بلوچستان میں ہزارہ کان کنوں کے لواحقین کا سوگ: ’جب تعزیت کرنے والے بھی اذیت بن جاتے ہیں‘


ہزارہ
ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ آپ نے اپنے دل کے بہت قریب شخص: اپنی اولاد یا اپنا شوہر یا اپنا باپ ایک خوفناک حادثے کے نتیجے میں کھو دیا اور ابھی آپ کے پیارے کو دفنائے ہوئے کچھ پل بھی نہیں گزرے کہ درجن بھر گاڑیوں کا قافلہ آپ کے گھر آتا ہے، سکیورٹی اہلکار آپ کے گھر کے کونے کونے پھیل جاتے ہیں، میڈیا کے کیمروں اور سوالات کی ایک بھرمار آپ پر کر دی جاتی ہے تو بتائیے کہ کیا اس قسم کی تعزیت سے آپ کا غم کم ہوگا؟

ڈاکٹر فاطمہ حیدر جن کے شوہر ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے 12 سالہ بیٹے مرتضیٰ حیدر کو فروری 2013 میں لاہور میں ہونے والے دہشتگردی کے ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مچھ میں دہشتگردی میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کا غم سمجھتی ہیں اس لیے غم زدہ خاندانوں کے پاس تعزیت کرنے والوں سے ان کی گزارش ہے کہ وہ کچھ بھی کہنے یا کرنے سے پہلے ایک بار اپنے آپ کو ان لوگوں کی جگہ میں رکھ کر ضرور سوچیں۔

یہ بھی پڑھیے

مرنے والے دس کان کن نہیں دس سائے ہیں

ہزارہ برادری کا دھرنا: کیا مصالحت کی کوشش اُلٹا تنازع کا باعث بن گئی؟

ہزارہ قتل: جے آئی ٹی کی تشکیل، دھرنے کے شرکا وزیراعظم کے منتظر

گذشتہ سنیچر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلہ فیلڈ میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کم از کم 10 کان کن کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین گذشتہ چار روز سے میتوں سمیت کوئٹہ میں ایک احتجاجی مظاہرے میں بیٹھے ہیں۔ ان لواحقین کے پاس اب تک متعدد حکومت عہدار اور سیاسی رہنماء جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شامل ہیں تعزیت اور مزاکرات کرنے آچکے ہیں۔ لیکن ان لواحقین کو انتظار ہے تو بس وزیراعظم عمران خان کا۔

البتہ وزیراعظم عمران خان نے دھرنے کے شراکاء سے مزاکرات کے لیے پہلے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید اور پھر ذوالفقار بخاری اور علی زیدی کو کوئٹہ بھیجا۔ یہ وزراء لواحقین کو ان کے پیاروں کی میتوں کو دفن کرنے پر رضامند تو نہ کر سکے البتہ تعزیت کے لیے آئے ذوالفقار بخاری کے الفاظ کو بہت سے لوگوں کے جانب سے اذیت ناک ضرور قرار دیا گیا۔

دہشتگردی کے متاثرین کے لواحقین سے تعزیت کے وقت یہ باتیں کہنے سے گریز کریں:

2014 میں اے پی ایس حملے میں ہلاک ہونے والے اسفند خان کے والد آجون خان نے تعزیت کے لیے آئے حکومتی عہداروں اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے گزارش کی کہ ’جب وہ ایسے لواحقین کے پاس جائیں جن کے پیارے دہشتگردی کے حملے میں ہلاک کر دیے گئے تو خدارا ایسے وعدے نہ کریں جو وہ پورا نہیں کر سکتے۔‘

‘تعزیت کے لیے جانا اچھی بات ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کی اہم روایات میں سے ایک ہے لیکن جب بھی کوئی ایسا واقع ہوتا ہے تو سیاسی رہنماء اور حکومتی عہدے دار گاڑیوں کے بڑے بڑے قافلوں میں تعزیت کے لیے آتے ہیں اور کہتے ہیں وہ ہمارے غم میں شریک ہیں اور ہماری مدد کے لیے پر ممکن کوشش کریں گے لیکن وہاں سے جاتے ہیں یہ تمام باتیں اور وعدے بھلا دیے جاتے ہیں۔’

ڈاکٹر فاطمہ حیدر کا کہنا ہے کہ حکومتی عہدے داروں کے علاوہ بھی تعزیت کے لیے آنے والے دوسرے لوگوں کو یہ خیال رکھنا چاہتے کہ وہ کوئی ایسا وعدہ نہ کریں جسے وہ بعد میں پورا نہ کر سکیں۔

‘اگر آپ بعد میں ان لوگوں سے ملاقات کے لیے نہیں آ سکتے تو آپ ان سے مت کہیں کہ آپ دوبارہ آئیں گے اور ان سے ملاقات کریں گے ۔ غم زدہ افراد کو جھوٹی امید دلانا ان کے لیے مزید تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے۔’

ڈاکٹر فاطمہ حیدر نے اپنے شوہر اور بیٹے کی ہلاکت کے بعد ‘گریف ڈائریکٹری’ نامی ایک این جی او تشکیل دی جس کا مقصد دہشتگردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کی ذہنی صحت اور مجموعی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔

ڈاکٹر فاطمہ کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں اکثر خاندانوں کو اپنا غم کو سمجھنے اور اس کو بانٹنے کا موقع بھی نہیں ملتا کیونکہ تعزیت کے لیے آئی بڑی شخصیات اور میڈیا کی ٹیمیں انھیں اس کا موقع ہی نہیں دیتی۔

ہزارہ

'اس واقعے کے بعد میری زندگی اور میرے خاندان سے جڑی بہت سی ذاتی چیزیں میری اجازت کے بغیر میڈیا پر چلائیں گئی جو شاید میڈیا کی رپورٹ کے لیے تو اچھی ہوں لیکن میری پرائیویسی کے لیے نقصان دہ تھیں۔'

غیر حساس الفاظ کے استمعال سے گریز کریں

ڈاکٹر فاطمہ کی کوشش ہے کہ وہ دوسرے لوگوں میں ان سوگوار خاندانوں سے متعلق وہ آگاہی پیدا کر سکیں جو انھوں نے اپنے تلخ تجربات سے سیکھیں۔

‘تعزیت کے لیے جانے والوں سے میری یہی گزارش ہوتی ہے کہ وہ بس اپنے آپ کو ان لوگوں کے جگہ پر رکھ کر دیکھیں اور پھر سوچیں کہ وہ اپنے لیے ایسے الفاظ سننا پسند کریں گیں جو ہمارے معاشرے میں عموماً ایسے موقعوں پر ادا کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ ایک ایسے شخص کو جس کی اولاد کو بیہمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں اللہ کی مرضی تھی؟’

ڈاکٹر فاطمہ کا کہنا ہے کہ ایسے موقع پر اکثر لوگ سوگوار افراد کو کوئی نوکری کرنے یا دیگر سرگرمیاں اپنا کر دل لگانے کا مشورہ دیتے دیکھائی دینے ہیں۔

‘ہر شخص اپنے لحاظ سے اپنے غم پر قابو پاتا ہے اور اس میں وقت درکار ہوتا ہے اس لیے یہ مناسب نہیں کہ آپ فوراً انھیں ایسے مشورے دینا شروع کر دیں۔’

ہزارہ

ڈاکٹر فاطمہ کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ ایسے موقعوں پر آپ کی خاموشی بھی بہت معنی خیز ہو سکتی ہے اس لیے ضروری نہیں کہ آپ سوگوار خاندانوں کے پاس جا کر کچھ نہ کچھ ضرور کہیں۔ اپ خاموشی سے بیٹھ کر بھی ان کے غم میں شریک ہو سکتے ہیں۔

ہم سے کہا گیا اب تو تمہیں پیسے مل گئے ہیں اب تو تم خوش ہو گے

2013 میں پشاور میں ایک چرچ میں دہشتگری کے حملے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس حملے میں اپنے شوہر اور سسر دونوں کو کھو دیا جبکہ ان کی بیٹی شدید زخمی ہوئی لیکن تعزیت کے لیے جو حکومتی عہدے دار آتا وہ ان سے کہتا کہ آپ حملہ آوروں کو معاف کر دیں۔

‘ان حملہ آوروں نے مجھ سے میرا شوہر چھین لیا اور میرے بچوں کو یتیم کر دیا لیکن مجھے انصاف کی یقین دہانی کروانے کے بجائے مجھ سے کہا گیا کہ میں ان لوگوں کو دل سے معاف کر دوں۔ میں کیسے ان لوگوں کو معاف کر دوں جنہوں نے مجھے بلکل بے سہرا کر دیا۔’

پشاور حملے میں ہلاک ہونے والے شخص کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ تعزیت کے لیے آنے والے اکثر ان سے کہتے تھے کہ صبر کرو اس میں خدا کی مرضی ہوگی۔

‘مجھے اس بات کا یقین ہے کہ خدا کی کبھی یہ مرضی نہیں ہو سکتی کہ اس کہ بندوں کو یوں قتل کر دیا جائے اور اس کے خاندان والوں کو یوں بہ سہارا چھوڑ دیا جائے’

اے پی ایس حملے میں اپنے 14 سالہ بیٹے اسفند خان کو کھو دینے والے آجون خان کا کہنا ہے کہ جب ہم اپنے بچوں کے قتل کے لیے انصاف کی آواز اٹھاتے تھے تو بہت سے لوگ ہمیں کہتے تھے کہ تمہیں تو حکومت کی طرف سے پلاٹ اور مالی امداد مل گئی ہے اب تو تم خوش ہو جاؤ۔

‘میں سوچتا ہوں کے ان سے کہوں کہ یہ لو یہ پلاٹ کے کاغذات اور سارے میڈل اور مجھے میرا بچہ لوٹا دو یا کچھ نہیں تو اس کے بدلے میرے بچے کے قاتلوں ہی کو سزا دے دو۔’

عمران خان ہزارہ برادری کی تعزیت کے لیے جائیں تو وہ وعدہ نہ کریں جو وہ پورا نہیں کر سکتے

آجون خان کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان مچھ سانجے کے لواحقین کے پاس تعزیت کے لیے جائیں تو ان سے بس وہی وعدے کریں جو وہ پورا کر سکتے ہیں۔

‘اگر عمران خان خود کچھ نہیں کر سکتے تو سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن بنا دیں جو اس واقع کی تحقیقات کر سکے اور مجرمات کو کیفرکردار تک پہچا سکیں۔’

ڈاکٹر فاطمہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور پنجاب اسمبلی کی جانب سے 2014 اور 2016 میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین کی سپورٹ کے لیے قانون پاس کیا گیا لیکن آج تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی اور ان حملوں کا نشانہ بننے والے افراد کو بس مالی امداد دے دی جاتی ہے لیکن ان کی مکمل فلاح و بہبود کے لیے کجھ نہیں کیا جاتا۔

‘حکومت کو چاہیے کہ اس واقع میں بیوہ ہونے والی خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑے کرنے کے لیے روزگار مہیا کرے اور ان کے تحفظ کے لیے جمع پلان تشکیل دے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp