اہل ہزارہ کا درد اور بے حس سرکار


تین چار روز سے قلم اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوں، کبھی لفظ گم ہو جاتے ہیں کبھی آنکھ چھلک پڑتی ہے، کبھی مقتولوں کی پس کمر ہاتھ بندھی، آنکھوں پر پٹی بندھی ذبح شدہ لاشیں نظروں کے سامنے آجاتی ہیں تو کبھی سوگواران کی خون جما دینے والی سردی میں کھلے آسماں تلے بیٹھے بیٹھے تھکان سے بوجھل کسی کی منتظر نظریں اندر ہی اندر سے کھائے جاتی ہیں۔ ہزارہ برادری کی نسل کشی کے گزشتہ چند واقعات گننے بیٹھا تو طبیعت بوجھل ہو گئی۔

سانحہ مچھ کے مظاہرین میتوں کے ہمراہ کئی روز سے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں، مطالبات کی سب باتیں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں جب سوال صرف ایک ہے کہ ”عمران خان! کوئٹہ آؤ“ ۔ یہ 2012 ء نہیں 202 ء ہے آپ اپوزیشن میں نہیں حکومت میں ہیں وہ بھی ایک پیج والی۔ کسی ذی شعور کو اب تلک کوئی ٹھوس وجہ معلوم نہیں ہو سکی جو جناب کے کوئٹہ جانے میں مانع ہو۔ کبھی اڑتی ہوئی خبر آتی ہے کہ سیکورٹی کا مسئلہ ہے تو جناب 11 سوتے ہوئے مزدوروں کا یکایک قتل ہو جانا سیکورٹی کا ہی تو مسئلہ تھا، یوں کہیے بے جرم و خطا انسانوں کا قتل ہوا، اک سانحہ ہوا، اس پر مزید سانحہ یہ ہوا کہ حاکم وقت کو اتنے سارے محافظوں، جانثاروں، ٹائیگر فورس کے ہوتے ہوئے اب تک سیکورٹی کلیئرنس نہیں ملی۔

پھر میں یہ مان لوں اگر وزیراعظم کی جان کو خطرہ ہے تو 7، 8 لاکھ ہزارے کیا 22 کروڑ لوگوں کا فقط خدا حافظ۔ میرے وہ سرحدوں پر جاگنے والے کیا ہوئے؟ لوگ یہاں چین کی نیند سوتے ہیں مگر وہ نیند ابدی نیند میں تبدیل ہو جاتی ہے اور انکشاف ہوتا ہے بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کا۔ میرے وہ اول نمبر ہونے کا کیا فائدہ جب دشمن اپنے عزائم میں کامیاب ہے؟ میں تو اپنے سسٹم کی کمزوریوں سے ہی ابھی تک ناواقف ہوں۔

پانچویں روز حزب اختلاف و انسانی حقوق والے درد بانٹنے پہنچے، دیر سے پہنچے، پہلے چلے جانا چاہیے تھا مگر حاکم وقت پھر نہ پہنچ سکا۔ یہ تو سیاست ہو گئی، جی سیاست دان سیاست نہ کرے تو اور کیا کرے گا، سیاست دان تو سانس بھی بغیر سیاسی فائدے کے نہیں لیتا، جب حضرت عمران خان اپوزیشن میں تھے، بن بلائے ہزارہ والوں کے پاس جا کر بڑے بڑے دعویٰ کیا کرتے تھے تو کیا وہ سیاست نہیں تھی؟ اس وقت کے حکمرانوں سے سوال کہ ریاست کہاں ہے؟ کیا یہ سب سیاست ہی کے پیچ و خم تھے۔ سیاست تو ہے ہی وقت و موقع کی مناسبت کا کھیل، آج آپ کو اپوزیشن کا سیاست کرنا پسند نہیں تو انہیں یہ موقع فراہم بھی آپ ہی نے کیا ہے۔

اگر اس سبب سے نہیں جاتے جو جناب زلفی بخاری نے بتایا تو کیا کسی ملک کے عوام کا اپنے حکمران سے اپنے دکھ درد میں اپنے قریب ہونے کا تقاضا کرنا کوئی غیر فطری یا نا معقول بات ہے؟ یا یہ بھی سیاسی بات ہے؟ اگر کسی تلخ سوال یا نعرے کا ڈر ہے تو سیاست میں آئے ہی کیوں ہیں؟ دفتری مصروفیات میں غیر ملکی اداکار ملاقاتیوں کو چھوڑیے، کاش اپنے ملک کے ”اداکار“ ، ”یوٹیوبرز“ ہی جناب کو کہتے آپ کوئٹہ چلے جائیں ہم سے پھر کبھی مل لیں گے۔ آئے روز ترجمانوں کے اجلاس میں موجود درجنوں ترجمانوں میں سے کسی کو شرم نہ آئی جو وزیراعظم کو کہتا آج ہمیں ہدایات دینا چھوڑیں، عوام کو اپنے طرز حکمرانی کی تصویر اپنے عمل سے خود دکھائیں۔

کاش میرے ملک کی آزاد و بااختیار عدلیہ جو یک جنبش قلم سے وزیر اعظم کو گھر بھیج سکتی ہے، کبھی از خود نوٹس لے کر اس شخص کو احتجاج کرتی لاشوں کے پاس بھیج سکتی۔ اتنے روز گزر جانے کے بعد جہاں ہر شخص جناب وزیر اعظم کی بے حسی کا ماتم کر رہا ہے، اب ان کا کوئٹہ آنا نہ آنا تقریباً اخلاقی اہمیت کھو چکا ہے۔ وہاں ہزارہ مزدوروں کی میتیں نہیں ریاستی، حکومتی بے حسی کی میتیں کھلے آسمان تلے پڑی ہیں۔ اہالیان ہزارہ ہوں یا اہل دانش سب نوحہ کر رہے ہیں ”میرے پاس تم ’نہیں‘ ہو“ ۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).