سعودی عرب اور اتحادیوں کی قطر پر پابندیوں میں جیت کس کی ہوئی؟


قطر، سعودی عرب
سعودی عرب کے قدیم شہر العلا کی پرسکون فضا میں اس ہفتے گلف کوآپریشن کاؤنسل (جی سی سی) کے ممالک کے درمیان ہونے والے ’یکجہتی اور استحکام‘ کے معاہدے نے خلیجی ممالک کے تعلقات میں ایک نئی گرم جوشی پیدا کر دی ہے۔

خلیجی ممالک کے سالانہ سربراہی اجلاس میں اس معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ’یہ معاہدہ ہماری خلیجی، عرب اور اسلامی یکجہتی اور استحکام کی تصدیق کرتا ہے۔‘

اس سے پہلے انھوں نے قطر کے امیر تمیم بن حماد التہانی کو سرعام گلے لگا کر (کورونا وبا کے باوجود) ان کا اجلاس میں استقبال کیا تھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ سعودی عرب ایک قدم آگے بڑھ کر قطر سے سیاسی تعلقات بحال کرنے کا خواہشمند ہے۔

چھ خلیجی ممالک کے علاوہ مصر، ترکی اور ایران نے بھی اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ نے ایک ٹویٹ میں کہا:’دباو اور جبر کے خلاف دلیری سے لڑنے کے لیے قطر کو مبارکباد۔ ہمارے دیگر ہمسایوں کے لیے، ایران نہ تو (ان کا) دشمن ہے اور نہ ہی (ان کے لیے) خطرہ۔ اب وقت ہے کہ ایک مضبوط علاقے کے لیے ہماری پیشکش کو سنجیدگی سے دیکھا جائے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال

قطر کے ساتھ کشیدگی کی چار وجوہات

بات چیت کے لیے انھیں پابندیاں ہٹانی ہوں گی: قطر

کویت اور امریکہ کی کوششیں

ساڑھے تین سال تک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کو فضائی، زمینی اور بحری پابندیوں کا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ تعلقات ختم کر کے اس چھوٹے سے خلیجی ملک پر زبردست دباو برقرار رکھا۔

ان چاروں ممالک نے سنہ 2017 میں تیس لاکھ سے بھی کم آبادی والے تیل اور گیس کے ذخائر سے سرشار اس ملک پر الزام لگایا کہ وہ دہشت گردی کا حامی ہے اور قطر سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کرنا بند کرے، ایران سے تعلقات ضرورت سے زیادہ نہ رکھے اور دوحہ میں مقیم الجزیرہ نیوز چینل پر پابندی لگائے۔

قطر

قطر نے دہشت گردی کی حمایت کے الزام سے انکار کیا اور نہ تو الجزیرہ پر پابندی لگائی اور نہ ہی ایران کے ساتھ تعلقات کم کیے۔

تو اب چاروں ملک قطر کے ساتھ سیاسی تعلقات بحال کرنے اور اس کے خلاف پابندیاں ختم کرنے پر راضی کیسے ہو گئے؟

اطلاعات کے مطابق حالیہ مہینوں میں کویت اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے ثالثوں نے ڈیڈ لاک ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ خاص طور پر کویت پس پردہ کافی مہینوں سے دونوں دھڑوں کو منانے کی کوشش کر رہا تھا۔

بی بی سی کے مغربی ایشیائی امور کے ماہر فرینک گارڈنر کہتے ہیں ’زیادہ تر کویت اور کچھ حد تک امریکہ کی کئی مہینے کی انتھک سفارتی کوششوں کے نتیجے میں قطر کے خلاف پابندیوں کو ختم کیا جا سکا ہے۔‘

یہ بات سچ ہے کہ صلح صفائی کی باتیں کئی ماہ سے جاری تھیں اور جی سی سی ممالک کا صدارتی اجلاس ہر سال ہوتا ہے، تو اچانک معاہدہ کیسے طے پا گیا؟ کیا امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی شکست اس کی فوری وجہ تھی؟

ڈونلڈ ٹرمپ

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں مغربی ایشیائی امور کے ماہر پروفیسر آفتاب کمال پاشا کہتے ہیں ’ہاں، اس کی فوری وجہ ٹرمپ کی ہار ہے اور جو بائیڈن کا دو ہفتوں میں اقتدار سنبھالنا۔ بائیڈن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کچھ شرائط پر، جوہری معاہدے کو بحال کرنا پسند کریں گے۔‘

’بائیڈن نے سعودی عرب کو سختی سے متنبہ کیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کو وہ ایک انسانی حقوق کے کیس کے طور پر دیکھیں گے اور اس کی تحقیقات بھی کرائی جائیں گی۔ یمن میں سعودی عرب اور امریکہ کی فوجی کارروائی کی بھی تفتیش ہو گی۔ ادھر قطر کے امیر التہانی کے رویے میں بھی کچھ نرمی دیکھنے میں آئی جس سے مسئلہ حل کرنے میں آسانی ہوئی۔‘

حالات بگڑے کیوں تھے؟

قطر کی طرف سے اپنے موقف پر برقرار رہنے کی ایک بڑی وجہ اس کا یہ یقین تھا کہ وہ شدت پسندی کا حامی نہیں ہے۔ دراصل مصر اور سعودی عرب کی نظر میں اخوان المسلمین شدت پسند گروہ ہے جبکہ قطر، فلسطین اور ترکی اسے صرف ایک سخت گیر اسلامی تنظیم کے طور پر دیکھتے ہیں۔

قطر شدت پسندی کی حمایت کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس نے غزہ، لیبیا اور دیگر مقامات پر سیاسی اسلامی تحریکوں کی حمایت کی ہے، خاص طور پر روایتی اخوان المسلمین جیسی تنظیموں کی جو خلیجی ممالک کے نزدیک شدت پسند تنظیم ہے۔

قطر

اس کے علاوہ قطر نے ایران کے ساتھ تعلقات مضبوط نہ کرنے کے لیے دباؤ کو اپنی خارجہ پالیسی پر حملے کے طور پر دیکھا ہے۔ حالانکہ جی سی سی کے ایک رکن کی حیثیت سے قطر اس بات کے لیے پابند ہو سکتا ہے کہ وہ گروہ کی طے شدہ پالیسی پر عمل کرے۔

دراصل قطر اور چاروں ممالک یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے درمیان تعلقات سنہ 2014 میں اس وقت خراب ہو چکے تھے جب ان چاروں ممالک نے اپنے سفارتکاروں کو کچھ ماہ کے لیے واپس بلانے کا قدم اٹھایا تھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

دوستوں کی حمایت

اس مشکل وقت میں دوست ممالک کا ساتھ بھی قطر کی طاقت بنا۔ اس پورے ساڑھے تین سال کے عرصے میں ترکی نے قطر کی خاطر خواہ حمایت کی۔ اس سے پہلے بھی قطر کا ترکی کی طرف جھکاؤ واضح تھا۔ پابندیاں شروع ہونے سے ایک سال پہلے یعنی 2016 میں قطر نے عبوری طور پر ترکی کو ایک فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔

قطر کے اس قدم نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ناراض کیا اور ان کی طرف سے سخت ردعمل بھی سامنے آیا تھا لیکن قطر نے ایسا کرکے شاید یہ پیغام دیا کہ قطر ایک چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن اس کے دوست بڑے اور طاقتور ممالک ہیں۔

بہرحال بات اتنی آگے بڑھ گئی کہ جون 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کے ساتھ سیاسی تعلقات کو منقطع کر دیا۔ ان ممالک نے اپنے سفارتکار واپس بلا لیے اور ملک پر سخت معاشی پابندیاں نافذ کر دیں۔ قطر کے سامنے رکھے گئے مطالبات میں ترکی کے فوجی اڈے کو فوراً بند کرنا بھی شامل تھا۔

الجزیرہ

ساڑھے تین سال چلنے والے اس سیاسی ڈرامے میں جیت کیا قطر کی ہوئی؟

مشکل میں گھرے قطر کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کے خلاف کارروائی فطری نہیں اور آخر فتح اسی کی ہو گی۔

پابندیاں ختم کرنے کے لیے قطر کے سامنے دراصل 13 شرائط رکھی گئی تھیں۔ ایک دو کو چھوڑ کر قطر نے کوئی بھی شرط نہیں مانی۔ مثلاً چار بڑی شرائط یہ تھیں: الجزیرہ پر پابندی، ایران کے ساتھ تعلقات محدود کرنا، شدت پسند تنظیموں پر پابندی اور ان کی حمایت ختم کرنا اور ترکی کے فوجی اڈے کو بند کرنا۔

قطر نے اس میں سے ایک بھی شرط نہیں مانی۔

پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ لڑائی میں جیت قطر کی ہوئی ’یہ قطر کی جیت ہے کیونکہ قطر کے خلاف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مل کر ایک مصنوعی مسئلہ کھڑا کیا تھا جسے زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھا جا سکتا تھا۔‘

فرینک گارڈنر کے مطابق ساڑھے تین سال کی یکطرفہ اقتصادی اور سرحدی پابندیوں نے قطر کے خلیفہ، حکومت اور عوام کے لیے کافی مشکلات پیدا کی تھیں لیکن یہ پابندیاں قطر کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کر سکیں۔

دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے یہ اندازہ نہیں لگایا تھا کہ قطر اپنی فوجی صلاحیت اس قدر بڑھا لے گا کہ یہ ایک علاقائی طاقت بن کر سامنے آئے گا۔

قطر

پابندیاں لگائے جانے سے پہلے اس کی فضائیہ کے پاس صرف 12 جنگی طیارے تھے۔ پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ اب اس کے پاس تقریبا 250 جہاز ہیں۔

’ان کے پاس لگ بھگ 250 طیارے آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرونز خریدے ہیں۔ اس نے امریکہ سے لے کر ترکی، اسرائیل، ایران، فرانس، بیلجئیم اور جہاں سے بھی ممکن ہو سکا، وہاں سے ہتھیار خرید کر اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔‘

یہ پابندیاں معاشی نقطہ نظر سے دونوں فریقین کے لیے نقصان دہ رہی ہے۔ پروفیسر پاشا کے مطابق ’متحدہ عرب امارات اور سعودی بینکوں نے مل کر قطر کی کرنسی کو کمزور کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ الجزیرہ کے 30 صحافیوں کے اکاؤنٹ بھی ہیک کیے گئے لیکن کچھ نہیں ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس پورے معاملے کی وجہ سے قطر پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ملک بن کر سامنے آیا ہے۔

’ان کی کوشش تھی کہ قطر میں ایک کٹھ پتلی حکومت کا قیام کر کے اسے اپنے ماتحت کر لیں لیکن انھیں اس میں ناکامی ہوئی۔ قطر اب پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ملک بن کر ابھرا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp