کووڈ کی ویکسین: آخر کوئی تو بخشیش دے گا


اس وقت پوری دنیا میں کووڈ کی وبا کی دوسری لہر کی تباہی پھیل رہی ہے۔ 2020 کا سال اس بیماری کا سال تھا اور یہ سال اس بیماری کی ویکسین کا سال ہے۔ ایک سال سے مختلف ادارے اور کمپنیاں مختلف طریقوں سے کووڈ سے بچاؤ کے لئے ویکسین تیار کر رہے تھے۔ مختلف مراحل سے گزر کر یہ حفاظتی ٹیکے اب لوگوں کو لگائے جا رہے ہیں۔
سائنسدانوں نے مختلف طریقے استعمال کر کے اس بیماری کی ویکسین تیار کی ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کو کن مختلف طریقوں سے تیار کیا جا رہا ہے۔ ویکسین کو تیار کرنے کا پرانا اور آزمودہ طریقہ تو یہ ہے کہ وائرس کو اتنا کمزور اور نیم جان کر دیا جائے کہ وہ بیماری کا باعث تو نہ بن سکے لیکن جب اس وائرس کو ویکسین کی صورت میں جسم میں داخل کیا جائے تو وہ جسم میں اس بیماری سے بچنے کی قوت مدافعت پیدا کر دے یعنی اس وائرس کے خلاف اینٹی بوڈی پیدا ہو جائے۔ خسرہ اور پولیو کی قطروں والی ویکسین اسی طریق پر تیار کی جاتی ہے۔

ایک اور پرانا طریقہ یہ ہے کہ کسی کیمیاوی مادے یا تابکاری سے یا درجہ حرارت بڑھا کر وائرس کو موت کی گھاٹ اتار دیا جائے اور پھر اس وائرس کو جسم میں داخل کیا جائے۔ یہ وائرس بیماری کا باعث تو نہیں بنے گا لیکن جسم میں اس بیماری سے بچنے کے لئے قوت اور صلاحیت پیدا کر دے گا۔ انفلوئنزا کی ویکسین اس طریقے سے تیار کی جاتی ہے۔

چین میں سائنو ویک اور سائنو فارم نے کووڈ سے بچاؤ کی جو ویکسین تیار کی ہے وہ اسی پرانے طریقے کو استعمال کر کے تیار کی ہے۔ اس ویکسین کا فائدہ یہ ہے کہ اسے محفوظ رکھنے اور مختلف جگہوں میں بھجوانے کے لئے صرف 2 سے 8 سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ جس وجہ سے اسے آسانی سے مختلف جگہوں پر بھجواہا جا سکتا ہے۔ اسے آزمائشی طور پر پاکستان میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔ جولائی 2020 سے اسے چین میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، بحرین، چلی اور برازیل بھی اسے حاصل کر رہے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان دنوں میں جب کہ ہم پاکستانی عقائد کی بنا پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے اور ایک دوسرے عبادت گاہوں کو جلا نے کا اہم فریضہ سر انجام دے رہے تھے بھارت نے اس طریق پر کووڈ کی ویکسین تیار کر لی ہے۔ اسے بھارت باؤ ٹیک نے تیار کیا ہے اور 3 جنوری کو بھارت میں استعمال کے لئے اسے منظور کر لیا گیا ہے۔

روایتی طریقے کے علاوہ کووڈ کی ویکسین کی تیاری کے لئے ایک نئی تیکنیک استعمال کی جا رہی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کووڈ کے وائرس کی جین کا حصہ یعنی RNA انسان کے جسم میں حفاظتی ٹیکے کی صورت میں داخل کیا جائے۔ یہ RNA انسان کے جسم کے خلیوں میں داخل ہو گا اور ان خلیوں کو حکم دے گا کہ وہ ویسی پروٹین تیار کرنا شروع کر دیں جو کہ کووڈ کے وائرس کی سطح پر پائی جاتی ہے۔ انسان کا جسم اس پروٹین کے خلاف اینٹی بوڈی یا دوسرے لفظوں میں قوت مدافعت پیدا کرے گا۔ جس کا نتیجہ ہو گا کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ ویکسین لگائی ہو گی اس بیماری سے محفوظ رہیں گے۔

پفائزر اور موڈرنا نے اس طریقے کو استعمال کر کے ویکسین تیار کی ہے۔ اور اسے مختلف ممالک میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ویکسین کا فائدہ یہ ہے کہ اس ذریعہ کو استعمال کر کے کم وقت میں ویکسین کی زیادہ مقدار بنائی جا سکتی ہے۔ اور نقصان یہ ہے کہ اس کو محفوظ رکھنے اور مختلف جگہوں پر بھجوانے کے لئے بہت کم درجہ حرارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ پفائزر کی ویکسین کو رکھنے کے لئے منفی 70 اور موڈرنا کی ویکسین کو رکھنے کے لئے منفی 20 سنٹی گریڈ کا درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ یہ پہلو زائد انتظامات اور اخراجات کا تقاضا کرتا ہے۔

اس قسم کی ویکسین اب تک وسیع پیمانے پر انسانوں پر استعمال نہیں کی گئی البتہ جانوروں پر اس طریق پر تیار کی گئی ویکسین استعمال ہوتی رہی ہے۔ 31 دسمبر کو عالمی ادارہ صحت نے ایمرجنسی بنیادوں پر پفائزر کی ویکسین کے استعمال کی منظوری دی تھی۔ اور 4 جنوری کو اسرائیل اور 6 جنوری کو یورپین یونین نے موڈرنا کی ویکسین کی منظوری بھی دے دی۔

اس سے ملتی جلتی ویکسین پر بھارت میں بھی کام ہو رہا ہے۔ بھارت کی کمپنی Zydus Cadilla نے ایک ویکسین تیار کرنی شروع کی ہے۔ اور اس کے تجربات تیسرے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اور تیس ہزار رضاکاروں پر اس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کمپنی کو امید ہے اس سال مارچ تک یہ ویکسین تیار ہو جائے گی۔

تیسرا طریقہ جو کہ اس ویکسین کی تیاری کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، اس میں بھی انسانی جسم کے خلیے وہ پروٹین تیار کرتے ہیں جو کہ کووڈ کے وائرس کی سطح پر پائی جاتی ہے۔ لیکن اس کی تیاری کے لئے ایک مختلف طریقہ استعمال کیا جا تا ہے۔ کووڈ کی ویکسین کی جین ایک اور نسبتاً کم خطرناک وائرس میں داخل کر دی جاتی ہے اور یہ وائرس ویکسین کی صورت میں انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ کووڈ کی ویکسین میں اس غرض کے لئے ایڈینو وائرس استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ وائرس ایک پیامبر بن کر انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور انسانی جسم کے خلیوں کو ہائی جیک کرتا ہے اور انسانی جسم کے خلیے وہ پروٹین تیار کرتے ہیں جو کہ کووڈ کے وائرس کی سطح پر پائی جاتی ہے۔ انسان کے جسم کا دفاعی نظام اس کے خلاف جوش میں آتا ہے اور اس طرح جسم میں اپنے آپ کو کووڈ سے بچانے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔

آکسفورڈ اور روس میں تیار ہونے والی سپیوٹنک 5 ویکسین میں یہی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسے عام فرج میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور اس کی قیمت پفائزر اور موڈرنا کی ویکسین سے نصف یا اس سے بھی کم ہے۔ لیکن ان کی نسبت اس ویکسین کی تیاری کی رفتار کم ہوتی ہے۔ اب مختلف ممالک میں آکسفورڈ کی ویکسین کے استعمال کی منظوری دی جا رہی ہے۔ 30 دسمبر کو برطانیہ نے اس کے استعمال کی منظوری دی اور 3 جنوری کو بھارت اور ارجنٹائن نے اور 4 جنوری کو میکسیکو نے بھی اسے منظور کر لیا۔

ویکسین کی تیاری اور اس کی آزمائش چند روز کا کام نہیں ہے۔ اس کے لئے انتھک سائنسی جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔ کووڈ کی وبا نے عالمی سطح پر جو تباہی مچائی ہے اس کے پیش نظر کووڈ کی ویکسین پر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی کووڈ کی 20 ویکسین ایسی ہیں جو تیاری کے آخری مراحل میں ہیں۔ مزید 64 ویکسین ایسی ہیں جنہیں تجرباتی طور پر انسانوں پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب کہ دنیا میں یہ دوڑ لگی ہوئی ہے ہم سب سے الگ تھلگ ایک طرف کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اور ایہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کچھ ویکسین ہم خرید لیں گے اور آخر کوئی نہ کوئی ہمیں بخشیش میں یہ ویکسین بھی دے دے گا۔ اور یہ ویکسین لگا کر ہم یہ سوچتے رہیں گے کہ ہمارے خلاف عالمی طور پر کیا سازشیں ہوئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).