کاش یہ دہشت گردی بھی ٹویٹر پر ہی ہوجاتی


2019 کا ایک منظر ہے اور یہ ایک غیر مسلم ملک کا منظر ہے۔ جہاں کرائسٹ چرچ مسجد میں ایک خاص گروہ سے تعلق رکھنے والے گورے نے 51 مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے اسے ”نیوزی لینڈ کے کالے دن“ کے نام سے منسوب کیا۔ وہاں کی حکومت نے ”رائل کمیشن“ کے نام سے اپنی سیکورٹی ایجنسیز کو متحرک کیا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ جیسنڈا آرڈن نے یہ بھی بتایا کہ جو بھی نیوزی لینڈ کو اپنا گھر کہتا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ کس نسل، مذہب اور جنس سے تعلق رکھتا ہے، اس کے لیے شہریوں کے تمام حقوق یکساں ہیں۔

ایک اور منظر ہے، جنوری کے یخ بستہ جاڑوں کے دن ہیں، سال ہے 2013 کا، کوئٹہ کی منجمد کر دینے والی سردی میں ہزارہ برادری اپنے پیاروں کے لاشے لیے کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے۔ اس وقت وہاں 86 لوگ بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ وہ اپنے مطالبات پر احتجاج کر رہے تھے کہ جب تک حاکم وقت آصف زرداری نہیں آئیں گے ہم یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ ان دنوں میں موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب اپوزیشن لیڈر تھے اور عوام کے لیے درد ان کے دل میں دھڑکن کی طرح دھڑکتا تھا۔

وہ گئے اور ان کے زخموں پر پھاہا رکھا، اس وقت کی حکومت کو برا بھلا بھی کہا۔ آصف زرداری کو اس سانحے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ آخر تیسرے دن آصف علی زرداری کو جانا ہی پڑا، احتجاج اور دھرنا ختم ہو گیا اور ہزارہ والوں نے اپنے پیاروں کو دفنا دیا۔ لیکن ہوا کیا؟ وہ مطالبات جو بظاہر مان لیے گئے تھے شاید وہ اسی طرح بند فائلوں کے ڈھیر کے نیچے دبے رہ گئے۔ وہ مطالبات جو ہمیشہ عوام کو لالی پاپ کی صورت میں چوسنے کے لیے دے دیے جاتے ہیں۔ اگر ان مطالبات پر عمل درآمد ہوا ہوتا تو ایسے واقعات پیش نہ آتے۔ اگر فوری انصاف کا نظام وطن عزیز میں قائم ہوا ہوتا تو ظلم کی سیاہ راتوں کے چاند کبھی کے بجھ گئے ہوتے۔

کورونا وائرس کے باعث ایک طویل صبر آزما سال گزرنے کے بعد نئے سال کا سورج طلوع ہوا۔ لگتا تھا یہ سال دامن میں خوشیاں لیے آئے گا۔ پرانے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا مگر پھر وہی درد کی بھری شام ہے، پھر وہی خبریں ہیں، پھر وہی کچھ ہے، پھر وہی ہزارہ برادری، پھر وہی لاشے، پھر وہی آہ و زاری، پھر وہی چھلنی دل، پھر وہی دھماکے، پھر وہی چھریاں چاقو اور وہی قتل عام۔

ہماری سیاست کی دنیا اپنے اپنے مفادات کی منطق پر مبنی ہے لیکن جب یہ مفادات سادہ لوح عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے، دنیا ان پر نہ صرف ظلم کرتی ہے بلکہ قہقہے بھی لگاتی ہے۔ تب حاکم وقت کا رویہ اس جرنیل کی طرح ہو جاتا ہے جو اپنے عہدے کی طاقت کے نشے میں چور ہو کر اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے۔ کان کنی کے پیشے کے بارے میں یوں تو لوگ واقف ہی ہیں کہ کتنا خطرناک اور جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس پر ماضی میں بڑے بڑے مصوروں نے تصویر کشی کی، شاعروں نے شاعری کی لیکن پاکستان میں یہ پیشہ قریب قریب موت کے کنویں میں کام کرنے کے مترادف ہے۔

مچھ ایک چھوٹا قصبہ ہے
بولان ضلع میں بستا ہے
پتھریلی پہاڑیوں میں رہتا ہے
ہزارہ، بلوچی، کشمیری، پنجابی، ہندو مل کر رہتے ہیں
کوئی تو پوچھے کوئلے کی کان میں
محنت کرنے والے کان کنوں سے
ان کے کام کا مول برسوں کا ہے کتنا؟
وہ کہیں گے زور سے ”ایک کالی ظالم بے وقت موت“
ان کے جسموں پر کالے بھدے داغ
کوئلے کی کالک میں بس کر کندہ ہو چکے ہیں
تھکن اور چڑچڑاہٹ مزاج کا حصہ بن گیا
لیکن وہ پھر بھی دھیمے دھیمے ہیں
مگر اب بولان کی وادی اک بار پھر سے
بھر گئی ہے برف، دکھ اور لاشوں سے
زندہ لاشیں ماتم کناں ہیں تابوتوں کے ساتھ
کب آؤ گے میرے مسیحا! میرے دکھوں کو دھونے
میری وادیٔ بولان کی اور

عمران خان ٹویٹ کرتے ہیں کہ ہزارہ برادری اپنے پیاروں کو دفنا دیں، میں ضرور آؤں گا۔ سوال یہ ہے کہ ریاست کے ذمہ دار ہوتے ہوئے ان کی دل جوئی کرنے کے واسطے کیا انہیں وہاں نہیں جانا چاہیے؟ وہ مظلوم شہری اپنے جنازوں کے وارث مطالبہ کر رہے ہیں کہ مقتولوں کے قاتلوں کی نہ صرف شناخت کی جائے بلکہ انہیں سخت سزائیں دی جائیں۔ ہمارے ہاں انصاف کی فراہمی نہیں، ادارے اداروں سے ٹکراتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وفاقی وزرا سے ہزارہ برادری کے مذاکرات ناکام ہو گئے۔

لاشوں کے وارثوں کی طرف سے وزیراعظم کے آنے تک تدفین سے واضح انکار ہے۔ منفی 9 کی منجمد کر دینے والی سردی کے باوجود خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ ادھر مچھ متاثرین سے اظہار یک جہتی کے لیے لاہور، اسلام آباد، کراچی، حیدر آباد، ٹھٹہ، جیکب آباد، چکوال اور دیگر شہروں میں پر زور احتجاج جاری ہے۔ مظاہرین نے ہزارہ برادری کے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ بلاشبہ یہ دہشت گردی ملک میں افراتفری پھیلانے کا پیغام ہے۔

ہمیں جان لینا ہوگا کہ دشمن ایک بار پھر سے اپنی کمین گاہوں سے نکل آئے ہیں۔ شیعہ ہزارہ برادری کا کہنا ہے کہ انہیں فرقہ واریت کی بنا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہزارہ برادری انصاف دیکھنا چاہتی ہے۔ آخر ان کا قصور کیا تھا؟ وہ تو بس اپنی روزی روٹی کمانے والے سادہ لوح لوگ تھے۔ چھے بہنوں کا اکلوتا بھائی بھی دہشت گردی کا نشانہ بن گیا۔ وہ بہنیں کہتی ہیں ہم اپنے بھائیوں کے جنازے خود اٹھائیں گی۔ گیارہ خاندان اجڑ گئے۔

ہزارہ عورتیں بہت دلیر ہیں اور بار بار درخواست کر رہی ہیں کہ ہمیں ہمارا حق دلوایا جائے۔ ہزارہ عورتیں صابر اور بہت دھیمے مزاج کی عورتیں ہیں۔ اتنے کڑے دکھ کے بعد بھی نہایت شائستگی سے وزیراعظم کو بلا رہی ہیں۔ انہیں عورتوں کی پکار پر جلد وہاں جانا چاہیے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ ہزارہ برادری کا سانحہ اتنا دلدوز ہے کہ غم کا ترازو اٹھا لیں تو دونوں پلڑے برابر کے بھاری ہوں گے۔ برس بیت گئے اس دہشت گردی کے واقعات سے پاکستان کے ہر شعبۂ فکر کے لوگوں کو نمٹتے ہوئے لیکن عوام کا اعتماد ہمیشہ ٹوٹتا ہی رہا۔

کب تک محنت کش اور عام آدمی بے وجہ مرتا کٹتا رہے گا اور یہ نامعلوم افراد آخر کب تک نامعلوم ہی رہیں گے؟ انسانیت دشمنوں نے کوئلہ کان کنوں کو نہایت بے دردی سے قتل کیا۔ تھکے ماندے محنت کشوں کو سوتے میں جگایا، ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھیں اور تیز دھار چاقو سے انہیں جانوروں کی طرح ذبح کر دیا گیا۔ وہ مظالم جو مظلوم عوام نے نہیں ڈھائے، آخر وہ کب تک اس کا نشانہ بنتے رہیں گے؟ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کرے۔

بھلا کبھی اپنے محفوظ مکانوں میں بیٹھ کر بذریعہ ٹویٹر بھی غموں پر پھاہے رکھے جاتے ہیں۔ اے کاش! یہ دہشت گردی بھی صرف ٹویٹر پر ہی ہوجاتی۔ دارالحکومت میں ایک نوخیز نوجوان اسامہ ستی پولیس کی سفاکی کا نشانہ بنتا ہے۔ ابھی تو دل اس غم میں ہی سوگوار تھا کہ ہزارہ برادری پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ابھی ساہیوال کا سانحہ دلوں میں تازہ ہے۔ موٹروے کا دلخراش واقعہ بھی خاموشی کا لبادہ اوڑھ چکا۔ مگر وعدے اور دھرنے ہمیشہ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

اگر دشمن اپنے وار جاری رکھ سکتا ہے تو ہم اپنے نظام میں بہتری اور تیزی کیوں نہیں لا سکتے۔ ہم سب تو نبی کریم ﷺ کے ماننے والے ہیں۔ اہل بیت کے غلام ہیں تو کیسا سنی اور کیسا شیعہ اسلام تو رحمت کا دین ہے، امن اور محبت کا منبع ہے۔ اس وقت تقاضا یہ ہے کہ اہل اقتدار کو ان کے زخموں پر مرہم رکھنے جانا ہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).