امریکہ: 25 ویں ترمیم کیا ہے اور کیا اس سے صدر ٹرمپ کو فوراً ہٹایا جا سکتا ہے؟


امریکہ
امریکی آئین کے تحت نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت مل کر صدر کو عہدے سے ہٹا سکتے ہیں
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب وائٹ ہاؤس میں دو ہفتوں سے بھی کم کے مہمان رہ گئے ہیں مگر سینیٹ میں ڈیموکریٹس کے رہنما نے بدھ کو کیپیٹل ہل پر ان کے حامیوں کے حملے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ ان کے صدارتی اختیارات فوری طور پر ختم کر دیے جائیں۔

سینیٹر چک شومر نے اپنے بیان میں کہا: ‘امریکی کیپیٹل پر جو کچھ گذشتہ روز ہوا وہ امریکہ کے خلاف بغاوت تھی جس کے شہ صدر نے دی تھی۔ اس صدر کو مزید ایک دن بھی عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ نائب صدر مائیک پینس کو 25 ویں آئینی ترمیم کا استعمال کرنا چاہیے جس کے تحت اختیارات عارضی یا مستقل طور پر صدر سے نائب صدر کو منتقل ہوجاتے ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘اگر نائب صدر اور کابینہ اقدام کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کانگریس کو دوبارہ اجلاس بلا کر صدر کا مواخذہ کرنا چاہیے۔’

ایوانِ نمائندگان کی عدلیہ کمیٹی کے ڈیموکریٹ ارکان نے بھی نائب صدر پینس کو خط لکھا ہے اور ان پر ڈونلڈ ٹرمپ کو دفتر سے ہٹانے کے لیے زور دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے لوگوں کو بغاوت پر اکسایا اور ان کا مقصد ‘جمہوریت کو کمزور کرنا’ تھا۔


یہ کام کیسے ہوگا؟

پچیسویں آئینی ترمیم کے تحت اگر مثال کے طور پر کسی جسمانی یا ذہنی بیماری کے باعث صدر اپنی ذمہ داریاں نہ نبھا پا رہے ہوں تو نائب صدر قائم مقام صدر بن سکتے ہیں۔

ترمیم کا جو حصہ زیرِ بحث ہے وہ اس کی شق چار ہے جس کے تحت نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت مل کر صدر ٹرمپ کے بارے میں اعلان کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہیں رہے۔

مائیک پینس، ڈونلڈ ٹرمپ

اگر صدر ٹرمپ کے اختیارات سلب کر لیے جاتے ہیں تو مائیک پینس قائم مقام صدر بن جائیں گے

انھیں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے سپیکرز کو ایک دستخط شدہ خط بھیجنا ہوگا جس میں صدر کو حکومت کے لیے نااہل یا پھر ‘اپنے عہدے کی ذمہ داریاں اور اختیارات کے استعمال’ سے معذور قرار دیا جائے گا۔ اس موقع پر نائب صدر مائیک پینس خود بخود اختیارات حاصل کر لیں گے۔

صدر کو ایک تحریری ردِعمل دینے کی پیشکش کی جاتی ہے اور اگر وہ اپنے خلاف اس الزام کو چیلنج کریں تو فیصلہ کرنے کی ذمہ داری کانگریس پر آ جاتی ہے۔

صدر کو ہٹانے کے لیے سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں ہونے والی کسی بھی ووٹنگ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوتا، تب تک نائب صدر ہی بطور صدر کام کریں گے۔

ٹرمپ، نینسی پیلوسی، امریکہ

نینسی پیلوسی نے صدر ٹرمپ میں کورونا کے مرض کی تشخیص کے بعد 25 ویں ترمیم کی بنیاد پر نیا قانون متعارف کروایا تھا

پچیسیویں ترمیم کے استعمال کے بارے میں بحث گذشتہ سال اکتوبر میں صدر ٹرمپ کو کورونا وائرس لاحق ہونے کے بعد بھی اٹھی تھی۔ اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ صدر شاید اتنے بیمار ہوں کہ ملک نہ چلا سکیں۔

اسے دوران ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے 25 ویں ترمیم کی بنا پر ایک قانون متعارف کروایا تھا جس کے تحت صدر کی اپنے عہدے لیے موزونیت پرکھنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا۔

کیا اسے پہلے بھی استعمال کیا جا چکا ہے؟

پچیسویں ترمیم کی منظوری 1967 میں صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے چار سال بعد دی گئی تھی۔ اس کا مقصد صدر کے ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہوجانے پر صدارتی جانشین کا تعین کرنا تھا۔

امریکہ

رپبلکن صدر رونلڈ ریگن نے 1985 میں کینسر سرجری کے دوران آٹھ گپنٹوں کے لیے اپنے اختیارات نائب صدر کو منتقل کر دیے تھے

پچیسیویں ترمیم کے استعمال کے بارے میں بحث گذشتہ سال اکتوبر میں صدر ٹرمپ کو کورونا وائرس لاحق ہونے کے بعد بھی اٹھی تھی۔ اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ صدر شاید اتنے بیمار ہوں کہ ملک نہ چلا سکیں۔

اسے دوران ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے 25 ویں ترمیم کی بنا پر ایک قانون متعارف کروایا تھا جس کے تحت صدر کی اپنے عہدے لیے موزونیت پرکھنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا۔

کیا اسے پہلے بھی استعمال کیا جا چکا ہے؟

پچیسویں ترمیم کی منظوری 1967 میں صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے چار سال بعد دی گئی تھی۔ اس کا مقصد صدر کے ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہوجانے پر صدارتی جانشین کا تعین کرنا تھا۔

اور اسی لیے کئی صدور نے اس ترمیم اور بالخصوص اس کی دفعہ نمبر تین کا استعمال کیا ہے جس کے تحت وہ اپنے نائب صدور کو عارضی طور پر اختیارات منتقل کر سکتے ہیں۔

سنہ 2002 اور 2007 میں صدر جارج بش اپنے نائب صدر کو اختیارات تفویض کر دیا کرتے جب انھیں اپنی بڑی آنت کے معمول کے معائنوں کے لیے بے ہوش کیا جاتا۔ صدر رونلڈ ریگن نے بھی 1985 میں یہی کیا تھا جب انھیں کینسر کی سرجری کے لیے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

مگر آج تک کسی صدر کو پچیسویں ترمیم کا استعمال کرتے ہوئے مستقل طور پر نہیں ہٹایا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ کو اور کس طریقے سے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے؟

صدر کا ایک بار پھر مواخذہ کرنے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔

ریاست منیسوٹا سے ڈیموکریٹ کانگریس رکن الہان عمر نے اعلان کیا کہ وہ صدر کے خلاف مواخذے کے لیے مواد اکٹھا کر رہی ہیں اور کئی ڈیموکریٹس نے اس حوالے سے حمایت کا اظہار کیا ہے۔


ڈونلڈ ٹرمپ کا دسمبر 2019 میں ایک بار پہلے بھی ڈیموکریٹ اکثریت والے ایوانِ نمائندگان کی جانب سے مواخذہ کیا جا چکا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات بڑھانے کے لیے یوکرین سے نامناسب طور پر مدد مانگی۔

ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور کانگریس کا راستہ روکنے کے لیے الزامات دو عائد کیے گئے تھے مگر رپبلکن اکثریتی سینیٹ نے انھیں بری کر دیا تھا۔

تاریخ میں وہ تیسرے امریکی صدر ہیں جن کا مواخذہ کیا گیا ہے۔

مواخذے کا مطلب کانگریس میں ایسے الزامات پیش کرنا ہے جن کی بنا پر صدر کا ٹرائل کیا جا سکے۔

امریکی آئین کے تحت صدر کو ‘غداری، رشوت خوری، یا دیگر بڑے جرائم یا غلط رویوں کی بنا پر مواخذہ مکمل ہونے پر دفتر سے ہٹایا جا سکتا ہے۔’

لیکن یہ کوئی فوجداری کارروائی نہیں بلکہ صرف ایک سیاسی کارروائی ہوتی ہے۔

اس کے دو مراحل ہوتے ہیں۔ الزامات ایوانِ نمائندگان میں پیش کیے جاتے ہیں اور اگر یہ وہاں سے منظور ہو جائیں تو انھیں ٹرائل کے لیے سینیٹ بھیجا جاتا ہے۔


مگر یہاں صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سنگِ میل امریکی تاریخ میں آج تک عبور نہیں کیا گیا ہے۔

اگر صدر ٹرمپ کو مواخذے کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے تو نائب صدر مائیک پینس صدر کے عہدے پر فائز ہوجائیں گے۔

کسی بھی صدر کو دورانِ صدارت دو مرتبہ مواخذے کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔

اس حوالے سے بھی سوالات موجود ہیں کہ چونکہ صدر ٹرمپ کے عہدے کی مدت 20 جنوری کو ختم ہو رہی ہے، تو کیا ان کے مواخذے کے لیے وقت کافی ہے بھی یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp