شہناز شورو کی کتاب ”کوئی کہکشاں نہیں ہے“


خسرو کا رنگیں سنگھا سن جھومر شاہ بھٹائی کا
تہذیبوں کے رنگ سے روشن چہرہ سندھو مائی کا
احمد جہانگیر
شہناز شورو کی کتاب کا نام ان کے افسانوں کے مرکزی خیال سے جڑا ہے، ”کوئی کہکشاں نہیں ہے“ ۔

یہ افسانے رستے زخموں کی بخیہ گری کے بعد قاری کے حوالے کر دیے گئے۔ بخیہ گری کا یہ سلیقہ بہت کم افسانہ نگاروں کے ہاں نظر آتا ہے۔ ان کی کتاب کا دیباچہ انڈیا کے معروف ادیب حقانی القاسمی نے تحریر کیا ہے۔ ان کا انتساب مشرف عالم ذوقی کے نام ہے، وہ صاحب ذوق تھے، کمال لکھتے تھے اور شہناز کے مداح تھے۔ ذوقی نے صحیح لکھا کہ ان کی کہانیاں ایک کے بعد ایک نہیں پڑھی جاتیں۔ قاری کو ایسا باندھتی ہیں کہ گرہ کھلنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں

ہم نے ان کی کہانیوں کو مقدس الفاظ کی طرح ایسے ہی پڑھا کہ جیسا کہ حکم ہے۔ سمجھ سمجھ کر۔ غور و فکر کے ساتھ۔ روح میں اترتے محسوس کرتے ہوئے۔

میکسم گورکی، کی ماں وہ واحد ناول ہے، جسے ہم نے تین بار پڑھا۔ نہ فرصت، نہ دماغ ٹھکانے پر کہ کوئی تحریر دو با رہ بھی پڑھی جائے، لیکن فرصت، شہناز کی تحریر پڑھوا کر دماغ ٹھکانے ر کہ دیتی ہے۔

درد میں مبتلا ہونے کا کس کو شوق ہوتا ہے! مگر درد خود ہی کسی کے پیچھے پڑ جائے تو کچھ دوڑ لگا لیتے ہیں، کچھ دائیں بائیں ہو کر اسے گزرنے کا راستہ دیتے ہیں، کچھ چھپ جاتے ہیں، کچھ سینہ سپر ہو کر اس کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو درد سے ہاتھ ملا لیتے ہیں۔ درد سے دوستی ماں کے بطن سے ہی شروع ہو جاتی ہے، جب یہ ماں کی بے چینی، تکلیف اور جاں کنی کے عذاب کو اپنے اندر اتار لیتے ہیں کہ کوئی کہکشاں نہیں ہے۔

یہ سونے کا چمچہ لے کے پیدا ہوں، موافق حالات انہیں بڑا کریں یا نامساعد حالات، یہ دولت درد کو سینے سے لگائے نمو پاتے ہیں۔

ان کی یہی صفات انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ بہت بار لکھنے کے ارادے سے شہناز کا مسودہ کھولا، بھول جاتے اور ان کی تحریر میں کھو جاتے۔ پھر ایک روز شہناز کی کتاب ڈاک سے آئی۔ کتاب کی تو بات ہی الگ ہے۔

ایک بار پھر بھٹکنے سے توبہ کرتے ہوئے شہناز کی کتاب تبصرے کے لیے اٹھائی تو دیکھا کہ یہ ”تیسرا آپشن“ تو رہ ہی گیا۔

یہ شہناز کی اپنے بارے میں اپنی تحریر ہے، اس کا تعارف یہ ہی سب تو شہناز کی تحریروں سے ہم نے ان کے بارے جانا تھا خوشی ہوئی کہ اپنی پسندیدہ لکھا ری کی تحریروں سے اس کے مزاج، شخصیت اور کردار کے بارے میں جو جا نا وہ وہی ہے جو انہوں نے لکھا۔

یہ ہو تا ہے سچ کا لہجہ، سچے انسان کا عکس جو اس کی تحریر کو اس کا تعارف بنا دیتا ہے۔

یہ شہناز شورو ہیں، کون ان کے ساتھ جڑا، کون الگ ہوا، یہ درد عشق میں گرفتار، درد کی متلاشی، انہیں دنیا کے کسی حصے میں نظر آ جائے یہ اسے اپنے اندر اتارنے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ جب یہ درد ان کی انگلیوں کی پوروں میں سرایت کرتا ہے تو اسے کا غذ پر منتقل کر کے پھر درد کی خبر کو لینے کو چل پڑتی ہیں۔

وہ کریں کیا، وہ کرداروں کو زندہ دیکھنا چاہتی ہیں، پر ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں، بس آنکھوں میں آنسو ہیں، جن سے یہ کہانیاں سے لکھی گئی ہیں۔

وہ اپنے پیش لفظ میں لکھتی ہیں۔

”افسانہ لکھتے ہوئے زمین کا یہ گولا مجھے خود پر نچاتا ہے اور اس کی چھاتی پر بکھرے جا بجا کردار۔ تڑپتے، سلگتے، روہانسے کردار۔ اپنی معصومیت، بے گناہی اور یکجائی کا ثبوت آنکھوں میں تھا مے اپنے ہونے کی گواہی دیتے ادھر ادھر سر پٹختے ہیں۔ مگر وہ کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان کے اس سوال کا جواب کسی عاقل، کسی فلسفی کے پاس نہیں، انسان کے دکھ ابھی لکھے ہی کہاں ہیں؟ کسے تاب کہ اتنا سچ بولے؟ گلا گھونٹتی روایات کے جال میں سانس سانس روتا سسکتا انسان، انسان بننے کے عمل سے گزرا ہی کب ہے“ ۔

یاد نہیں کہ شہناز کو کو کب سے پڑھ رہے ہیں، جب جب انہیں پڑھا، ایک بھر پور تاثر دماغ میں بس گیا۔ ان کی انگلی تھامے آپ ان کے کرداروں میں ڈھلتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی کردار کے عمل کی وجہ نہیں بتاتی ہیں، نہ کردار کو قاری کے رو برو جواب دہ کرتی ہیں، قاری پر اسباب و دخل در معقولات خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔

زندگی کا عذاب جھیلنے اور گھٹن سے سانس کھینچنے سے انکار کرنے سے پہلے مظلوم انسانوں کی کہانی کسی حساس قلم کار کی نوک قلم سے کسی کاغذ پر پھیلائی جاتی ہے، پھر اسے سمیٹا جا تا ہے، قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کہانی کی ترتیب، آغاز، درمیان اور انجام کی سیٹنگ کی جاتی ہے۔ کبھی کردار کے خاتمے سے اور کبھی چونکا دینے والے واقعے سے کہانی آغاز کیا جا تا ہے۔ ایڈیٹنگ، کا مرحلہ بھی تخلیق سے جڑا ہوتا ہے۔ ایک ایک لفظ، ایک ایک جملے پر غور، نوک پلک سنور گئی، کہانی دنیا کے سامنے پیش ہو نے کو تیار۔ پر انسان کی حقیقی کہانی! کیسی بے ترتیب، اس کا آغاز، اور انجام ستاروں کی چال پر ٹکا ایک دم بے یقیں، مگر نعمتوں کو نہ جھٹلانے کی تکرار پر اصرار۔

اپنے پیش لفظ ”تیسرا آپشن“ میں لکھتی ہیں۔

”یہ ایک عجیب و غریب دور ہے، یا شاید سوچنے والوں کے لیے ہر دور ہی عجیب ہوتا ہے۔ ہم نے عہد کیا ہوتا ہے کہ ہم سیدھے راستے کا چناؤ کریں گے اس پر چلیں گے اور مشکلات کا مقابلہ حوصلہ مندی سے کریں گے، مگر پھر بیانیہ بڑی خوب صورتی سے پلٹ جا تا ہے

کہ ہمیں معلوم تک نہیں ہو پاتا کہ ہم تو اسی راہ پر کھڑے تھے مگر راہ کو بڑی خوب صورت سے ایک نیا موڑ دے دیا گیا ہے۔ ہم تو ہم اسی راہ پر تھے مگر اس کراس روڈ کا انجام وہیں ہوتا ہے جس کے متحارب سمت ہم نے سفر شروع کیا تھا، یعنی جس نظام کے خلاف ہم نے آغاز جد و جہد کیا تھا وہی روپ بدل کر ہمارے سامنے ہے۔ ، اور ہم انجانے میں اس بیانیے کو مضبوط کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ سازش اصل میں وہی ہوتی ہے جس میں سازش دانش کہلائے۔ اور سازش کا شکار ہو نے والے کو پتہ ہی نہ چلے کہ وہ سازش کا شکا ر ہوا ہے، اور وہ عرصے تک اسی مغالطے میں رہیں کہ وہ نہ تو شریک کا ر تھے نہ ہی سازش کار ”۔

شہناز کے ایک افسانے کارپوریٹ کی دنیا، میں جانسن کے انجام نے میری بھی جان نکال دی، اور جب صوفی پڑھا تو تو پڑھا بھی کہاں، اس کے ساتھ میں نے بھی مجسمے اور مورتیاں بنائیں، شہر اور گاؤں گھومی، ان کی کہانیوں میں ہم ڈوبتے نہیں غڑپ ہو جاتے ہیں۔

ان کی کہانی ”گمشدہ“ ایک بات جو شاید کوئی کسی کو نہ سمجھا پائے، شہناز نے روما کے ذریعے سمجھا دی۔ میں نے شہناز کو دکھ اور خوشی کے ملتے جلتے احساس کے ساتھ میسیج کیا۔ انہوں نے ہاتھ جوڑنے اور دل والا ایموجی بھیج دیا کہ ابھی اور پڑھیے ابھی پڑھا ہی کیا ہے۔

اگر ان کی کتاب درمیان سے کھول لیں اور بے خیالی میں پڑھنا شروع کر دیں۔ ان کی کہانی لفظ لفظ پڑھتے جائیں، آغاز کیا تھا، کہانی کیا رخ اختیار کرے گی، آگے کیا ہو گا ایسا کوئی خیال نہیں آتا، تحریر کے سحر گرفتار ہو جاتے ہیں، محویت افسانے کے آخری لفظ پر نظر ٹوٹتی ہے تب چونکتے ہیں، پھر شروع سے شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ منظر کی دلکشی میں شہناز کیسے جکڑ لیتی ہیں۔

ان کے افسانے ”بہار میں خزاں“ سے ایک اقتباس

”جب اس نے پہلی بار برطانیہ کی معروف یونی ورسٹی میں قدم رکھا تب خزاں اپنا جشن منا رہی تھی، ہریالی سے محروم ہوتے بھورے، عنابی اور زرد پتے یہاں سے وہاں سر پیٹتے بین کر رہے تھے۔ ان پتوں پر بکھرتے نقوش، یا ان سے لمحہ بھر پہلے کی داستانیں شاید ان پرندوں کے سوا کسی نے نہ سنی ہوں جو ابھی تک ٹنڈ منڈ درختوں پر بسیرا کیے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ سڑک پار کرتے ہوئے بھی ان کی چال میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔ کار ڈرائیور بریکیں لگاتے اور وہ خراماں خراماں گزر جاتے“ ۔

کارپوریٹ افسانے میں ہو سکتا ہے کہانی کار نے اختتام اپنی مرضی کا کیا ہو۔

ایسی زندگی جس میں نا کردہ گناہ کی سزا ایک متعین فاصلہ ہو، پیدا کرنے والے سے، بندوں کے احتجاج کا یہی طریقہ ٹھیک ہے کہ جانسن نے خود کشی کر لی، ہو سکتا ہے نہ کی ہو، مگر کہانی کار اپنے کردار کی شہ رگ سے قریب ہے وہ، وہ کرتا ہے جو کرنا چاہیے۔ کردار کے پاس تیسرا آپشن جو نہیں۔

شہناز نے دنیا بھر سے بکھرے لوگوں کی بکھری کہانیوں کو سمیٹ کر کاغذ پر متحرک رکھا، انہوں نے کوشش کی کہ کرداروں کے مایوس رویے سے امید کشید کی جائے، مگر کوئی کہکشاں نہیں ہے۔

یہ دنیا دوڑ لگانے کو بہت بڑی مگر آدم زاد کے رہنے کو بہت چھوٹی پڑ گئی ہے، شہناز جیسے لکھاری زمیں کے نوحے آدم زاد کی زبانی لکھنے کی کوشش میں روح زخمی کیے بیٹھے ہیں کہ کوئی کہکشاں نہیں ہے۔

ان کے افسانے آپ کو اپنی طرف بلاتے نہیں آپ پر اترتے ہیں۔ جب کبھی میرے اندر آواز آئی، حی لا الفلح اور میں نے ان کا مسودہ تھام لیا۔

ان کے افسانے منشور ہیں جن پر رہنماؤں کو عمل کرنا چاہیے۔ یہ افسانے زندگی برتنے کے وظیفے ہیں، فلاح کا پیغام ہیں۔ ان کے افسانے مشرف عالم ذوقی کی دعا، قرۃالعین حیدر کی تھپکی اور بے نظیر بھٹو کی مبارک باد ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments