لیکوریا کوئی بیماری نہیں!


ٹوکن نمبر تین کا نشان روشن ہوتے ہی وہ دونوں ہمارے کمرے میں داخل ہوئیں۔ ادھیڑ عمر خاتون کے ہمراہ دبلی پتلی بچی، چودہ پندرہ برس کا سن، سہما ہوا چہرہ اور اڑی اڑی رنگت!
بچی بہت گھبرائی ہوئی نظر آتی تھی سو اسے اپنے سامنے والی کرسی پہ بٹھا کے ہم نے بہت پیار سے پوچھا،
” بیٹا بتائیے کیا تکلیف ہے؟“

اس نے جواب دینے کی بجائے گڑبڑا کے ماں کی طرف ملتجیانہ نظر سے دیکھا، سو جواب ماں کی طرف سے آیا،
” ڈاکٹر صاحب، اس کی کمر میں بہت درد رہتا ہے، بھوک نہیں لگتی، معمولی کام سے تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔ وہ ساتھ میں۔ وہ اصل میں لیکوریا بھی بہت ہے، تو لیکوریا کے لئے آپ کے پاس لائی ہوں“

”اف یہ منحوس لفظ۔ لیکوریا۔“

ہم زیر لب بڑبڑائے اور بچپن میں اماں اور آپا کے پسندیدہ وہ تمام خواتین کے رسالے یاد آ گئے جہاں یہ لفظ بار بار دیکھنے کو ملتا۔ ”مسائل آپ کے، حل ہمارا“ میں ایک سمجھ دار آپا بیگم یا باجی خواتین کے مسائل کا جواب لکھتیں۔ ہم چونکہ ہر لکھا ہوا صفحہ چاٹنے کے شوقین تھے سو جب پڑھنے کو کچھ نہ ملتا تو انہی صفحات پہ اتر آتے۔ تقریباً ہر دوسری خاتون کا مسئلہ کچھ اسی قسم کا ہوتا کہ کمر میں درد، کمزوری اور لیکوریا بہت ہے، بہت علاج کروایا مگر افاقہ نہیں۔ خدارا مدد کیجیے کہ صحت گرتی جا رہی ہے۔

باقی کی بات تو ہمیں سمجھ میں آ جاتی مگر یہ لیکوریا کیا بلا ہے؟ پلے نہ پڑتا۔ اماں سے پوچھتے تو جواب ملتا، کیوں مجھے سر درد میں مبتلا کر رہی ہو، تمہارے سمجھنے کی بات نہیں ابھی۔ آخر میں ہمیں مطمئن کرنے کی سردردی آپا کے حصے میں ہی آتی۔ وہ کچھ ڈھکے چھپے محتاط سے انداز میں اس پہ کچھ اس طرح سے روشنی ڈالتیں جو قطعی طور پر ہمارے پلے نہ پڑتا۔ آخر میں ہم نے اپنے دماغ میں خود ہی ایک تصویر بنا لی کہ یہ کوئی انتہائی پوشیدہ، شرمناک اور کھلے عام نہ بتانے والی بیماری ہے، جس کا علاج ان حکیموں کے پاس ہوتا ہے جن کے اشتہار شہر بھر کی فالتو دیواروں پہ ان پوشیدہ، گمبھیر اور قابل شرم بیماریوں پہ روشنی ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ بیماریاں برس ہا برس عورتوں کو لاحق رہتی ہیں اور ان کی صحت اسی میں گھل گھل کے ختم ہوتی رہتی ہے۔ حکیمی نسخے، ہومیو پیتھک، جڑی بوٹیاں، گھریلو ٹوٹکے اور سینہ بہ سینہ چلتی ہدایات سب کچھ چلتا رہتا ہے مگر یہ موذی لیکوریا جان ہی نہیں چھوڑتا۔

کچھ بڑے ہوئے تو اکثر ہم جماعتوں کو آپس میں کھسر پھسر کرتے ہوئے وجہ پوچھتے تو پھر وہی لفظ سننے کو ملتا، لیکوریا!

اب تک کچھ نہ کچھ سمجھ آ چکی تھی کہ یہ ہے کیا؟ لیکن ساتھ میں یہ فکر اور گھبراہٹ بھی طاری تھی کہ نہ جانے کس وقت ہم اس کا شکار ہو جائیں گے؟ دل ہی دل میں دعائیں کرتے کہ باری تعالیٰ ہمیں بچا کے رکھیو، کمر میں درد اور نقاہت نے آ لیا تو ہمارے بے شمار شوق پورے ہونے کی طاقت کہاں سے آئے گی؟

میڈیکل میں پہنچے تو لیکوریا کا جن قابو میں آ گیا۔ یوں سمجھیے کہ ہم نے اس جن کو پکڑ کے بوتل میں بند کرتے ہوئے سوچا، ہت تیرے کی، کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا، وہ بھی مرا ہوا!

گائناکالوجسٹ بنے تو جس لفظ نے ہمیں ہر طرف سے گھیرا اور زچ کیا، وہ یہی لیکوریا تھا۔ کلینک یا ہسپتال تو ایک طرف رکھیے، شادی کی محفل ہوتی یا میلاد کی، سالگرہ ہوتی یا سوئم کا ختم، کوئی نہ کوئی خاتون ہم سے ضرور کہتی کہ وہ ایک مشورہ کرنا ہے تم سے! جی فرمائیے کہتے ہوئے ہم دل ہی دل میں کہتے، آ گیا موذی لیکوریا! اور ہمارا دل کبھی غلط نہ ہوتا۔

بچی سے کچھ سوال کرنے کے بعد ہم نے نسخہ لکھنے سے پہلے سوچا کہ بچی کو آسان الفاظ میں بتایا جائے کہ لیکوریا ہے کیا؟

”بیٹا، اگر تمہیں کبھی رونا آ جائے تو آنکھ سے کیا نکلتا ہے؟“
”جی آنسو“ بچی نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
”اور اگر تمہاری امی تمہاری پسند کا کھانا بنائیں تو منہ میں کیا بھر آتا ہے؟“
”جی پانی“

”بالکل ٹھیک، پانی یعنی لعاب دہن“
”اگر تمہارے کان میں کچھ میل زیادہ ہو جائے تو اسے کیا کہتے ہیں؟“
”جی ویکس“

”کیا کبھی تمہاری ناک بہتی ہے؟“
”جی، کبھی کبھی جب چھینکیں آ جائیں تب“

”بس بیٹا پھر سمجھ لو کہ ہمارے جسم میں بہت سے راستے ایسے ہیں جو اندرونی جسمانی اعضا سے ہوتے ہوئے باہر کی طرف کھلتے ہیں۔ ان راستوں پہ ہر جگہ ایک محافظ بٹھایا گیا ہے جو ہر طرح کے جراثیموں یعنی بیکٹیریا اور وائرس کو جسم کے اندر داخل ہونے سے روکتا ہے۔

آنکھ سے نکلنے والے آنسو، ناک میں موجود بال اور بہتا پانی، کان کے اندر موجود ویکس، منہ میں لعاب دہن اور ٹانسلز اور اندام نہانی ( vagina) سے نکلنے والی رطوبتیں یا عرف عام میں لیکوریا! یہ وہ دفاعی نظام ہیں جو جسم کے اندر جانے والے تمام راستوں پہ ناکہ لگا کے بیٹھتے ہیں اور ہر نقصان پہنچانے والی چیز کو روکتے ہیں۔

کبھی کبھار جب جراثیم طاقتور ہوتے ہیں تو دفاعی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور نتیجتاً انفیکشن ہو جاتی ہے۔ جیسے آنکھ کا صاف پانی گندی رطوبت میں بدل کے آشوب چشم کر دے۔ ناک سے بہنے والا پانی نزلے کی گاڑھی رطوبت میں بدل جائے اور کان کی ویکس پیپ بن جائے۔ بالکل اسی طرح اندام نہانی کی نارمل رطوبات گاڑھی اور بدبو دار ہو جائیں تو اس کا ویسے ہی علاج کیا جاتا ہے جیسے کسی بھی اور انفیکشن کا ۔

اندام نہانی سے خارج ہونے والی نارمل رطوبات یا لیکوریا قطعی کوئی بیماری نہیں اور اس کا کمر درد، کمزوری، چڑچڑے پن اور غذا کی کمی سے کوئی تعلق نہیں ”
بچی کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھر چکی تھی۔ اس نے ہم سے نسخہ لیا اور اعتماد بھری چال کے ساتھ رخصت ہو گئی۔

اب بات چل ہی نکلی ہے تو کچھ اور وضاحت بھی کیے دیتے ہیں تاکہ لیکوریا نامی عفریت سے جان تو چھوٹے۔

بچی یا بچہ جونہی عمر شباب کو چھوتا ہے، جسم ہارمونز کے طوفان بلاخیز میں آتش فشاں بن جاتا ہے۔ ان ہارمونز کے نتیجے میں انسانی جسم بڑھوتری کے ان آخری مراحل کو طے کرتا ہے جن کا آغاز شکم مادر میں ہوا تھا۔

بچی کا شباب ماہانہ ایام سے جبکہ بچے کا شباب تولیدی اعضا کے بڑھنے اور رطوبت خارج کرنے شروع ہوتا ہے۔ اندام نہانی کا چونکہ باہر کی دنیا سے براہ راست تعلق ہوتا ہے سو اس کو جراثیم کی یلغار سے بچانے کے لئے ایسے حفاظتی سیلز عطا کیے گئے ہیں جو ہر وقت رطوبت بناتے رہتے ہیں اور یہ رطوبتیں بیکٹیریا اور وائرس کو اندام نہانی میں پنپنے نہیں دیتیں۔

نارمل رطوبت یا نارمل لیکوریا کو اس کے خواص سے پہچانا جاتا ہے۔ جس رطوبت میں کوئی رنگ، کوئی بدبو اور ساتھ میں اندام نہانی میں کوئی کھجلی نہ ہو۔ عام حالات میں یہ رطوبات زیادہ مقدار میں نہیں ہوتیں مگر کبھی کبھی ماہانہ ایام سے پہلے، جذباتی ہیجان یا کسی بھی پریشانی کے عالم میں ان کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں بھی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ایسی رطوبتیں یا لیکوریا جن کا علاج درکار ہو، تب پیدا ہوتی ہیں جب اندام نہانی میں انفیکشن ہو جائے بالکل ویسے ہی جیسے گلا خراب ہو جائے، زکام ہو جائے یا آشوب چشم لاحق ہو۔

اگر رطوبات دہی کی مانند گاڑھی اور پھٹکیوں جیسی ہو جائیں تو سمجھ جائیے کہ فنگس نے آن گھیرا ہے۔ ویسا ہی فنگس جو کبھی کبھی منہ میں بھی ہو جاتا ہے۔

اگر رطوبات پیلی یا سبز یا دودھیا ہو جائیں، کھجلی اور زیر جامے سے مچھلیوں کی سڑاند سی بو آئے تو جان جائیے کہ مختلف قسم کے بیکٹریا نے آن گھیرا ہے اور کسی قابل ڈاکٹر کے نسخے کی ضرورت ہے۔ ( دائی نما ڈاکٹر نہیں جو دو انگلیاں اندام نہانی میں ڈال کے اپنی جہالت پہ پردہ ڈالتی ہوں ) ۔

اندام نہانی کی انفیکشن کی ایک بڑی وجہ حفظان صحت کے بنیادی اصولوں سے لاعلمی اور ذاتی طہارت کی کمی ہے جس سے خواتین بار بار اس انفیکشن کا شکار ہو کر سمجھتی ہیں کہ وہ کسی لیکوریا نامی لاعلاج موذی مرض کا شکار ہیں۔

ہم آپ کو ان بنیادی اصولوں سے آگاہ کیے دیتے ہیں۔

حوائج ضروری سے فراغت کے بعد پانی سے اچھی طرح متعلقہ عضو کو دھویا جائے۔ خیال رہے کہ براز ( stool) میں بہت زیادہ بیکٹیریا پائے جاتے ہیں سو مقعد (Anus) کو دھوتے ہوئے وہی ہاتھ اندام نہانی کو نہ لگایا جائے۔

ایام مخصوصہ میں پانی سے اپنے اعضا کو دھونا قطعی منع نہیں بلکہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ ایام میں خارج ہونے والا خون بیکٹریا کی نشوونما انتہائی سرعت سے کرتا ہے۔ لیکن مشہور یہ ہے کہ ایام میں پانی سے اپنے اعضا دھونے سے ایام انتہائی تکلیف دہ ہو جاتے ہیں۔ ( بچپن میں ہمیں یہ اطلاع ایک سہیلی نے دی جن کی اماں انہیں سات دن پانی سے دور رکھتی تھیں اور ہم نے انتہائی تکلیف دہ ایام کے باوجود اس ہدایت پہ عمل نہیں کیا تھا کہ عقل نہیں مانتی تھی) ۔

اکثر خواتین سمجھتی ہیں کہ ایام میں پانی استعمال سے جسم میں ہوا داخل ہو جائے گی اور پیٹ بڑا ہو جائے گا، یہ خیال بھی قطعی غلط ہے۔ ( کبھی کبھی ہم اپنے مریضوں کو کہا کرتے ہیں کہ دیکھیے ہم شروع سے ایام میں غسل کرنے کے عادی ہیں، کیا ہمارا جسم ہوا سے پھولا ہوا نظر آیا؟ )

زچگی سے فارغ ہو کے بھی پانی سے دھونے اور نہانے دھونے پہ قطعی ممانعت نہیں۔ تمام جدید ہسپتالوں میں زچہ کو ڈلیوری کے فوراً بعد غسل کروایا جاتا ہے ۔

ایام میں گھریلو کپڑے کا استعمال اگر کرنا ہو تو خیال رہے کہ کپڑا اچھی طرح دھو کے خشک کیا جا چکا ہو۔ اگر پیڈز نہ خریدے جا سکتے ہوں تو روئی کا پیڈ بھی بنایا جا سکتا ہے۔

بعض خواتین جنابت کے بعد اندام نہانی کو اندر سے پانی اور صابن کی مدد سے دھونا چاہتی ہیں۔ ایسا کرنے سے اندام نہانی کے دفاعی سیلز تباہ ہو جاتے ہیں اور انفیکشن پھر سے ہو جاتی ہے سو اندر انگلی ڈال کے صابن یا کسی بھی کیمیکل سے دھونا انتہائی غلط ہے۔

تنگ زیر جامہ ہر وقت پہنے رہنے سے بھی انفیکشن بار بار ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔

آخر میں کہتے چلیں کہ یہ اور ایسی بے شمار myths سے نبٹنے کا علاج صرف اور صرف آگہی ہے۔ ایسی آگہی جس کی جڑیں علم حاصل کرنے سے ہو اور اس علم کا دروازہ آج کے دور میں انٹر نیٹ نے ہر کسی پہ وا کر دیا ہے۔ سو اپنے آپ کو علم و آگہی کے ہتھیاروں سے لیس کیجیے۔ یقین جانیے زندگی کا مفہوم بدل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).