لیکوریا کا جن ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے بوتل میں بند کر دیا


لیکوریا کا جن جس خوبصورتی سے ڈاکٹر طاہرہ نے بوتل میں بند کیا ہے اس پہ داد نہ دینا کم ظرفی ہو گی کیونکہ اس کو ایک ایسی پراسرار سیریز کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے جس میں تجسس زیادہ اور کہانی کچھ نہیں ہے، جس کو ایک جناتی خوف کے طور پہ بیان کیا جاتا ہے بلکہ بیماری جس کا علاج میڈیکل سائنس میں نہیں بتایا جاتا، حکمت اور بابا جی لوگوں کے پاس سنایا جاتا ہے۔

جب ان کے پاس ہم سو کالڈ پردہ نشین اپنی بچیاں لے کر جاتے ہیں تو حکمت کے بابو کے کشتوں میں جان ڈل جاتی ہے اور بابا فقیر لوگوں کے تن میں تندور، جو زبان تک بہت مکار شفقت سے آتا ہے کہ بس اتنا باقی کہنا رہ جاتا ہے کہ نظارہ کروا دو، باتوں کے نظاروں سے بچیاں مزید خوف زدہ ہو جاتی ہیں۔

مضمون میں ڈاکٹر طاہرہ نے جس بچی کا واقعہ قلم بند کیا ہے۔ دیکھیے کیسے وہ اپنی ماں کی طرف دیکھتی ہے۔ یہ خوف و ڈر کا پہلا مرحلہ ہے جو ڈپریشن و ٹینشن کی بنیاد ہے۔

میرے لیے یہ موضوع اپنی حقیقتوں کے ساتھ تب سوالیہ نشان بنا جب میں نے ”شرکت گاہ“ کے ساتھ ایک پروجیکٹ کیا، جس میں اہم بات یہ تھی کہ کیس ہسٹریز کو کہانیوں کے قالب میں ڈھالنا تھا۔ چالیس کیس ہسٹریز تھیں، چالیس دن تھے اور چالیس کہانیاں تھیں۔ سب نو عمر بچیوں کے مسائل تھے۔

ڈاکٹر صاحبہ کے کالم میں موجود بچی کی جسمانی کمزوری جس طرح بیان کی گئی ہے۔ جن بچیوں کو یہ شکایت ہے، ان سب کی جسمانی حالت اکثر ایسی ہی ہوتی ہے جو خوراک کی کمی یا نامناسب خوراک سے بھی ہو سکتی ہے اور خوف سے بھی۔ وہی خوف جس میں ہمارے معاشرے کی بچی کو پالا جا رہا ہوتا ہے۔ چونکہ وہ بلوغت کی منازل طے کر رہی ہے اور اس کے جسم میں ضروری تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں جن پر دیوان تو لکھنا پسند کیا جاتا ہے مگر حقیقت کو قبولنا گناہ سمجھا جا رہا ہوتا ہے۔

بچیوں کو نہ جانے کیوں ہر وقت جسم چھپانے کا کچھ اس طرح کہا جا رہا ہوتا ہے جیسے کوئی ایٹم بم کو یا اسلحہ کو چھپانے کو کہا جا رہا ہو کہ وقت ضرورت استعمال کے لیے نکالیں گے۔ بچی کندھے جھکا کر جسم سمیٹ سمیٹ کر رہنے لگتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں ایک خوف اتر آتا۔ خوف ان کی نفسیات سے جسم تک در آتا ہے، پھر وہ جسمانی صحت مند ہو پاتی ہے نہ نفسیاتی۔

ایسی بچی کا پہلا علاج تو اعتماد ہے۔ ماں کا اعتماد جو خود اس سے ایسے کسی موضوع پہ بات نہیں کرتی اور اس کو ہر پل مشکوک نگاہوں سے دیکھتی رہتی ہے کہ کیسے بیٹھی ہے، کیسے کھڑی ہے، کیسے دیکھ رہی ہے، کیسے بات کر رہی ہے وغیرہ۔ ماں زمانہ بلوغت میں بیٹے پر ایسے نگاہ نہیں رکھتی۔ اس لیے بہن بھائی کے تضاد کا ایک لا شعوری ڈپریشن بھی اس میں سرایت کرتا ہے جو کسی کو دکھائی دیتا ہے نہ سنائی دیتا ہے۔

یہ اگر نفسیاتی مرض بھی ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ متوسط اور اس سے نچلے طبقے میں اس کے مریضوں تعداد کثیر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جو مجھے کیس ہسٹریز کے دوران بھی سمجھ آ رہی تھی ڈپریشن ہے، ایک ان دیکھا خوف ہے، ایک جسمانی تبدیلی کو مثبت طور پہ قبول نہ کرنے کی حقیقت ہے۔ گویا بات اتنی سی ہے بستر پر عورت چاہیے مگر عورت کے عورت بننے کا عمل ہمارے لیے تاحال باعث شرم ہی نہیں بلکہ مترادف گناہ بھی ہے۔

جسمانی صفائی کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحبہ نے اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ ہم مخصوص دنوں میں جسمانی صفائی کو بیماری سمجھتے ہوئے بیماری مول لے لیتے ہیں۔ شرم کی ایک اعلیٰ ترین قسم یہ بھی ہے کہ بچیوں کو ہم ان کے جسمانی اعضاء کی صفائی کا درس نہیں دیتے حالانکہ چھوٹی بچیوں کا خود صاف ستھرا رکھنا بھی اہم ہوتا ہے۔ وہ کچھ بتا سکتی ہیں نہ سمجھا سکتی ہیں، چھوٹی بچیاں یہ جراثیم بعض اوقات خود صاف نہیں کر پاتیں کیونکہ وہ بھی کسی نفسیاتی گناہ کے احساس کا شکار رہتی ہیں اور جراثیم سے جب بات بگڑ جاتی ہے تو انہیں ماں کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

میں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں میں بھی اس متھ کو پروان چڑھتے دیکھا ہے مگر آپ یقین کیجیے اس متھ نے جراثیم کا ایک انبار جو باہر نکلنا چاہیے تھا، اسے اندر دھکیل کر ان کو مرض میں بدل دیا کیونکہ جب سات دن آپ نہاتے دھوتے نہیں، پانی کا استعمال نہیں کرتے تو خود سوچ سکتے ہیں جلد کا کیا حال ہو گا اور ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ بہت نازک ترین جلد ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ نے سمجھانے کے لیے نزلہ، آنکھ کا پانی، آنسو، آشوب کی مثالیں اتنی عمدہ اور عام فہم دی ہیں کہ ان پہ پیار آ گیا۔ قبول کیجیے۔ ایک اہم بات جو اس پروجیکٹ سے میں نے مشاہدہ کی وہ یہ کہ وٹامن سی اور ڈی کی کمی سے یہ دونوں نظام متاثر ہوتے ہیں۔ حکیم جی سے ملنے سے بہتر ہے وٹامن سی لینا شروع کر دیں۔

امید ہے ”شرکت گاہ“ کے لیے مرتب کی گئی یہ کتاب ”آگہی کے جگنو“ جلد منظر عام پہ آ جائے گی، باقی باتیں ہم تب کریں گے۔

اسی بارے میں: لیکوریا کوئی بیماری نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).