مسئلے کا حل کیا ہے؟


کیا تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر رہی ہے؟جیسا کہ اس تنقید سے ظاہر ہوتا ہے، پی ڈی ایم کی صفوں میں مقاصد، اہداف، حکمت عملی اور طریق کار کی بابت ابہام پایا جاتا ہے۔ باہمی ابلاغ کے فقدان اور اندازوں کی غلطی کے علاوہ کچھ دیگر مسائل بھی ہیں ۔ چنانچہ ناقدین نتیجہ نکالتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ تو اپنی جگہ پر موجود ہیں اور جبکہ پی ڈی ایم کے گرد ناکامی کی دھند گہری ہوتی جارہی ہے۔

ایک بات یقینی ہے کہ اگر پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتیں اہم معاملات، جیسا کہ لانگ مارچ یا قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں، سینٹ کے انتخابات، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقو ں میں ہونے والے ضمنی انتخابات، تنقید کے اہداف (عمران خان، اسٹبلشمنٹ، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی) جیسے معاملات پر ایک صفحے پر ہوتیں تو اس کی کامیابی کے امکانات روشن تر ہوتے۔

لیکن اسٹبلشمنٹ کے آ ہنی حصار میں رخنہ ڈالنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ عمران خان اس حصار کے اندر محفوظ ہیں۔ یہی حصار اسٹبلشمنٹ کی چوٹی کی قیادت کے ذاتی مفادات کو تحفظ دیتا ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مختلف، بلکہ بسا اوقات مخالف فکری جھکاؤ رکھتی ہیں۔ ان میں سے کوئی جماعت دائیں بازو کی ہے تو کوئی بائیں بازو کی ۔ کچھ روایتی مذہبی جماعتیں ہیں تو کوئی سیکولر سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان سب کے رجحانات مختلف ہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے ہم کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ گلاس نصف بھرا ہواہے، نہ کہ نصف خالی ہے۔ گویا مشکل حالات ضرور ہیں لیکن امید کا چراغ گل نہیں ہوا۔

ایک سال پہلے مولانا فضل الرحمن تن تنہا اسلام آباد چلے گئے اور کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ آج صورت ِحال مختلف ہے۔ متحرک اور فعال پی ڈی ایم حکومت کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ برس پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت شہباز شریف اور ہم نواؤں کے ہاتھ میں تھی جو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں۔ اُس حکمتِ عملی کی ناکامی نے مریم نواز کو میدان میں آنے کا موقع دے دیا۔ مریم نواز کی عوامی مقبولیت کے پرچم تلے مسلم لیگ ن کے پرانے ساتھی یک جان ہوچکے ہیں۔ ایک سال تک حزب اختلاف کی بدعنوانی کا بیانیہ میڈیا میں گردش میں رہا ۔ یہ بیانیہ عمران خان کا پھیلایا ہوا تھا۔ آج نیب کی پررعونت من مانی،تحریک انصاف حکومت کی بدعنوانی اور نااہلی زبان زد عام ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو اس نالائق حکومت کی دیدہ دلیری سے پشت پناہی کرتے رہنے پر تنقید کا بلاجواز نشانہ بننا پڑ رہاہے۔ ایک سال پہلے بحث کاموضوع یہ تھا کہ اپوزیشن کو این آر او نہیں ملے گا۔ آج یہ ہے کہ عمران خان کو این آر او نہیں لینے دیا جائے گا۔

لیکن اس دوران کچھ اور دیگر اہم واقعات بھی پیش آئے ہیں جن کے ریاست،جمہوریت اور سول سوسائٹی پر مستقبل میں گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ کئی عشروں سے مرکز سے دور، ناراض قوم پرست جماعتوں کے معمولی دھڑے اسٹبلشمنٹ مخالف نظریات رکھتے تھے۔ آج پاکستانی مرکزی دھارے کے اہم منطقوں سے اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت پر تنقیدی آواز بلند ہورہی ہے۔ کل تک تمام سیاسی جماعتوں کو اسٹبلشمنٹ کی نرسری میں پروان چڑھنے کا طعنہ دیا جاتا تھا ۔ آج زیادہ تر جماعتیں اسٹبلشمنٹ سے ناتہ توڑ نے کا عہد کررہی ہیں۔ اس حوالے سے نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ فکری تبدیلی کایہ غیر اہم دکھائی دینے والا مرحلہ یہیں تک نہیں رکا بلکہ اس نے ”مقدس گائے“ کی حیثیت کو بھی چیلنج کردیا ہے۔ اس طر ح یہ تبدیلی انتہائی اہمیت اختیار کرگئی ہے۔

درحقیقت جن افراد کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نوا زکا اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ پی ڈی ایم کے لیے عمومی طور پراور پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے خاص طور پر نقصان دہ ہے، وہ اصل صورت حال کو دیکھنے سے قاصر تھے۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف نے اسٹبلشمنٹ سے آئینی حقوق کا مطالبہ کرنے کی قیمت چکائی ہے، لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ آج اپوزیشن میں رہتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنا اسے خوش کرتے رہنے سے بدرجہا بہتر ہے، خاص طور پر اُس وقت جب اسٹبلشمنٹ نے مرکزی دھارے کی جماعتوں اور ان کے قائدین کو باہر نکال کر اپنی مرضی سے ملک پر ایک ہائبرڈ سسٹم مسلط کرنے کا فیصلہ کرلیا ہو۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے امکانات مکمل طور پر ختم کیا ہونے تھے، اس پالیسی نے اسٹبلشمنٹ کو ن لیگ میں اپنی لابی کو زندہ کرنے کی کوشش پرمجبور کردیا ہے۔ اس لابی کی قیادت شہباز شریف کے پاس ہے۔تاہم اس دوران اسٹبلشمنٹ کو عمران خان کی وجہ سے اپنے خلاف بیانیے کی ترویج کو بھی محدود کرنے کی کوشش کرنا پڑرہی ہے۔

حکومت یا اسٹبلشمنٹ کے خلاف چلنے والی کسی عوامی تحریک میں محنت کش طبقوں کے علاوہ پیشہ ور افراد اور تاجروں کی شمولیت کے اعدادوشمارپر نظر رکھنے والے کچھ حقیقت پسند قنوطی تجزیہ کار کچھ اپنی رائے رکھتے ہیں۔ جب اُنہیں وکلا تحریک جیسے انقلابی جذبات اور عوامی شمولیت (اگرچہ اُس تحریک میں انقلاب کا رخ معکوس سمت ہو گیا تھا) دکھائی نہیں دیتی تو وہ سوچتے ہیں ان طبقات کے غیر متعلقہ رہنے سے پی ڈی ایم یا مسلم لیگ ن کیا کر حاصل لے گی؟

یقینا ان کی بات درست ہے۔ لیکن صرف اُس وقت تک جب تک پانسہ پلٹ نہیں جاتا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جنرل ایوب خان کو گھر بھیجنے والی 1967 ء کی عوامی تحریک کی قیادت کسی منظم جماعت کے ہاتھ نہیں تھی۔ اپریل 1977 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار اُس سے کہیں مضبوط تھا جتنا عمران خان کا جنوری 2021 ء میں ہے۔ عالمی سٹیج پر کون سے اعدادوشمار 1989 ء میں سوویت یونین جیسی طاقت کے ڈرامائی انہدام کی خبر سنارہے تھے؟ یا تیونس کے اُس ریڑھی والے کا کسی کو پتہ تھا جس کی خود کشی سے بہار عرب کی ہوائیں چلنے لگیں؟نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر نائن الیون حملوں کی کس کو خبر تھی جو افغانستان اور مشرق ِوسطیٰ میں ناقابل تصور جان ومال کے نقصان کا باعث بنے؟

حتمی تجزیے میں پی ڈی ایم کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار اس بات پر نہیں ہوگا کہ یہ پنجابی یا شہری علاقوں کی پشتون آبادی کی تحریک برپا کرکے عمران خان کو اقتدار سے نکال باہر کرتی ہے۔ نہ ہی اس کا دارومدار جلسوں یا لانگ میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت پر ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ پی ڈی ایم عمران خان کے خلاف گلیوں میں مزاحمت کی احتجاجی تحریک جاری رکھے گی۔ اس دوران عوامی سوچ کا دھارا اسٹبلشمنٹ کے خلاف توانا کیاجائے گا۔ اس سے پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام اور معاشی غیر یقینی پن اس ہائبرڈ بندوبست کا جواز کمزور کرتا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے تعاون یا اس کے بغیر پی ڈی ایم کے ترکش کا سب سے طاقتو ر تیر سیاسی درجہ حرارت بڑھائے رکھنا ہے۔ اس دوران استعفوں کی دھمکی اور ضمنی انتخابات کو ناکام بناتے ہوئے پارلیمنٹ میں آئینی بحران پیدا کیا جاتا رہے گا۔

اس صورت ِحال کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جلد یا بدیر اسٹبلشمنٹ عمران خان اور تحریک انصاف کو مسئلے کا حصہ، نہ کہ اس کا حل، سمجھنا شروع کر دے گی۔ ریاست اور اس کے عناصر کے تقدس کو زک پہنچانے والے اس بحران سے نکلنے کا یہی ایک راستہ ہے۔

(بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).