دین،اخلاقیات اور انسانیت


ہمارے ہاں عموماً دین کو اخلاقیات اور انسانیت سے علیحدہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اگر کسی شخص کا زیادہ زور اخلاقیات اور انسانیت پر ہو تو اسے موم بتی مافیا یا لبرل جیسا خطاب دے دیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ چونکہ ان لوگوں کا اصل زور اخلاقیات اور انسانیت پر ہے تو یقیناً ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ دوسری جانب سے بھی یہ ہوتا ہے کہ مذہب سے متعلق لوگوں کے جذبات سے آگاہ ہونے کے باوجود سارا زور اخلاقیات اور انسانیت پر ڈال کر کچھ ایسی باتیں کی جاتی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دین کچھ نہیں ہے بس اخلاقیات اور انسانیت ہی سب کچھ ہے۔ دراصل دونوں اپروچز غلط ہیں اور دونوں طرف سے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

فی الوقت ”موم بتی مافیا“ اور ”لبرل“ کے ٹیگ والے افراد کو چھوڑ کر دوسرے طبقے کی بات کرتے ہیں۔ میرے ناقص مشاہدے اور تجربے کے مطابق اس سارے قصے کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ مذہبی طبقے اور عوام الناس کے ذہنوں سے اخلاقیات اور انسانیت کی اہمیت تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ ہمارا سارا زور عبادات کی طرف چلا گیا ہے جس کا نفع و نقصان صرف ایک انسان کی ذات سے جڑا ہوا ہے، ہم یہ بھول گئے ہیں کہ دین اسلام کی بنیاد ہی اخلاقیات ہے۔

سب سے بہترین شخص اس کو قرار دیا گیا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا محفوظ رہے اور جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔ یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے نہ کہ حقوق اللہ سے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حقوق اللہ یعنی عبادات کی کوئی اہمیت نہیں۔ علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ:

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اب عین ممکن ہے کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ قرآن کریم میں انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت بتایا گیا ہے جبکہ یہ شعر قرآن کی اس آیت سے متصادم ہے تو جناب! یہ ذہن میں رکھیں کہ درد دل، اخلاقیات اور انسانیت بھی عبادت کے زمرے میں ہی آتے ہیں، دراصل اس شعر میں بھی اخلاقیات اور انسانیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسکول کے کورس میں بچوں کو اسلامیات اور دینیات تو پڑھاتے ہیں لیکن اخلاقیات اور انسانیت کی تعلیم نہیں دیتے، ہمارا سارا زور علم اور ڈگری پر ہوتا ہے نہ کہ اخلاقیات اور انسانیت پر، یہی بات ہے کہ ہمیں اسلامیات کا پرچہ دیا جاتا ہے امتحان میں پاس ہونے کے لیے اور غیر مسلم اقلیتوں کو اخلاقیات اور مذہبی ہم آہنگی پڑھائی جا رہی ہوتی ہے حالانکہ اس کی ہم مسلمانوں کو پڑھنے اور پڑھانے کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ ہمیں پتا چلے کہ ہمارے اسلاف کا اپنے دنیاوی معاملات میں کیا معیار رہا ہے اور ان کا اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک رہا ہے۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دین، اخلاقیات اور انسانیت کوئی الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ عین مذہبی تقاضے کا نام ہے۔

اخلاقیات کی تعلیم ماں اور استاد کا پہلا سبق ہونا چاہیے جو وہ بچے کو دیں ورنہ ہماری مسجدوں سے جوتے چوری ہوتے رہیں گے، مسجدوں کے واش رومز کے لوٹے زنجیروں سے بندھے رہیں گے، واٹر کولر پر رکھے ہوئے گلاس بھی زنجیروں سے منسلک نظر آئیں گے، مال کے الٹے ہوئے ٹرکوں کے اردگرد لوگوں کے ہجوم نظر آتے رہیں گے جو ٹرک کو لوٹنے میں مصروف ہوں گے، کسی کی سڑک پر گری ہوئی ساری زندگی کی جمع پونجی اپنی جیب میں منتقل ہوتی نظر آئے گی، غرض یہ کہ جیب میں حرام مال لے کر حلال گوشت کی دکان ڈھونڈتے ہوئے بے شمار لوگ نظر آئیں گے۔ ہم روتے رہتے ہیں کہ حکمران لوٹ کر کھا گئے لیکن ہمیں جہاں داؤ لگانے کا موقع ملتا ہے وہاں ہم بھی نہیں چوکتے، حکمرانوں کا ہاتھ کھربوں روپوں تک پہنچتا ہے اور ہمارا چند ہزار تک مگر ہم دونوں اپنی اپنی جگہ لٹیرے ہیں کیونکہ ہمارے اعمال ہی ہمارے حکمران ہیں۔

کسی بے نمازی یا روزہ خور کی بروز قیامت بھی کوئی نیکی دوسرے کو نہیں دی جائے گی یا کسی ایک کا گناہ کسی دوسرے کے پلڑے میں نہیں ڈالا جائے گا، صرف ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہو گا جنہوں نے دوسرے کا حق مارا ہو گا، کسی کا مال لوٹا ہو گا، کسی بیوہ کی زمین پر قبضہ کیا ہو گا یا کسی کو ناحق قتل کیا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اخلاقیات اور انسانیت ہمارے دین کی اصل ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اب سوشل میڈیا پر گورے بھی اپنے لوگوں کو مختلف ویڈیوز کے ذریعے سے اخلاقیات کا درس دیتے نظر آتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتے اور بھوکوں کو کھانا کھلاتے نظر آتے ہیں، ہر وہ اخلاقی سبق آپ کو ان ویڈیوز میں نظر آئے گا جس کا مطالبہ ہمارا دین ہم سے کرتا ہے، لیکن ہم اپنے شعار گوروں سے سیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنا کر دنیا کی عظیم قوم بن چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ منصف ہے، وہ انصاف دین کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی کوشش کی بنیاد پر کرتا ہے اور انسان کو وہی کچھ دیتا ہے جس کی اس نے کوشش کی ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر ایک واقعہ پیش کرتا ہوں کہ ایک مرتبہ پیر مہر علی شاہ صاحب اپنے مریدین کے درمیان موجود تھے کہ ایک ہندو خاتون گرما گرم پکوڑے لے کر حاضر ہوئی اور آپ کو پیش کیے، آپ نے فوراً قبول کر کے تناول فرما لیے، وہ خاتون خوش ہو کر چلی گئیں، آپ کے مصاحبین نے کہا کہ حضرت! یہ آپ نے کیا کیا؟ آپ تو روزے (نفلی) سے تھے؟ تو پیر صاحب نے جواب دیا کہ ٹوٹا ہوا روزہ تو جڑ (قضا) سکتا ہے لیکن ٹوٹا ہوا دل جوڑنا ممکن نہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اخلاق کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہیں، انہوں نے اس زمانے میں جب بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے جگر کا ٹکڑا کہا اور آپ کے آنے پر کھڑے ہو کر آپ کا استقبال کرتے اور یہاں تک کہ حاتم طائی، ایک دشمن کی بیٹی کی آمد پر بھی آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور اپنی چادر مبارک بچھائی، یہ اعلیٰ اخلاق اور انسانیت کا بہترین نمونہ ہے جس کی کوئی اور مثال نہیں!

محمد حسان، اسلام آباد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد حسان، اسلام آباد

محمد حسان گزشتہ 12 سالوں سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹویٹر اور فیس بک پر سرچ کر سکتے ہیں BlackZeroPK

muhammad-hassaan-islamabad has 12 posts and counting.See all posts by muhammad-hassaan-islamabad