کیپٹل ہل پر ہنگامہ آرائی: وزیرِ تعلیم، وزیرِ ٹرانسپورٹ سمیت متعدد حکام مستعفی


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر بدھ کو کی جانے والی چڑھائی کے بعد کابینہ کے وزرا اور دیگر حکام کے استعفوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

ٹرمپ کابینہ میں شامل وزیرِ ٹرانسپورٹ ایلن چاؤ نے جمعرات کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ ایلن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی بیان بازی کے بعد بدھ کو ہونے والی ہنگامہ آرائی پر وہ شدید پریشان ہیں۔

ایلن کے بقول صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں کی جس ریلی سے خطاب کیا۔ اس نے شرکا نے کانگریس کی عمارت مین ہنگامہ آرائی کی اور ہمارے ملک کو ایک تکلیف دہ اور ناقابلِ قبول صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔

ایلن کا مزید کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ان کی طرح بہت سے لوگوں کو یہ صورتِ حال دیکھ کر تکلیف ہوئی ہے۔ اس لیے وہ اس معاملے پر ایک طرف جھکاؤ نہیں رکھ سکتیں۔

یاد رہے کہ ایلن چاؤ سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے اکثریتی رہنما مچ مکونل کی اہلیہ ہیں جو صدر ٹرمپ کے سیاسی اتحادی ہیں۔

ایلن چاؤ
ایلن چاؤ

جمعرات کی شب وزیرِ تعلیم بیٹسی ڈیووس نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ کابینہ کی دوسری وزیر ہیں جنہوں نے کیپٹل ہل میں ہونے والی ہنگامہ آرائی پر استعفیٰ دیا۔

بیٹسی نے صدر ٹرمپ پر کشیدگی کو بڑھاوا دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بیان میں صدر ٹرمپ کا نام لیے بغیر کہا کہ “اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کی بیان بازی صورتِ حال پر اثر انداز ہوئی اور یہ میرے لیے فیصلہ کن موڑ ہے۔”

دونوں وزرا کے استعفوں سے قبل وائٹ ہاؤس کے سابق چیف آف اسٹاف مک ملوانی نے کہا تھا کہ وہ شمالی آئرلینڈ کے خصوصی نمائندے کا عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ جبکہ، اطلاعات کے مطابق، دیگر حکام نے بھی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے پر غور شروع کر دیا ہے۔

ملوانی کے بقول انہوں نے اپنے استعفے سے متعلق بدھ کی شب ہی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کو آگاہ کر دیا تھا۔

نشریاتی ادارے ‘سی این بی سی’ سے گفتگو میں ملوانی کا کہنا تھا کہ “میں اپنے عہدے پر مزید نہیں رہ سکتا۔ تاہم وہ افراد جنہوں نے اپنے عہدے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ کہیں صدر بدترین افراد کو عہدوں پر تعینات نہ کر دیں۔”

ملوانی کے اعلان کے بعد محکمۂ خزانہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری فار انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی جان کوسٹیلو نے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ ہنگامہ آرائی نے اُنہیں اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔

کوسٹیلو نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بدھ کو ہونے والے واقعات ہماری جمہوریت پر غیر معمولی حملہ ہیں جس کی وجہ موجودہ صدر ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صدر طویل عرصے سے قانون کی حکمرانی اور آئین کو نظر انداز کر رہے ہیں جس کا نتیجہ کانگریس میں ہنگامہ آرائی کی صورت میں نکلا اور اس کا مقصد جائز اور تسلیم شدہ انتخابات کو تبدیل کرنا تھا۔

صدر ٹرمپ کی چین سے متعلق پالیسی کے مرکزی رہنما میٹ پوٹنگر نے بھی بدھ کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

سینئر حکام کے مطابق پوٹنگر نے ہجوم کی ہنگامہ آرائی کے بعد صدر ٹرمپ کے ردِ عمل پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے پوٹنگر کو انتقالِ اقتدار تک اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے کا کہا۔ تاہم حکام کے مطابق پوٹنگر کا کہنا ہے کہ وہ اپنا کام مکمل کر چکے ہیں۔

خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ کی چیف آف اسٹاف اسٹیفنی گریشم پہلی سرکاری افسر تھیں جنہوں نے بدھ کو عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے حکام کے مطابق اسٹیفنی کے بعد ڈپٹی پریس سیکریٹری سارہ میتھیو اور وائٹ ہاؤس کی سوشل سیکریٹری رکی نائسٹا نے استعفیٰ دیا۔

بڑی تعداد میں حکام کی جانب سے استعفے دینے اور صدر ٹرمپ کے قریبی اتحادیوں کی تنقید کے بعد ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں مزید استعفے متوقع ہیں۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے استعفوں پر فوری طور پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے بدھ کو اپنے حامیوں سے خطاب کے دوران انہیں کیپٹل ہل کی جانب بڑھنے کی ترغیب دی تھی اور اس بات پر زور دیا تھا کہ صدارتی انتخاب چوری کر لیا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ کا حامیوں کو کہنا تھا کہ اگر آپ کمزور ہوں گے تو اپنا ملک واپس نہیں لے سکتے۔ اس لیے آپ کو مضبوط ہو کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

جمعرات کی شب صدر ٹرمپ نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں انہوں نے اپنے حامیوں کے اقدام کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی دارالحکومت پر گھناؤنے حملے، ہنگامہ آرائی، لاقانونیت اور تباہی پر وہ شدید مایوس ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی کے میٹروپولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق بدھ کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa