ذکی الرحمان لکھوی کو پانچ سال قید کی سزا: ایف اے ٹی ایف کا دباؤ یا پاکستان کی اپنی ضرورت؟


لکھوی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں جمعے کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمٰن لکھوی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں پانچ سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

انسدادِ دہشتگردی کی عدالت کی جانب سے کالعدم تنظیم کے کمانڈر کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کی تین دفعات پر پانچ، پانچ سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے تاہم یہ سزائیں ایک ہی وقت میں شروع ہوں گی۔

خیال رہے کہ انڈیا اور امریکہ کی جانب سے لکھوی پر سنہ 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، اس حملے میں 160 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مقدمے کے فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ ذکی الرحمٰن لکھوی اپنے ساتھی ابو انس محسن کے ساتھ مل کر پاکتپن میں ‘ابو حریرہ ڈسپنسری’ کی آڑ میں چندہ جمع کر کے دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی حکام ممبئی حملوں کے 19 مفرور ملزمان کو پکڑنے سے قاصر کیوں ہیں؟

ایف اے ٹی ایف: وہ شعبے جن میں بہتری کی ضرورت ہے

پابندیاں، الزامات، عدالتیں اور حافظ سعید

ممبئی حملے: ’انڈیا اس معاملے کو حل کرنا ہی نہیں چاہتا‘

خیال رہے کہ محکمہ انسداد دہشتگردی کی جانب سے لکھوی اور ان کے ساتھیوں پر مقدمہ گذشتہ ماہ درج کیا گیا تھا جس میں ان پر دہشت گردی کی معاونت کے لیے غیر قانونی چندہ جمع کرنے اور دہشت گروں کی مالی مدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جس کے بعد انھیں چند دن قبل دو جنوری کو خفیہ معلومات کی بنیاد پر ایک ٹارگٹڈ آپریشن میں گرفتار کیا گیا تھا۔

سنیچر کے روز ان کی گرفتاری کے بعد امریکی وزارت داخلہ کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں لکھوی کی گرفتاری کو ایک خوش آئند اقدام قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ اقدام انھیں دہشت گردی اور اس کی مالی معاونت میں ملوث ہونے کا ذمہ دار ٹھہرانے میں اہم ثابت ہوگا۔

https://twitter.com/State_SCA/status/1346499492980412417?s=20

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’ہم ذکی الرحمان لکھوی کے مقدمے اور سزا کے حوالے سے بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہم چاہیں گے کہ ممبئی حملوں میں ان کے کردار کے حوالے سے بھی سزا دی جائے۔‘

یاد ہے کہ ذکی الرحمان لکھوی کو اس سے قبل سنہ 2008 میں مبینہ طور پر لشکر طیبہ کے ایک تربیتی کیمپ سے ممبئی حملہ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم چھ برس بعد انھیں انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے ضمانت پر رہائی دے دی تھی جس کے بعد وہ سنہ 2015 میں جیل سے باہر آگئے تھے۔

حافظ سعید

ایف اے ٹی ایف کا دباؤ یا پاکستان کی اپنی ضرورت؟

گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے سربراہوں اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریوں میں خاص طور پر تیزی دیکھی گئی ہے۔

گذشتہ برس نومبر میں جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو ایک عدالت نے تین مختلف الزامات میں مجموعی طور پر ساڑھے دس برس قید اور ایک لاکھ دس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

ادھر ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دی گئی ڈیڈلائن فروری کے آخر میں ختم ہو رہی ہے اور ایسے میں یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان ایسا صرف ایف اے ٹی ایف کے دباؤ میں کر رہا ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سکیورٹی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اعزاز سید کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی تبدیل ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے کشمیری عسکریت پسند تنظیموں پر سخت کریک ڈاؤن کیا گیا ہے، اور جن لوگوں پر کریک ڈاؤن نہیں ہوا وہ غائب ہو چکے ہیں یا منظر پر موجود نہیں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان ہی فیصلوں کو اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو انڈیا کی جانب سے پاکستان پر دراندازی اور دہشتگردی میں ملوث ہونے کے جو الزامات ماضی میں لگائے جاتے تھے وہ اب اس تواتر سے سامنے نہیں آ رہے جیسے پہلے آتے تھے۔

’اس میں ہماری عسکری قیادت کا بڑا کردار ہے جنھوں نے اس سارے معاملے کو دیکھا اور عملی جامہ پہنایا ہے۔‘

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں ’ایف اے ٹی ایف کا تو دباؤ ہے ہی لیکن عالمی تناظر میں بھی چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں اور پاکستان کے لیے غیر ریاستی تنظیموں کے ذریعے کشمیر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی جگہ نہیں رہی اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی تحریک میں بھی عسکریت پسندی کی کشش اور جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ پاکستان کو دہشت گردی سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے جس کی وجہ سے ریاست مجبور ہوئی ہے۔‘

اعزاز سید کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام عالمی برادری کو یہ اطمینان دلوانا چاہتا ہے کہ وہ دہشتگردی میں ملوث نہیں ہے اور ایف اے ٹی ایف پاکستان کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ اقدامات کیے گئے ہیں جو ماضی میں کوئی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ہم مستقبل میں ایسی تنظیموں پر بھی کریک ڈاؤن دیکھ سکتے ہیں جو ملک میں فرقہ واریت کے تناظر میں کام کرتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ابھی افغانستان میں معاملات ختم نہیں ہوئے اور امریکہ کے ساتھ افغان طالبان کے امن معاہدے کے بعد افغان طالبان مضبوط ہو گئے ہیں اور ان کے پاکستان میں متعدد تنظیموں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ یوں اگر افغان طالبان مضبوط ہیں تو یہ تنظیمیں بھی مضبوط ہیں۔‘

فرقہ واریت سے منسلک تنظیموں پر کریک ڈاؤن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عامر رانا کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پالیسی میں ابہام ضرور موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ان تنظیموں کے افغان طالبان سے تعلقات سے متعلق تو کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن ان گروہوں کی تعداد بھی خاصی بڑی ہے اور یہ چھوٹے گروہ ہیں، ان کا ڈھانچہ بھی مختلف ہے تو ان سے سیاسی طور پر نبردآزما ہونے کی پالیسی پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی دباؤ ایسی تنظیموں کی بجائے جماعت الدعوۃ اور جیش محمد جیسے گروہوں کے حوالے سے ہے۔‘

فروری میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ڈیڈ لائن کے اختتام اور ایک اور اجلاس کے بارے میں بات کرتے ہوئے عامر رانا کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایک اور ’واک اوور‘ ملے گا اور لکھوی کے حوالے سے فیصلے کا بھی خاصا اثر ہو گا، کیونکہ اس طرح کے بڑے فیصلے بہرحال معنی رکھتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘حالانکہ پاکستان نے حالیہ عرصے میں دہشتگردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے قانون سازی کی ہے لیکن جو بنیادی اعتراضات ایف اے ٹی ایف کی جانب سے لگائے گئے ہیں انھیں پورا کرنے میں وقت لگے گا۔’

لکھوی

ذکی الرحمان لکھوی کون ہیں؟

کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمان لکھوی ممنوعہ تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے قریبی ساتھی ہیں اور ان کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے ہے۔

حافظ محمد سعید نے سنہ 80 کی دہائی میں جب ‘مرکزِ دعوۃ والارشاد’ قائم کیا تو ذکی الرحمان لکھوی اس تنظیم میں شامل ہو گئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں روس کے خلاف ‘امریکی جہاد’ شروع تھا۔ حافظ سعید اور ذکی الرحمان نے اپنے طور پر اس جہاد میں بھی حصہ لیا۔

اسی دوران سنہ 1988 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک کا آغاز ہوا تو حافظ سعید نے اس مسلح تحریک میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور انھوں نے 90 کی دہائی کے اوائل میں لشکر طیبہ کے نام سے عسکری تنظیم قائم کی اور سنہ 1993 میں لشکر طیبہ کے عسکریت پسند انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔

حافظ سعید نے اپنے ساتھی ذکی الرحمان کو کشمیر کے لیے تنظیم کا چیف آف آپریشنز مقرر کیا۔ دسمبر سنہ 2001 ایک میں انڈیا کی پارلیمان پر حملے کے بعد امریکہ نے لشکر طیبہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا اور اس کے بعد جنوری 2002 میں پاکستان نے بھی اس تنظیم پر پابندی عائد کر دی۔ اس حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے۔

لیکن حافظ محمد سعید نے پارلیمان پر حملے کے فوراً بعد پابندی لگنے سے قبل لشکر طیبہ سے علیحدگی اختیار کی اور جماعت الدعوۃ کے نام سے نئی تنظیم بنائی اور یہ اعلان کیا کہ ان کی جماعت پاکستان میں فلاحی اور تعلیمی کاموں میں سرگرم رہے گی۔

اس کے ساتھ ہی انھوں نے اعلان کیا کہ لشکر طیبہ کے دفاتر کشمیر میں منتقل کیے جا رہے ہیں اور انھوں نے ذکی الرحمان لکھوی کو لشکر طیبہ کا امیر یا سربراہ مقرر کیا۔

یاد رہے کہ سنہ 2008 میں انڈیا کے شہر ممبئی میں دو بڑے ہوٹلوں، ایک ٹرین سٹیشن، ایک ہسپتال اور ایک یہودی ثقافتی مرکز پر 10 اسلحہ بردار افراد کے گروہ نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 160 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

انڈیا کی جانب سے فوراً ہی لکھوی پر اس حملے کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کی حیثیت سے الزام لگایا گیا تھا۔ انڈین حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ لکھوی حملہ آوروں سے ان کے سفر کے دوران رابطے میں تھے اور شاید حملے کے دوران بھی۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ لکھوی کو زندہ بچ جانے والے اکلوتے اسلحہ بردار شخص نے پہچان لیا تھا۔

ذکی الرحمان لکھوی کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ خود کبھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر گئے تھے البتہ ان کے ایک بیٹا سنہ 2006 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے ہلاک ہو گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp