ہزارہ والو تم نڈر وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کر سکتے


اتوار کو مچھ میں ہزارہ کان کن مزدوروں کو گلے کاٹ کر بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ چھٹا دن ہے کہ مظاہرین ان کی میتیں سامنے رکھے بیٹھے ہیں اور اس وقت تک تدفین سے انکاری ہیں جب تک وزیراعظم پاکستان عمران احمد خان نیازی وہاں تشریف نہیں لے جاتے۔ وزیراعظم نے فوراً اپنے اہم ترین مشیر خاص زلفی بخاری کو بھیجا۔ زلفی بخاری مظاہرین سے ملے اور وزیراعظم کے آنے کے مطالبے پر نہایت دلگیر انداز میں ان سے پوچھا کہ وہ وزیراعظم کو کیا فائدہ دیں گے جب وہ آئیں گے۔

یہ ایک کلیدی سوال ہے۔ ہزارہ والے کمزور سی اقلیت ہیں، وہ بھلا کسی کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں کہ دنیا کی چھٹی بڑی ایٹمی قوت کا وزیراعظم ان سے ملنے کا سوچے؟ وزیراعظم ایک مصروف شخص ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہزارہ والوں کے متعلق تین چار ٹویٹس کر دی ہیں، وہ مزید کیا چاہتے ہیں؟

خیر وزیراعظم ایک دریا دل اور سیر چشم شخص ہیں۔ آج 8 جنوری کو تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے مارچ میں ہی اپنی کابینہ کو بتا دیا تھا کہ ہندوستان گڑبڑ کر رہا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ گورنمنٹ پوری طرح ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ کھڑی ہے، کل تک سب ڈیمانڈز مان چکے ہیں۔

ہم نے ڈیمانڈز پر نظر ڈالی ہے۔ پہلی یہ ہے کہ آئی جی کو برطرف کیا جائے۔ دوسری ڈیمانڈ ونگ کمانڈر ایف سی، ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر کو برطرف کر کے شامل تفتیش کرنے کی ہے۔ تمام دہشت گردوں کو گرفتار کر کے سزا دینے کی ڈیمانڈ ہے۔ گرفتار شدہ دہشت گردوں کو پھانسی دینے کی ہے۔ ورثا کو پیسے اور ملازمت دینے کی ڈیمانڈ ہے۔ تمام لاپتہ شیعہ افراد کو بازیاب کر کے ان میں سے مجرمان کو عدالت میں پیش کرنے کی ڈیمانڈ ہے۔ مسافروں اور کان کنوں کو تحفظ دینے کی ڈیمانڈ ہے۔ ہزارہ قوم کے شناختی کارڈ کو انبلاک کرنے اور پاسپورٹ بنانے میں دشواریاں ختم کرنے کی ڈیمانڈ ہے۔

وزیراعظم درست فرماتے ہیں کہ اگر وہ یہ سب ڈیمانڈز مان چکے ہیں تو مزید احتجاج کرنے کی کیا تک ہے؟ وزیراعظم نے بلیک میل ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ”ایک یہ ڈیمانڈ ہے کہ جب پرائم منسٹر آئے تو پھر ہم لاشوں کو دفنائیں گے۔ میں نے ان کو میسیج پہنچائی ہے کہ دیکھیں، جب سب ڈیمانڈز بھی آپ کی مان لی ہیں، تو یہ ڈیمانڈ کرنا کہ ہم دفنائیں گے نہیں جب تک پرائم منسٹر آئے نہ، یہ کسی بھی ملک کے پرائم منسٹر کو اس طرح بلیک میل نہیں کرتے۔ کیونکہ ایک ملک کا جو پرائم منسٹر ہوتا ہے ہر کوئی بلیک میل کرے گا۔ ۔ ۔ اگر آج آپ ان کو دفناتے ہیں میں آج کوئٹہ جاتا ہوں اور لواحقین کو ملتا ہوں۔“

زلفی بخاری نے بھی یہی کہا تھا کہ کل کوئی اور شہید ہو گا تو وہ کہیں گے کہ ہم ایسے چاہتے ہیں ویسے چاہتے ہیں۔

اب اگر لوگ محض وزیراعظم کو بلیک میل کرنے کی خاطر اپنے اعزا و اقارب کے قتل ہونے کے بعد احتجاج پر اتر آئیں تو ملک کیسے چلے گا؟ وزیراعظم کے پاس کرنے کو بہت کام ہوتے ہیں۔ سارا ملک اس کے سر پر ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایک منٹ کا بھِی فالتو وقت نہیں ہوتا۔ ابھی یہی دیکھ لیں کہ سات جنوری کو وزیراعظم نے قوم کی درست سمت متعین کرنے کے لیے ترکی سے آنے والی ارطغرل ڈرامہ ٹیم سے اپنی کابینہ کے کئی اراکین سمیت ملاقات کی۔ اب آپ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کسی قوم کے لیے ڈرامہ زیادہ اہم ہے یا پھر چند کمزور قسم کے مقتولین کے لواحقین کو پرسا دینا اور انہیں تحفظ کی یقین دہانی کروانا؟

ویسے بھی ہزارہ والوں نے تو عادت بنا لی ہے۔ وزیراعظم کی توجہ حاصل کرنے کے لیے درجنوں بلکہ سینکڑوں لوگوں کو قتل اور زخمی کروا لیتے ہیں۔ پھر وزیراعظم کو بلیک میل کرنے لگتے ہیں کہ انصاف اور تحفظ دو۔ کوئی کمزور وزیراعظم ہو تو ان کا مطالبہ مان بھی لیتا ہے۔ جیسا کہ جنوری 2013 میں کوئٹہ میں ایک بڑے بم دھماکے میں 96 پاکستانی شہید ہوئے تھے اور پونے دو سو زخمی تو ہزارہ قوم نے ایسے ہی میتیں رکھ کر دھرنا دے دیا اور وزیراعظم کو بلیک میل کرنے لگے کہ ان کے آنے کے بعد ہی تدفین ہو گی۔ بدقسمتی سے اس وقت پیپلز پارٹی کا ایک کمزور کارکن راجہ پرویز اشرف وزیراعظم تھا۔ وہ بلیک میل ہو گیا۔ وہ ہزارہ قوم سے جا کر ملا اور ان کے بعض ایسے مطالبات پورے کیے جو ایک کمزور وزیراعظم کر سکتا ہے۔ بس اسی وقت سے کجی کی بنیاد رکھی گئی۔ ہزارہ قوم سمجھنے لگی کہ اس کے لوگوں کو دہشت گرد ماریں گے تو وزیراعظم نہ صرف ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کا غم بٹائے گا بلکہ ان کا حوصلہ بندھائے گا۔

اب بھی دیکھ لیں کہ وزیراعظم عمران احمد خان نیازی ڈٹ کر بلیک میل ہونے سے انکاری تھے، انہیں کوئٹہ جانے میں سیکیورٹی خدشات بھی تھے، لیکن بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف سات جنوری کو وہاں لواحقین کے پاس پہنچ گئے۔ جو افراد اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی یوں بلیک میل ہو جائیں وہ وزیراعظم بن کر راجہ پرویز اشرف کی طرح ہی کریں گے۔ ان کے اس اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیراعظم کو آج اپنے نہایت مصروف شیڈول سے وقت نکال کر سپیشل ٹیکنالوجی زون کے قیام کی ایک نہایت اہم تقریر کے دوران مجبور ہو کر چند منٹ کے لیے ہزارہ مقتولین کا ذکر کرنا پڑا اور انہیں خبردار کرنا پڑا کہ وہ بلیک میلنگ سے باز آ جائیں۔

ویسے بھی یہ طاقتوروں کی نہیں بلکہ کمزوروں کی ریت ہے کہ وہ کسی متوفی یا مقتول کے گھر جا کر پرسا دیں۔ جناب عمران احمد خان نیازی سب کچھ ہو سکتے ہیں لیکن وہ کمزور نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے تو 19 جنوری 2019 کے دن ہونے والے سانحہ ساہیوال کے بچوں اور لواحقین سے بھی ان کے گھر جا کر افسوس نہیں کیا تھا، انہیں تقریباً تین ماہ بعد اپنے پاس بلا کر بتایا تھا کہ انہیں کتنا افسوس ہوا ہے اور وہ انصاف کریں گے۔

قوم یاد رکھے کہ تحریک انصاف کے وزیراعظم بلیک میل نہیں ہوتے۔ وہ بلیک میل ہونے لگیں تو روزانہ قتل ہونے والے بے شمار افراد کے لواحقین ان سے یکسر ناجائز مطالبات کرنے لگیں گے، مثلاً انصاف کے حصول اور جان و مال کے تحفظ کا۔ ویسے بھی بعض معاملات میں وزیراعظم صرف ٹویٹ ہی کر سکتا ہے باقی کچھ نہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar