساتھ یزیدی فوجوں کے ساتھ لڑ رہے تھے اور جب اس واقعے کی اطلاع کسی طرح سے ہندوستان میں پہنچی تھی تو یہاں سے برہمنوں کا ایک گروہ امام حسین کی تائید و نصرت کے لیے کربلا پہنچا تھا۔

اس گروہ سے وابستہ لوگ خود کو حسینی براہمن کہتے ہیں اور اس شناخت کے حامل لوگ آج بھی ہندوستان میں موجود ہیں۔ اس کی مثال بالی وڈ اداکار سنیل دت اور سنجے دت کا خاندان ہے۔ دت خاندان خود کو حسینی براہمن کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔

اسی طرح ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کا قدیمی رشتہ ثابت کرنے کے لیے مولانا حسین احمد مدنی، جو ایک کانگریسی رہنما تھے اور جمعیت علمائے ہند کے سربراہ تھے، نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ چونکہ آدم اور حوا کو جنت سے نکالے جانے کے بعد زمین پر اتارا گیا تو ان کا ملاپ لنکا کے علاقے میں ہوا۔ اس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کو آباد کرنے والے آدم اور حوا تھے جو اسلامی عقیدے کے مطابق مسلمان تھے۔

Mahmud of Ghazni attacking the Jats on the Chenab River, Northern India in 1026. Yam?n-ud-Dawla Abul-Q??im Ma?m?d ibn Sebükteg?n, aka Mahmud of Ghazni or Mahm?d-i Z?bul?, 971 – 1030. Prominent ruler of the Ghaznavid Empire. From Hutchinson's History of the Nations, published 1915.

محمود غزنوی کی جانب سے سنہ 1026 میں شمالی ہندوستان پر کیے جانے والے ایک حملے کا خیالی منظر

ایک واقعہ کئی تشریحات

یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہند مسلم تاریخ میں سومنات پر حملہ ایک اہم واقعہ ہے لیکن محض اس کی بنیاد پر ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی اور مذہبی کردار پر فیصلہ کن رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔

خود سومنات پر حملے کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے کئی ماخذ کا جاننا اور ان کی تشریح کے لیے اس دور کے معروضی حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔

اس ضمن میں سب سے معتبر اور اہم نام رمیلا تھاپر کا ہے جنھوں نے اس موضوع پر ایک جامع کتاب تحریر کی ہے۔

ان کے کام سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کس طرح ایک ہی واقعے کو مختلف ادوار میں کئی طرح سے سمجھا گیا اور ان کی تعبیر کی گئی۔

یہ تمام تشریحات ایک دوسرے سے متصادم بھی ہوتی ہیں لیکن کسی ایک کو درست اور دوسرے کو قطعی طور پر غلط بھی نہیں کہا جا سکتا۔

اس مضمون میں ہم سومنات اور اس پر حملے کے بارے میں تاریخی حقائق کا تعین کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ کس طرح ایک ہی واقعہ مختلف تشریحات کو جنم دے سکتا ہے۔

رمیلا تھاپر نے اپنے کام میں جن ماخذات کا ذکر کیا ہے ان میں فارسی اور عربی میں لکھی گئی تواریخ، سومنات اور اس کے ارد گرد سے ملنے والے کتبات، جین مت کے ماننے والے بزرگوں کی لکھی ہوئیں سوانح حیات اور انیسویں صدی میں برطانوی دور میں لکھی گئیں تاریخی کتب شامل ہیں۔

ان ماخذات کو پڑھنے کے لیے ایک بنیادی کلیہ یہ ہے کہ یہ تواریخ جس دور میں لکھی گئیں تو ان کا مقصد محض وقائع نویسی نہیں تھا بلکہ مؤرخین ان واقعات کو ایک کہانی اور حکایت کے انداز میں لکھ کر اپنے پڑھنے والوں کے لیے یا اپنے سرپرست اعلیٰ و حاکم کے لیے پند و نصائح کا سامان بھی مہیا کرتے تھے۔ یا پھر ان کا مقصد مثالی حکمران کا تصور پیش کرنا یا شاہی حکمران کی تعظیم اور شان و شوکت بیان کرنا ہوتا تھا۔

سومنات

انڈین ریاست گجرات میں واقع سومنات مندر کا سنہ 1847 میں ہاتھ سے بنایا گیا ایک خاکہ

سومنات کی تاریخ

رمیلا تھاپر کی تحقیق کے مطابق سومنات کا مندر غالباً دسویں صدی میں چولکھیا شاہی خاندان کے مل راجا نے تعمیر کروایا۔ یہ مندر ایک ساحلی علاقے کے نزدیک واقعہ تھا جہاں کی مقامی آبادی زیادہ تر جین مت کے ماننے والوں پر مشتمل تھی۔

چونکہ ان کا ذریعہ معاش تجارت تھا اور اس دور میں مغربی ایشیا تک مسلمانوں کی حکومت کے نتیجے میں بحرِ ہند کے ذریعے تجارت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا، اس لیے مندر کے پیروکار مالدار تھے اور اس کی شان و شوکت پر کثیر رقم صرف کرتے تھے۔ یوں سومنات کا مندر ایک امیر مندر کے طور پر مشہور تھا۔

جہاں تک محمود غزنوی کے حملے کا تعلق ہے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس واقعے کے ہم عصر مورخین جن میں عتبی اور بیہقی شامل ہیں، یا تو اس کا سرے سے ذکر ہی نہیں کرتے یا ایک مختصر حوالہ دے کرآگے بڑھ جاتے ہیں۔

گویا کہ ان کے لیے یہ محض ایک اور حملہ تھا یا ایک اور لوٹ مار کا لشکر، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن اسی دور کے آس پاس فرخی سیستانی اور گردیزی کی لکھی ہوئی تحریروں میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ سومنات کا بت ان تین بتوں میں سے ایک تھا جس کا ذکر اسلامی تاریخ میں ‘لات’ ‘عزا’ اور ‘منات’ کے نام سے کیا گیا ہے، اور جن کو فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر اسلام نے توڑ دینے کا حکم دیا تھا۔

فرخی سیستانی اور گردیزی کے بیان کردہ واقعات کے مطابق کسی طرح سے منات کا بت چوری کر کے ایک ایسے علاقے میں منتقل کیا گیا جہاں بت پرستی عام تھی، جیسا کہ ہندوستان، اوراس بات کا امکان تھا کہ یہ بت وہاں پر محفوظ رہ سکے گا۔

یوں اگر دیکھا جائے تو اس واقعے کو گردیزی اور سیستانی نے اس طرح سے پیش کیا ہے کہ بت پرستی کے خاتمے کا جو آغاز کعبہ سے کیا گیا اس کی تکمیل محمود غزنوی کے ہاتھوں ہوئی جس نے منات کا یہ بت سومنات میں توڑ دیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے ہی شمالی ہند میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار مستحکم ہوتا گیا وہیں مغربی ایشیا سے ان کا رشتہ بھی کٹتا گیا۔ عباسی خلافت آخری دموں پر تھی اور رہی سہی کسر منگولوں کے حملوں نے پوری کر دی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی مرکزیت کو شدید نقصان پہنچا۔

ایسے میں شمالی ہند اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں مسلم حکومتوں کے قیام اور ان کی افادیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والے مورخین نے محمود غزنوی کے اس حملے کو محض ایک حملہ نہیں سمجھا۔

ایک ایسے وقت میں کہ جب مسلمان اپنی مرکزیت کو مجتمع کرنے میں مصروف تھے اور وہ بھی ایک ایسے علاقے میں جہاں ہندوؤں اور غیر مسلموں کی عظیم الشان اکثریت موجود تھی، وہاں طاقت کے اس بھرپور استعارے کو متعارف کروانا اور اس کی عظمت بیان کرنا ضروری سمجھا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ آنے والے کئی مؤرخین نے بھی اس واقعے کا ذکر کیا اور اسے انتہائی مثبت انداز میں پیش کیا۔ صرف یہی نہیں بہت سے درباری مؤرخین نے اپنے ممدوح بادشاہ کو اس بات کے لیے بھی سراہا کہ اس نے سومنات میں بعد میں تعمیر شدہ مندر کو پھر سے گرا کر اس کی جگہ مسجد کی تعمیر کی۔

یہاں یہ بات دہرانا ضروری ہے کہ چونکہ اس بت کا تعلق ‘لات، منات اور عزا’ سے جوڑا گیا لہٰذا مورخین کے لیے نہ تو یہ کوئی عام مندر تھا نہ ہی یہ کوئی عام مورتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والے حکمران مذہبی بنیادوں پر اپنے حقِ حکمرانی کو ثابت کرنے کے لیے سومنات میں مندر کی تباہی اور مسجد کی تعمیر کو درباری تاریخ کے بیانیے میں جگہ دیتے تھے۔

سومنات

گجرات میں موجود سومنات مندر کی اس کی موجودہ شکل میں دوبارہ تعمیر سنہ پچاس کی دہائی میں کی گئ تھی

تاہم رومیلا تھاپر ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ اس طرح کے دعوؤں کا اظہار تاریخی حقائق کے قطعی طور پر منافی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں تھا کہ اگر ایک دفعہ بت گرا کر وہاں مسجد تعمیر کر دی گئی تھی تو پھر وہاں دوبارہ مندر کیوں کر تعمیر ہوا؟ دوسری بات یہ ہے کہ اس علاقے سے ملنے والے کتبات واضح طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ محمود غزنوی کے حملے کے ایک سو سال کے اندر اندر نہ صرف یہ کہ مندر دوبارہ قائم ہو چکا تھا، بلکہ وہ ایک انتہائی طاقتور اور امیر مندر کے طور پر موجود تھا۔

رومیلا تھاپر کے مطابق ان کتبات میں جہاں کہیں تعمیر نو یا کسی نئی مورتی کے اضافے کا ذکر ملتا ہے وہاں کسی بڑے یا منظم حملے کی طرف اشارہ نہیں کیا جاتا۔ اگر توڑ پھوڑ کے یہ واقعات اتنے ہی اہم ہوتے اور اسی تسلسل سے وقوع پذیر ہوتے جیسا کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے تو یقیناً ان کتبات میں زیادہ تفصیل کے ساتھ ان کا ذکر کیا جاتا۔

ماسوائے ایک آدھ کتبے کو چھوڑ کر اس بات کا ذکر تک نہیں ملتا۔ زیادہ تر معلومات صرف اور صرف اس دور کے مالدار سرپرستوں کی ملتی ہیں جو اس مندر کی تعمیر، تزین اور اسے چلانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

اسی طرح پندرھویں صدی کے بعد مندر کے زوال کی وجہ مسلمان حکمرانوں کے حملے کی تباہ کاریاں نہیں بلکہ سومنات کی تجارتی سرگرمیوں کا ماند پڑ جانا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علاقے کے لوگ اور پیروکار مندر کو عظیم الشان حالت میں برقرار نہ رکھ پائے۔

رومیلا تھاپر کے مطابق اس دور کی مذہبی کتب یا مباحث میں بھی محمود غزنوی کے حملے کو بنیادی موضوع نہیں بنایا گیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس دور میں شیوا کے ماننے والوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ کلیوگ کا دور ہے جس میں مورتیاں محفوظ نہیں۔ یہاں بھی وہ حملہ آور کو اس کے مذہب کے طور پر نہیں بلکہ اس کی قومیت سے شناخت کرتے ہوئے ان کو ترک کہتے ہیں یا حقارت کے طور پر ‘ملیچھ’ کے نام سے پکارتے ہیں۔

جہاں تک جین مت کے ماننے والوں کی کتب کا تعلق ہے، یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کتب میں جہاں حملہ آوروں کا ذکر ہے وہاں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حملہ آور مقدس مورتیوں کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہے۔ مورتیاں یا تو مؤجزانہ طور پر محفوظ رہیں یا اگر ان کو توڑ بھی دیا گیا اوران کے نقوش کو معدوم بھی کر دیا گیا تو بھی وہ دوبارہ اپنی اصلی حالت میں لوٹ آئیں۔

اس تاریخی تجزیےکی بنیاد پر رومیلا تھاپر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ترک حملہ آوروں اور ان کی کارروائیوں نے کسی غیر معمولی ’تاریخی صدمے‘ یا Historical Trauma کوجنم نہیں دیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جس طرح باقی حملہ آور لوٹ مار اور قتل وغارت گری کرتے رہے، ان کے خلاف مزاحمت بھی ہوتی رہی اور لوگ ان سے بے زاری کا اظہار بھی کرتے رہے۔ کم و بیش ویسا ہی معاملہ ترک حملہ آوروں کے حوالے سے بھی تھا، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے اتنے ان گنت نقوش چھوڑے کہ جس کی تکلیف دہ یاد ہر آنے والے ہندو گروہ میں نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔

Captured Indian Raja Brought to Sultan Mahmud of Ghazni, Folio from a Majma al-Tavarikh (World Histories), circa 1425. Artist Unknown.

خیالی خاکہ: ایک ہندو راجہ کو گرفتار کر کے محمود غزنوی کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے

برطانوی عہد اور ہندو ٹراما کی ایجاد

تو پھر ایسا کیا ہوا کہ عہدِ وسطیٰ میں بیان کیے گئے تاریخی بیانیے کی ایک یکسر نئی تعبیر ممکن ہوئی اور سومنات کا استعارا مسلم قوم سازی اور ہندو قوم سازی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہو گیا؟

انیسویں صدی میں انگریزوں کے آنے کے بعد نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا جس کے زیرِ اثر ہندوستان کی تاریخ نویسی کا انداز بدل گیا۔ یہاں جیمزمل کی مشہور زمانہ کتاب کا حوالہ دینا ضروری ہے جس میں انھوں نے ہندوستان کی تاریخ کو ہندو دور، مسلم دور اور برطانوی دورکا نام دے کر گویا تاریخ کو مذہبی طور پر تقسیم کر دیا۔

یہ نیا طرزِ تاریخ نویسی اس مفروضے پر استوار کیا گیا تھا کہ ہندؤ اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جن کے عقائد باہم متصادم ہیں، لہٰذا اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ یہ آپس میں امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔ نیز یہ کہ ہندؤ اور مسلمان گذشتہ ایک ہزار سال سے ایک دوسرے سے باہم نبرد آزما ہیں اور ایسے میں صرف انگریزی نوآبادیاتی راج کے نتیجے میں ہی امن ممکن ہوا ہے۔ یوں ہند اسلامی تاریخ محض ہندو مسلم فساد کی تاریخ میں تبدیل ہو گئی۔

ایسی تاریخ نویسی کی بنیاد پر انگریزوں نے دعویٰ کیا کہ سومنات کی تباہی کے نتیجے میں ہندوؤں کی اجتماعی سوچ کو ایک ایسا گہرا صدمہ پہنچا جس نے انھیں اگلے کئی سو سال تک اذیت میں مبتلا رکھا اور وہ ایک غلام قوم بن گئے۔

اس نئی تاریخی تعبیر کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کیوں کہ 1840 کی دہائی میں پہلی افغان جنگ کے نتیجے میں انگریزوں کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس موقع پر 1842 میں لارڈ ایلنبرو نے ‘دی پروکلامیشن آف دی گیٹس’ کے نام سے ایک حکمنامہ جاری کیا جس میں انگریز فوج کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ کابل سے واپسی پر غزنی کے راستے سے ہوتی ہوئی آئیں اور وہاں پر موجود محمود غزنوی کے مزار سے وہ دروازے حاصل کریں جو سومنات کے حملے کے بعد لوٹ کر غزنی منتقل کر دیے گئے تھے۔

حالانکہ کسی تاریخ کی کتاب میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ سومنات کا مندر تباہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے وہاں موجود دروازے غزنی منتقل کیے تھے۔

ایسا اقدام کرنے کے واضح سیاسی مقاصد تھے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ انگریز اپنی خفت مٹانا چاہتے تھے، دوسرا وہ ہندو مسلم تنازع کو مزید ہوا دے کر اپنے آپ کو وہ قوت ثابت کرنا چاہتے تھے کہ جس نے آ کر ہندوستان کی پامالی کو روک کراس کا رخ شمالی حملہ آوروں کی طرف موڑ دیا ہے۔

تیسرا مقصد اس دور کی علاقائی سیاست میں انگریز راج کو رنجیت سنگھ کے قائم کردہ لاہور دربار کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ثابت کرنا تھا۔ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ جو دروازے رنجیت سنگھ حاصل نہ کر سکا، وہ انگریزوں نے حاصل کر لیے۔

حالانکہ یہ کہنا کہ رنجیت سنگھ نے سومنات کے دروازے طلب کیے تھے یا تو یکسرغلط ہے یا پھر اگررنجیت سنگھ نے کچھ مواد طلب کیا بھی تھا تو وہ جگن ناتھ کے مندروں کا تھا اور اس کا سومنات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

بہرحال، جب یہ دروازے ہندوستان پہنچے تو یہ معلوم ہوا کہ یہ طرز تعمیر ہندوستانی تھا ہی نہیں اور ان دروازوں کا سومنات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دروازے اب آگرہ کے قلعے میں موجود ہیں۔

یہ پورا معاملہ برطانوی پارلیمان تک بھی پہنچا جہاں اس بات پر بحث کی گئی کہ لارڈ ایلنبرو نے اس طرح کا دعویٰ کیوں کیا جو عقل اور ہوش کی بجائے جوش کی سیاست کو فروغ دے رہا ہے۔

لارڈ ایلنبرو کے عمل کا یہ کہہ کر دفاع کیا گیا کہ چونکہ ہم نے ہندوؤں کے تاریخی صدمے کا مداوا کرنا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ یہ دروازے غزنی سے حاصل کیے جائیں۔ رومیلا تھاپر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس ہندو صدمے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ نہ تو عہدِ وسطیٰ کی کسی کتاب میں درج ہے نہ کسی کتبے میں اس کر ذکر ملتا ہے، بلکہ اس کا انکشاف سب سے پہلے برطانوی دارالعوام میں ہوا اور وہاں سے ہوتا ہوا ہندوستان پہنچا اوراب ہندوستان کی تاریخ اور سیاست کا اہم جزو بن چکا ہے۔

1947 کے بعد کا سومنات

آزادی ہند کے فوراً بعد سومنات میں ایک نئے مندر کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے افتتاح کے موقع پر ہندوستان کے صدر راجندر پرساد بھی اس تقریب میں شریک ہوئے حالانکہ اس وقت کے وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے خط لکھ کر واضح طور پر انھیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔

نہرو نے باقی تمام سرکاری عہدہ داروں کو بھی اس بات کی تلقین کی کہ وہ خود کو اس عمل سے دور رکھیں۔

اسی طرح سومنات اور محمود غزنوی پاکستان کے تاریخی بیانیے کا بھی ایک اہم سلسلہ ہے۔ 1960 کی دہائی میں جنرل ایوب خان کی زیرِ صدارت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کی تاریخ کو اس طرح ازسرِنو مرتب کیا جائے کہ اس میں مرکزیت پاکستان کے علاقوں کو حاصل ہو اور تمام تر تاریخی حرکت کا مظہر وہ علاقے ہوں جو اس وقت پاکستان میں شامل ہیں۔ اس تاریخی بیانیے میں مسلم فاتحین اور سیاسی مرکزیت کی اہمیت کو نمایاں طور پر اجاگر کیا گیا۔

اشتیاق حسین قریشی کی مرتب کردہ یہ درسی کتاب ‘A Short History of Pakistan’ کے نام سے جامعہ کراچی نے شائع کی۔

یوں انیسویں صدی میں برطانوی سامراج اور اس کے زیرِ اثر تشکیل پانے والے تاریخ نویسی کے رجحان نے گہرے اثرات مرتب کیے اور ایسے فکری، سماجی، مذہبی اور سیاسی رجحانات کو فروغ دیا جو کہ نہ صرف مسلم قوم سازی بلکہ ہندو قوم سازی میں بھی انتہائی اہم ثابت ہوا۔

کیا محمود غزنوی کا مقصد محض لوٹ مار کرنا تھا؟ کیا وہ صدق دل سے اسلام کی خدمت کرنا چاہتے تھے اور اسلام کی ترویج کرنے کے لیے ہندوستان آئے تھے؟ یا انھوں نے واقعتاً ہندوؤں کی تذلیل کرنے کے لیے ان کے مندروں کو پامال کیا اور ان کی مورتیوں کو توڑ دیا؟ ان سوالات کا کوئی حتمی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ ہاں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس حوالے سے جتنے بھی تاریخی ماخذات موجود ہیں، ان کو ان کے سیاق و سباق میں دیکھتے ہوئے پڑھا جائے۔

اور یوں اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے کہ کس طرح ایک ہی واقعے نے مختلف ادوار میں مختلف عمومی رویوں، تشریحات اور رجحانات کوجنم دیا۔

’اجتماعی یادداشت‘ کسی ایک واحد، غیر متبدل شے کا نام نہیں ہے۔ اس کی تشکیل سیاسی اور سماجی اثرات کے زیرِ اثر ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں انیسویں صدی سے پہلے ’ہندو ٹراما‘ نام کے کسی تصور کا وجود نہیں تھا، انیسویں صدی کے خاص سیاسی تناظر میں ہندو ٹراما وجود میں آیا اورایک نئی ہندو قومیت کی شناخت کا استعارہ بن کر ابھرا۔

اگر ہم اس سیاسی قوت، جسے ہم ہندوتوا کے نام سے جانتے ہیں، کی فکری اساس کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم تاریخ کی تہہ در تہہ معنویت سے آشنائی حاصل کریں تاکہ ہم تاریخ کا صحیح طور پر ادراک کر کے اس کے سیاسی مضمرات کو بھی سمجھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp