میرا روبوٹ میری مرضی


ہم سب کو یاد ہے کہ 2020 میں دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی۔ بہت لوگوں کی جانیں لے گئی۔  سائنس دانوں نے غور کیا کہ ہماری دنیا بار بار لاک ڈاؤن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ روبوٹس کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے۔

اگر ایسا وقت دوبارہ آئے کہ لوگوں کو محاصرے میں جانا پڑے اور انسان کو انسان سے پرہیز کرنا پڑے تو ایسی صورت میں روبوٹس کام کرتے رہیں گے اور دنیا کا کاروبار چلتا رہے گا۔ ہماری کہانی اسی زمانے کی ہے جب دنیا میں روبوٹس موبائل فون کی طرح عام ہو گئے تھے۔ مگر کوئی چیز کتنی ہی عام کیوں نہ ہو جائے کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اس سے واقف ہی نہیں ہو پاتے اور وہ ان کی دسترس سے ہمیشہ دور ہی رہتی ہے۔

ارم نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ وہ دیوار کے ساتھ بے حس وحرکت کھڑا تھا۔ ارم کو دیکھ کر اس نے آنکھیں گھمائیں۔ ارم کا دل بھر آیا۔ آنکھوں سے رم جھم آنسو بہنے لگے۔ کتنے دن ہو گئے تھے اسے ان صبر آزما حالات سے گزرتے ہوئے۔ کوئی پتھر بھی ہوتا تو رو پڑتا۔ دروازے کی گھنٹی پورے زور سے بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے صدف کھڑی تھی۔ اس کی بچپن کی سہیلی۔ ”ارم میں تم کو ایک ہفتے سے فون کر رہی ہوں۔ تم فون تک سننے کی روادار نہیں ہو؟“

”صدف اندر تو آؤ میں تم کو پوری بات بتاؤں“ دونوں اندر آ کر بیٹھ گئیں تو ارم نے ایک آہ بھری اور بولی ”صدف میرا TOO SMART فون چھن گیا ہے“ ۔ ”اوہ یہ کب ہوا؟“ ”پندرہ دن ہو گئے ہیں“ ”تفصیل سے بتاؤ ہوا کیا؟“ صدف نے گہری تشویش سے پوچھا۔

”میں شمائلہ باجی کے گھر جا رہی تھی FLYING CAB میں۔ دو لڑکے FLYING BIKE پر اڑتے ہوئے آئے۔ پیچھے والے کے ہاتھ میں پستول تھی۔ کیپٹن سے کیب روکنے کو کہا۔ پہلے تو اس لڑکے نے اس مہارت سے گٹکا تھوکا کہ وہ نیچے جانے کے بجائے کھڑکی سے اندر داخل ہوا اور سیدھا کیپٹن کی قمیض کو گل و گلزار کر گیا۔ پھر اس نے اطمینان سے میرے ہاتھ سے فون لیا اور یہ جا وہ جا۔ دونوں اڑتے ہوئے غائب ہو گئے۔ کیپٹن نے رونا شروع کر دیا۔ کہنے لگا“ داغ تو اچھے نہیں ہوتے۔

ہائے میری نئی قمیض۔ میری بیوی تو گھر میں نہیں گھسنے دے گی ”کیب نیچے جانے لگی تھی۔ میں نے چیخ کر کہا خدا کے لئے کیب کو سنبھالو۔ میں تمہیں قمیص کے لئے پیسے دوں گی نئی خرید لینا۔ تب اس نے کیب سنبھالی“ ۔ صدف پریشانی سے سب کچھ سن رہی تھی۔ ”اور صدف امجد نے کہا ہے کہ میرے پاس اتنے فالتو پیسے نہیں ہیں کہ تمہیں بار بار TOO SMART فون خرید کر دوں۔ لینا ہے تو سمارٹ فون خرید لو۔ تم خود سوچو آج کل سمارٹ فون تو کسی دیہاتی کا حقہ معلوم ہوتا ہے۔

میں اس کا کیا کروں گی؟“ یہ کہہ کر ارم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ گلے لگانے کا رواج ختم ہو چکا تھا مگر صدف سے اپنی پیاری سہیلی کا دکھ دیکھا نہ گیا۔ اس نے اٹھ کر اسے گلے لگا لیا اور بولی ”میری پیاری دوست۔ میری اور تمہاری دوستی پہاڑ سے زیادہ گہری،سمندر سے زیادہ میٹھی اور شہد سے زیادہ اونچی ہے۔ میرا مطلب ہے۔“ ۔ ارم روتے روتے ہنس پڑی۔ ”بس بس میں سمجھ گئی“ اس طرح ماحول کا تناؤ کچھ کم ہوا اور دونوں سہیلیاں گھل مل کر باتیں کرنے لگیں۔

”میں تمہارے لئے چائے بناتی ہوں“ ۔ ”تم چائے بناؤ گی۔ روبو کہاں ہے؟“ ارم نے ایک آہ بھری اور کھڑکی کی طرف اشارہ کر دیا۔ ”یہ وہاں کیا کر رہا ہے؟“ صدف نے پوچھا۔ ”چائے لے آؤٔں پھر بتاتی ہوں“ ۔ باورچی خانے میں گندے برتنوں کا ڈھیر لگا تھا۔ ارم چائے لائی تو صدف نے کہا ”ہاں اب بتاؤ روبو کو کیا ہوا ہے؟“ ارم بولی ”پچھلے ہفتے کی بات ہے میں نے اسے سبزی لینے بھیجا صبح دس بجے۔ یہ گیا تو ایسا گیا واپس ہی نہیں آیا۔

میں سمجھی کسی نے اغواء کر لیا۔ شام کو چھ بجے امجد واپس آئے تو یہ ان کے ساتھ تھا۔ تین گھر چھوڑ کر جو خالی پلاٹ ہے وہاں کچرے کے ڈھیر میں پڑا ہاتھ پیر ہلا رہا تھا“ ”کیا؟ ہاہاہاہا“ صدف نے ایک قہقہہ لگایا۔ ”کچرے میں پڑا ہاتھ پیر ہلاتا یہ لگ کیسا رہا ہو گا“ باہر کھڑے روبو کے دانت نہیں تھے مگر اس نے پیسے ضرور۔ اس کا دل و دماغ تو نہیں تھا مگر اس کے مشینی وجود نے سوچا ضرور ”میں ایک گھریلو روبوٹ ہوں۔ گھر کے کام کاج کے لئے۔

مجھے اس لئے تو ڈیزائن نہیں کیا گیا کہ کچرے کے ڈھیروں سے پنجہ آزمائی کروں“ ارم بولی ”گھر کے اندر گھسا جا رہا تھا کہ مجھے تو کھانا پکانا ہے۔ بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے۔ اس کو آف کر کے باہر کھڑا کیا۔ تب سے یہ یہاں ہی کھڑا ہے“ ۔ ”میری فرض شناسی کا یہ صلہ دیا ہے۔ ان کو کیا پتہ کہ میں کچرے سے اٹھ نہیں پا رہا تھا اور مجھے یہی فکر لگی تھی کہ کھانا پکانا ہے۔“ روبو نے سوچا۔ ”تو اب کیا ارادہ ہے؟“ صدف نے پوچھا۔

”اس کو بیچ کر دوسرا لیں گے۔ اچھا سا۔ مگر فی الحال پیسے نہیں ہیں“ ۔ ارم نے جواب دیا۔ ”تو یہ اچھا نہیں ہے؟“ صدف نے پوچھا۔ ”ارے کیا بتاؤں صدف۔ میں تو اس سے پہلے ہی عاجز تھی۔ ایک دن پیزا آرڈر کیا۔ انہوں نے بھی روبو بھیج دیا۔ یہ اس کے ساتھ کھڑا ہو کر سگریٹ پینے لگا اور گپیں لگانے لگا۔ میں نے اندر بلا لیا تو ڈائیلاگ بولنے لگا۔ کہنے لگا۔ میڈم یہ ٹھیک ہے کہ میں ایک روبوٹ ہوں۔ میرے جذبات اور احساسات نہیں ہیں لیکن کام تو سارے انسانوں والے ہی کرتا ہوں۔ میرے کچھ حقوق تو ہیں۔ میں نے اپنے بھائی بند سے گپ شپ کر لی تو وہ بھی آپ کو برداشت نہیں“

”واہ یہ تو بہت دلچسپ ہے“ صدف نے کہا۔ ارے کیا بتاؤں۔ ایک دن میں ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ میں نے کہا بیڈ روم صاف کرو اور واش روم بھی دھو دینا۔ اس نے پورا کمرہ ہی دھو دیا۔ بستر پر پانی ڈالنے لگا تھا کہ میں پہنچ گئی۔ بچت ہو گئی۔ ”“ ہو سکتا ہے اس کے سسٹم میں کوئی خرابی ہو ”صدف نے کہا۔

“ یہ خرابی نہیں خرابہ ہے ”ارم نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔ روبو سوچنے لگا۔“ کبھی موبائل سے سر اٹھا کر دیکھ تو لیا کریں۔ میں ایک خودکار مشین ہوں مگر مجھے بھی ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہدایت کی ضرورت کس کو نہیں ہے۔ میری ٹانگ کھینچنے پر تلی ہیں۔ سنا ہے ان کا بھی کوئی خالق ہے جو اوپر کہیں آسمانوں پر رہتا ہے۔ کبھی آتے جاتے دیکھا نہیں۔ لگتا ہے ان کو بنا کر بالکل ہی چھوڑ دیا ہے۔ ایک یہ ہمارے خالق ہیں۔

مجال ہے کوئی کام سکون سے کرنے دیں ”۔ ارم بولی“ یہ روزانہ کھانا چولہے پر چڑھا کر باہر نکل جاتا تھا۔ ایک دن میں چپکے سے اس کے پیچھے گئی اور گیٹ سے باہر جھانکا تو کیا دیکھتی ہوں۔ پڑوسیوں کی روبی گیٹ سے لٹکی پڑ رہی تھی اور یہ گیٹ کے سامنے ٹہل ٹہل کر گانا گا رہا تھا۔ میرے سامنے والی کھڑکی میں اک چاند سا مکھڑا رہتا ہے ”۔ صدف ہنس ہنس کے دوہری ہو گئی۔“ ایک دن کھانا پکاتے ہوئے شعر پڑھ رہا تھا۔ جب سے دیکھا ہے تجھے دل کا عجب حال ہوا۔

سانس آتی ہے مگر نیند تو آتی ہی نہیں ”۔ دونوں سہیلیاں دل کھول کر ہنسیں۔ یہ سب سن کر روبو کے اندر خواہش پیدا ہوئی کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ اس کی پرائیویسی کو اس بری طرح پامال کیا گیا اور اسے خبر تک نہ ہوئی“ ہممم۔ تو یہ میڈم میری جاسوسی کرتی تھی۔ اور مجھے ایک روبوٹ ہوتے ہوئے پتہ تک نہ چلا۔ ”اس نے حیرت اور دکھ سے سوچا“ اس انسان سے جیتنا مشکل ہے۔ اور وہ روبی کی بچی۔ جب میں کچرے میں پڑا ہاتھ پیر ہلا رہا تھا تو یہ سڑک پر ٹہل رہی تھی اور مجھے دیکھ رہی تھی۔

مگر نہ میرے پاس آئی نہ میری مدد کی۔ انسانوں کے ساتھ رہ کر انسانوں جیسی ہو گئی ہے۔ آج اس کی وجہ سے میرا مذاق بن رہا ہے۔ ہمیں انسان جیسا بنانے کے چکر میں کیا بنا دیا ہے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ ائندہ اس روبی کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں ”روبو نے فیصلہ کر لیا۔“ اس کا مطلب ہے تم لوگ آج کل کافی مسائل کا شکار ہو ”صدف نے کہا۔ ارم بولی“ ہاں۔ سارا مسئلہ پیسوں کا ہے ”۔“ ارم۔ میری پیاری دوست۔ تم مجھ سے قرض لے لو۔

جب سہولت ہو واپس کر دینا ”۔ ارم نے اپنی سہیلی کو تشکر بھری نظروں سے دیکھا اور بولی“ جاوید بھائی سے قرض مانگا تھا۔ صاف منع کر دیا۔ کہنے لگے۔ اگلے مہینے بیٹے کی شادی ہے۔ اسے ہنی مون کے لئے چاند پر بھیجیں گے۔ اکلوتا بیٹا ہے۔ ہمارے پاس گنجائش نہیں ”۔ یہ سن کر صدف نے برا سا منہ بنایا اور بولی“ میری سمجھ میں نہیں آتا یہ لوگ چاند پر کیا کرنے جاتے ہیں اتنے پیسے خرچ کر کے۔ وہاں کبوتر کے ڈربے جتنے کمرے بنائے ہیں رہنے کے لئے۔

اسپیس اسٹیشن ہی میں رہنا پڑتا ہے۔ خلائی سوٹ پہنا کر دس منٹ کے لئے باہر چہل قدمی کرواتے ہیں۔ وہاں ٹماٹر اگا رہے ہیں۔ ٹماٹر کی کیاریاں دکھاتے ہیں۔ ارے ارم اپنے بھتیجے سے کہنا واپسی پر ٹماٹر لیتا آئے۔ چاند کے ٹماٹر کچھ سستے ہیں۔ زمین پر تو مشکل سے اگتے ہیں اب۔ زمین کو بنجر کر کے چاند پر ٹماٹر اگا رہے ہیں۔ واہ ”۔“ کیسی باتیں کر رہی ہو۔ وہ ہنی مون پہ جا رہا ہے اور میں اس سے ٹماٹر منگوالوں۔ ”ارم نے ناگواری سے کہا۔

باہر کھڑا روبو بھی اندر ہی اندر ہنس پڑا۔“ ارے صدف تمہارا روبو کیسا چل رہا ہے؟ ”۔“ کچھ نہ پوچھو۔ ہمارا پورا خاندان اس کا گرویدہ ہے۔ تم فون نہیں سن رہی تھیں۔ مجھے تم پر غصہ تھا۔ روبو بولا۔ میڈم اس طرح بدگمان ہونا ٹھیک نہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی مسئلہ ہو۔ میں میڈم ارم کے گھر جاتا ہوں۔ میں نے کہا۔ تم آلو گوشت پکاؤ میں خود چلی جاؤں گی۔ سمجھ لو اس نے ہی مجھے یہاں بھیجا ہے ”۔ ارم نے رشک بھری نظروں سے اسے دیکھا اور بولی“ تم کتنی خوش قسمت ہو۔

اچھا روبو تو قسمت ہی سے ملتا ہے ”۔“ ایسی مایوسی کی باتیں مت کرو۔ اللہ نے چاہا تو تمہیں بھی اچھا سا روبو مل ہی جائے گا ”۔ باہر کھڑے روبو کے چہرے پر زہر خند تاثرات نمودار ہوئے۔“ مگر ارم تم نے گندے برتنوں کا ڈھیر لگا رکھا ہے ”۔ ارم نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولی“ کیا بتاؤں پرانی ماسی کو بلایا تھا۔ اس نے وہ رونا دھونا مچایا۔ شوہر سبزی کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں کی شادی نہیں ہوئی روبوٹس کی وجہ سے ”۔

“ اچھا وہ کیسے؟ ”صدف نے تعجب سے پوچھا۔“ بڑی بیٹی کا رشتہ طے ہو گیا تھا۔ سسرال والوں نے جہیز میں جاپانی روبوٹ کی شرط رکھی۔ غریب لوگ کہاں سے انتظام کرتے۔ وہ رشتہ ختم کر کے چلے گئے۔ چھوٹی کا رشتہ آیا۔ لڑکے کی نوکری اچھی تھی۔ گھر میں چینی روبوٹ بھی تھا۔ لڑکی پسر گئی کہ ایسی جگہ شادی کروں گی جہاں جاپانی روبوٹ ہو گا۔ گھر والوں نے ڈرایا دھمکایامنت سماجت کی۔ لڑکی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اب دونوں بیٹھی ہیں ”۔ باہر کھڑے روبو کا دل چاہا کہ وہ اپنا سر پیٹ لے۔

“ اس میں بھی روبوٹس کا ہی قصور ہے۔ ان انسانوں کی کوئی کل سیدھی بھی ہے؟ ”۔ صدف نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولی“ ارم ہم پہلے ماسیوں اور نوکروں کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ اب ہم روبوٹس کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ ہماری زندگی پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے ”۔ باہر کھڑے روبو کا ایک بے آواز قہقہہ فضا میں گونجا اور اس نے سوچا“ اب فلسفہ بگھارنے لگیں۔ ہل کے پانی پینے کو تیار نہیں۔ جو کرے روبو ہی کرے اور باتیں کیسی بنا رہی ہیں۔

”کہتی تو تم ٹھیک ہو“ ۔ ارم نے ہاں میں ہاں ملائی۔ ”ذرا ہمارے بڑے چچا کی کہانی سنو۔ اس قدر امیر کبیر ہیں مگر ایسے دقیانوسی۔ گھر میں ایک بھی روبو نہیں۔ ابھی تک نوکر رکھے ہوئے ہیں۔ بڑے بیٹے کی شادی کی تو وہ ایک مہینے میں الگ ہو گیا کہ ہم نے تو برداشت کر لیا مگر وہ نئی لڑکی بھلا روبو کے بغیر کیسے گزارا کرے گی۔ دوسری طرف چھوٹے چچا ہیں۔ ہر کام کے لئے الگ روبو ہے۔ کتے کی دیکھ بھال کے لئے بھی روبو ہے۔ تین دن کے لئے روبو کو کلینک بھیجنا پڑا۔

کتا تین دن بھوکا رہا۔ جب روبو آیا تو اس کے پیروں میں لوٹنے لگا۔ اسی کے ہاتھ سے کھانا کھایا“ ۔ صدف نے لاشعوری طور پر ہلکی سی جھرجھری لی اور کچھ کہتے کہتے رک گئی۔ ارم سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ ”صدف کیا بات ہے؟“ ”نہیں کچھ نہیں“ ۔ صدف نے ٹالنے کی کوشش کی۔ ”نہیں صدف بتاؤ تم کیا کہہ رہی تھیں؟“ ۔ ارم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ”بات یہ ہے کہ تم پریشان مت ہونا۔ تم طلعت آنٹی کو تو جانتی ہو نا۔ کافی بد مزاج ہیں۔

شوہر سے بھی نہیں بنی تھی۔ اکیلی رہتی تھیں۔ انہوں نے کام کاج کے لئے روبی خرید لی تھی۔ اس پر بھی ہر وقت غصہ کرتی تھیں۔ روبی میں بھی شاید وائرس آ گیا تھا۔ وہ اپنی مرضی سے کام کرنے لگی تھی۔ ایک دن غصے میں انہوں نے روبی کو مارا۔ روبی نے بھی انہیں خوب مارا۔ چیخ و پکار سن کر پڑوسی اگئے۔ آنٹی اسپتال میں ہیں۔ بچنے کی امید نہیں ہے۔ روبی جیل میں ہے۔ اس کا کہنا ہے اس نے اپنے دفاع میں ایسا کیا“ ۔ ارم پھٹی پھٹی آنکھوں سے صدف کو دیکھ رہی تھی۔

”ارے تم اتنی پریشان مت ہو۔ اسی لئے تو میں تمہیں نہیں بتا رہی تھی۔ بس ذرا خیال رکھا کرو۔“ صدف نے ارم کا ہاتھ تھپکا۔ روبو کے چہرے پر دنیا بھر کی بیزاری سمٹ آئی تھی ”کس نے کہا تھا مشین سے پنگا لو۔ انٹی ہاتھ چھوڑ بیٹھیں۔ روبی خاموشی سے مار کھاتی۔ واہ“ ۔ مگر اس کے مشینی وجود میں کہیں اندر ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ”ارم اب میں چلتی ہوں۔ بہت دیر ہو گئی۔ کل تم میری طرف آ جاؤ۔ چائے پیئیں گے اور روبو کے ہاتھ کے سموسے کھائیں گے۔ ایسے سموسے بناتا ہے کہ بس“ ۔ ”اچھا میری پیاری دوست۔ کل ضرور آؤں گی۔ مجھے بہت اشتیاق ہو رہا ہے تمہارے روبو سے ملنے کا“ ۔ ارم نے جواب دیا۔ صدف خدا حافظ کہہ کے چل پڑی۔ فون کر کے اس نے فلائنگ کیب پہلے ہی بلوا لی تھی۔

فلائنگ کیب اڑی جا رہی تھی۔ صدف کو یوں لگا کہ نیچے زمین پر ایک بہت بڑا سا قالین بچھا ہوا ہے اور اس کے کناروں پر جھالر لگی ہوئی ہے۔ اس نے کیپٹن سے کیب روکنے کو کہا۔ کیپٹن سے آج تک کسی نے یوں ہوا میں کیب نہیں رکوائی تھی۔ وہ بہت بیزار ہوا۔ صدف نے اپنے too smart فون سے منظر کو فوکس کیا۔ ”اوہو آج تو آٹھ مارچ ہے“ ۔ اسے یاد آیا۔ نیچے خواتین مارچ کا جلسہ ہو رہا تھا۔ وہ بڑا سا قالین جلسے کے مرد شرکاء تھے اور کنارے کی جھالر خواتین شرکاء تھیں۔

ہا ہا ہا ہا۔ صدف نے بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا۔ ”بھائی لوگ نے عورت مارچ کو بھی ہائی جیک کر لیا۔ عورتوں کو جھالر بنا دیا۔ اور عورتیں اسی میں خوش ہیں۔ ان کو پتہ تک نہیں چلا کہ انہیں جھالر بنا دیا گیا ہے“ ۔ آگے بیٹھا ہوا کیپٹن جو پہلے ہی بیزار تھا سوچنے لگا ”کہیں یہ میڈم پاگل تو نہیں۔ خود ہی خود ہنس رہی ہے۔ اگر پیچھے سے میری گردن دبوچ لی تو کیا ہوگا؟“ وہ چوکنا ہو کر بیٹھ گیا اور آخر تک چوکنا ہی رہا۔

صدف نے اپنے موبائل میں دیکھا بڑے بڑے بینرز لگے ہوئے تھے۔ ”میرا جسم میری مرضی“ ”اپنا کھانا روبوٹ سے گرم کرواؤ۔ خبردار جو میری نیند خراب کی“ ۔ ”تمہارے موزے اب روبوٹ ڈھونڈے گا۔ مجھے اور بھی کام ہیں“ ۔ ”میرا روبوٹ میری مرضی“ نعرے اور بھی بہت تھے۔ مگر یہ آخری نعرہ دیکھ کر وہ خوش دلی سے مسکرائی اور اس نے زیرلب دہرایا ”میرا روبوٹ میری مرضی“ ۔ گھروں میں روبوٹس پر تسلط کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ دادی اماں کو جانے کب بیڈ ٹی کی عادت پڑ چکی تھی۔

دادا ابا کو صبح گیٹ سے اخبار لا کر بھی دینا تھا۔ جیٹھانی بڑی ہونے کے ناتے اپنا حق سمجھتی تھی کہ روبو پہلے اس کے شوہر اور بچوں کا ناشتہ بنائے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ روبوٹ تو دیور خرید کر لایا تھا۔ دیورانی دانت پیستی تھی جیٹھانی کو دیکھ کر اور دیور خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا تھا۔ بڑے بھائی سے چپقلش رہنے لگی تھی روبوٹ کی وجہ سے۔ بچے بھی سارا وقت مقابلے بازی پر اترے رہتے تھے۔ ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ تھا۔

چھوٹے محلوں میں تو کسی ایک گھر میں روبوٹ آ گیا تو پورا محلہ اسے استعمال کرتا تھا۔ اس قسم کے جملے عام سننے کو ملتے تھے۔ روبوٹ کیا آ گیاخون ہی سفید ہو گیا ہے۔ ہاں وہ ہمیں اب کیوں پوچھیں گے اب تو وہ روبوٹ والے ہو گئے ہیں۔ شہلا آنٹی سے ذرا کہا تھا کہ آج مہمان آرہے ہیں اپنا روبوٹ بھیج دیجیے گا کچھ دیر کے لئے۔ صاف منع کر دیا بولیں ہمیں خود کام ہے۔ جمیل کی امی تو دو انگلیوں کا سلام تک نہیں کرتیں روبوٹ جو آ گیا ہے گھر میں۔

بعض لوگ پیسہ ہونے کے باوجود بھی روبوٹ خریدنے کو تیار نہیں تھے بلکہ دوسروں سے مانگ مانگ کر ہی گزارا کرتے تھے۔ تعلقات میں سرد مہری آ چکی تھی۔ کچھ لوگوں نے روبوٹس اپنی تنہائی دور کرنے کے لئے خریدے تھے۔ جب روبوٹس کی باتیں ناقابل برداشت ہو جاتیں تو انہیں آف کر کے ایک کونے میں کھڑا کر دیا جاتا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ روبوٹ آف ہونے کے بعد بھی اپنی آنکھیں گھمایا کرتا تھا۔ اسی بناء پر بعض لوگ روبوٹ کو گھر میں رکھنے سے خائف تھے۔

حد سے زیادہ استعمال ہونے کی صورت میں روبوٹس میں بعض دفعہ عجیب سا وائرس آ جاتا تھا۔ روبوٹ آگے پیچھے چلتا تھا۔ دائرے میں گھومتا تھا۔ چولھا جلاتا تھا اور اس کو جلتا چھوڑ کر فرج کھول لیتا تھا اس کو اسی طرح کھلا چھوڑ کر گھر کی صفائی شروع کر دیتا تھا۔ اس کو بھی ادھورا چھوڑ کر گھر سے باہر نکل جاتا تھا۔ اگر اس کو کچھ کہا جائے تو جواب میں ایسی آوازیں نکالتا تھا کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس بیماری کو ASIA SYNDROME کا نام دیا گیا تھا اور یہ ناقابل علاج تھی۔ وہ روبوٹ کسی کام کا نہیں رہتا تھا اور کسی جنک یارڈ کا حصہ بن جاتا تھا۔ روبوٹس کے حقوق کے لئے اکا دکا تنظیمیں بھی وجود میں آ چکی تھیں۔

مگر صدف کو کوئی پریشانی نہیں تھی۔ وہ خوشحال تھی اور روبوٹ کی بلا شرکت غیر مالک تھی۔

اس نے اپنے فون پر دیکھا کہ جلسے کے من چلے شرکاء اپنے فون پر اس کو ہی دیکھ رہے تھے۔ خوب ہنس رہے تھے۔ اس کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے اور کچھ وی کا نشان بنا رہے تھے۔ ”یہ بے وقوف وی کا نشان کیوں بنا رہے ہیں؟ اور ذرا دیکھو خواتین مارچ کے جلسے میں بیٹھے ہیں مگر ہوا میں عورت نظر آئی تو اس کو تاڑنے سے باز نہیں آئے۔“ اس نے کیپٹن سے چلنے کے لئے کہا۔ اب اس نے اپنے فون پر اپنے باورچی خانے کو دیکھا۔ روبو بہت انہماک سے چولھا صاف کر رہا تھا۔

”اس کا مطلب ہے آلو گوشت پک چکا ہے۔ کس قدر سگھڑ ہے یہ“ ۔ اس کے چہرے پر ایک پیار بھری مسکراہٹ آئی۔ قریب سے ایک دوسری کیب گزری اور کسی نے چوسی ہوئی گنڈیریوں کے چھلکے ہوا میں اچھال دیے۔ کھلی ہوئی کھڑکی سے کچھ چھلکے صدف کی گود میں آگرے۔ وہ مارے کوفت کے چیخ اٹھی۔ ”اف یہ بدتمیز لوگ۔ ایر پولیس بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔“ ۔ ”میڈم یہاں اوپر بھی مک مکا ہو جاتا ہے“ ۔ چوکنے کیپٹن نے مزید چوکنا ہو کر جواب دیا۔

صدف نے ایک ٹشو پیپر سے وہ چھلکے باہر پھینک دیے۔ پھر اسے خود ہی تأسف ہوا۔ زمین پرتو کچرا تھا ہی۔ اب فضائی کچرا بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کا دھیان ارم کی طرف چلا گیا۔ اس نے سچے دل سے دعا کی کہ ارم کو ایک بہت اچھا سا روبوٹ مل جائے۔ پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری۔ کچھ دیر بعد وہ گھر میں ہو گی۔ گرم گرم مزیدار آلو گوشت۔ اس کو بھوک لگنے لگی۔ اس نے اپنا موبائل بند کر کے پرس میں رکھ لیا۔ خدا جانے نیچے کیا ہو رہا تھا۔ کیا نہیں ہو رہا تھا۔ مگر اس وقت اس لمحے اس کیب میں زندگی بہت بھر پور مکمل اور شانت تھی۔ اس نے مطمئن ہو کر آنکھیں بند کر لیں اور سر پیچھے سیٹ سے ٹکا دیا۔ نیچے کہیں دور سے ایک غزل کے بول ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے اس کے کانوں سے ٹکرائے۔

لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
ساقیا ساقیا سنبھال ہمیں
اور کیب کسی خیال کی طرح محو پرواز رہی۔
۔ ۔ ۔ ۔

مجھے یوں لگا کہ اگر میں نے یہ کہانی لکھنے میں دیر کی تو شاید اوپر سے فلائنگ کیب گزر رہی ہو گی اور نیچے روبوٹ گرما گرم چائے کا کپ لا کر مجھے پکڑا دے گا۔ تب یہ کہانی۔ کہانی نہیں رہے گی۔ روزمرہ بن جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).