وبا سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے سماجی دوری کے 432 سال پرانے قوانین


یہ 1582 کے نومبر کے وسط کی ایک سیاہ رات تھی۔ ایک کشتی ران سارڈینیا کے شہر الگیرہو کی بندرگاہ پر آیا اور آخری مرتبہ شہر کا نظارہ کیا۔

اس بدقسمت شخص کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بحیرہ روم کے پار 412 کلو میٹر دور مارسیلز سے آیا تھا۔ وہاں ایک سال سے وبا آئی ہوئی تھی اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ یہ وبا لایا تھا۔ اس کی کیفیت ہذیانی تھی اور اس کے گروئن (پیٹ اور ران کا درمیانی حصہ) میں سوجن تھی جو کہ بوبوز بیماری کی خاصیت بتائی جاتی تھی۔

اور کسی طرح وہ جہازی بندرگاہ پر ڈیوٹی پر موجود انسپکٹرز (جن کی ڈیوٹی تھی کہ کسی بھی ایسے شخص کو روکیں جس میں اس بیماری کی علامات ہوں) کی نظروں سے بچ کر شہر میں داخل ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد وہ مر گیا اور وہاں اس وبا کا آغاز ہوا۔

اس وقت تک الگیرہو کے بہت باشندے بیمار ہو چکے تھے۔ اس دور کے سرکاری ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے 18 ویں صدی کے ایک تاریخ داں نے اندازہ لگایا کہ وبائی مرض سے 6000 اموات ہوئیں اور صرف 150 لوگ زندہ بچے۔ کہا جاتا ہے کہ حقیقت میں اس بیماری سے شہر کی 60 فیصد آبادی ہلاک ہوئی۔ بڑی تعداد میں اجتماعی قبریں کھودی گئیں جو آج تک قائم ہیں۔ ان لمبی قبروں میں 30 کے قریب لوگوں کو ایک ساتھ دفنایا جاتا۔

تاہم، یہ صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہو سکتی تھی۔ آس پاس کے زیادہ تر اضلاع کسی طرح سے بچ گئے۔ غیر معمولی طور پر یہ بیماری الگیرہو میں ہی رہی اور آٹھ مہینوں میں ختم ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک شخص اور اس کے معاشرتی دوری کے دور اندیش تصور کی وجہ سے ہوا۔

اوسلو یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر اول بینیڈکٹو کہتے ہیں کہ ’اس مقامی قصبے میں اس طرح کے سمجھدار ڈاکٹر کا ملنا قدرے حیرت کی بات ہے۔ آپ پیسا اور فلورنس جیسے بڑے کمرشل شہروں میں تو توقع کر سکتے ہیں کہ اقدامات کو زیادہ سختی سے نافذ کیا جائے۔ لیکن وہ ڈاکٹر اپنے وقت سے آگے تھا۔ یہ کافی متاثر کن ہے۔‘

قرونِ وسطیٰ کا شہر الگیرہو اب ایک مشہور سیاحت کا مرکز ہے، لیکن 1582 میں یہ طاعون کا مرکز تھا
قرونِ وسطیٰ کا شہر الگیرہو اب ایک مشہور سیاحت کا مرکز ہے، لیکن 1582 میں یہ طاعون کا مرکز تھا

زندہ مرغیاں اور پیشاب

تاریخ کی سب سے زیادہ بدنام زمانہ طاعون کی بیماری یقیناً ’دی بلیک ڈیتھ‘ تھی، جو 1346 میں پورے یورپ اور ایشیا میں پھیلی، اس میں ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔

فلورنس میں اطالوی شاعر فرانسسکو پیٹرارکا نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ آنے والی نسلیں اس تباہی کے پیمانے کو سمجھ سکیں گی۔ وہ لکھتے ہیں: ’او خوش نصیب نسل، جو اس طرح کی بدبخت مصیبت کا سامنا نہیں کرے گی اور وہ ہماری گواہی کو ایک قصے کہانی کی حیثیت سے دیکھے گی۔‘

طاعون کے شکار افراد کی باقیات آج بھی ملتی ہیں جب ہم ان منصوبوں شروع کرتے ہیں جہاں سرنگیں کھودنا پڑیں، مثلاً لندن میں کراس ریل کا منصوبہ۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ صرف فارنگڈن سٹیشن کے نیچے سے 50 ہزار کے قریب لاشیں ملی تھیں۔

اگرچہ طاعون کی بیماری پھر کبھی اتنی تباہ کن نہیں بنی، پر یہ آنے والی صدیوں میں باقاعدہ طور پر آتی رہی۔ سنہ 1670 تک یہ مبینہ طور پر پیرس میں ہر تین سالوں میں سے ایک میں آتی تھی، جبکہ خیال ہے کہ 1563 میں اس نے لندن کی 24 فیصد آبادی کو ہلاک کیا تھا۔

یہ جدید سائنس سے پہلے کا ایک زمانہ تھا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ بیماریاں ’خراب ہوا‘ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور سب سے بہتر اینٹی سیپٹیک سرکے کو سمجھا جاتا تھا۔ طاعون کے علاج ایسے تھے کہ آپ کو نفرت ہو جائے جیسا کہ اپنے ہی پیشاب میں نہانا وغیرہ۔ گلٹی سے ’زہر‘ نکالنے کا ایک عام طریقہ یہ تھا کہ اسے زندہ مرغی کی پیٹھ کے آخری حصے سے رگڑا جائے۔

طاعون کا علم

جیسا کہ بینیڈکٹو اور ان کے ساتھی مصنفین بتایا ہے کہ خود الگیرہو بھی ایسا شہر نہیں تھا جسے وبا کے لیے تیار کہا جا سکے۔ شہر میں گندے پانی کی نکاسی کا نظام برا تھا، بہت کم طبیب تھے اور وہ بھی بہت کم تربیت یافتہ اور ایک ’پسماندہ‘ طبّی کلچر۔

اور پھر وہاں اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ کوئنٹو ٹائبیریو انجلیریو آئے۔ انھوں نے بیرون ملک اس لیے تربیت حاصل کی تھی کیوں کہ اس وقت سارڈینیا میں کوئی یونیورسٹی نہیں تھیں۔ یہ الگیرہو کے باسیوں کی خوش قسمتی تھی کہ وہ سسلی سے ہو کر آئے تھے جہاں 1575 میں طاعون کی وبا پھیلی تھی۔

الگیرہو کے پہلے مریض کو گلٹیاں تھیں اور اس کے بعد دو خواتین ہلاک ہوئیں جن کے جسموں پر مخصوص زخم تھے، جو کہ اس بیماری کی ایک اور خصوصیت ہے۔ انجیلیریو کو فوراً سمجھ آ گیا کہ مسئلہ کیا ہے۔ پہلی سوچ جو انھیں آئی وہ مریضوں کو قرنطینہ کرنے کی اجازت طلب کرنا تھی۔ لیکن انھیں بار بار انکار سننا پڑا۔ پہلے تذبذب کا شکار مجسٹریٹوں سے اور پھر سینیٹ سے جس نے ان کی رپورٹ کو مسترد کر دیا اور ان کے خدشات کو بھی رد کر دیا۔

انجلریو مایوس ہو گئے۔ بینیڈکٹو کہتے ہیں کہ ’ان میں حوصلہ یا ہمت تھی کہ وہ وائسرائے سے رجوع کریں۔‘ ان کی مرضی سے انھوں نے شہری دیواروں کے گرد تین تہوں پر مشتمل سکیورٹی کا حصار بنایا تاکہ باہر کے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی تجارت کو روکا جاسکے۔

شروع شروع میں تو یہ اقدامات انتہائی غیر مقبول رہے اور لوگ انھیں مار مار کر ہلاک کر دینا چاہتے تھے۔ لیکن جب زیادہ لوگوں کی اموات ہوئیں تو ان کو سمجھ آئی اور انجلریو کو کہا گیا کہ وہ وبا کو روکنے کے لیے کچھ کریں۔ کئی سال بعد انھوں نے ایک کتابچہ شائع کیا جس میں انھوں نے شہر پر لگائے گئے 57 قواعد کی تفصیل دی۔ یہ کچھ اس طرح سے تھی:

وبا شہروں میں تیزی سے پھیلتی جو یا تو پسووں، انفیکٹڈ حصوں، اور ہوا میں قطروں کے ذریعے پھیلتی۔
وبا شہروں میں تیزی سے پھیلتی جو یا تو پسووں، انفیکٹڈ حصوں، اور ہوا میں قطروں کے ذریعے پھیلتی۔

لاک ڈاؤن

پہلے شہریوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے گھر نہ چھوڑیں، یا ایک سے دوسرے گھر نہ منتقل ہوں۔ انھی خطوط پر انجیلریو نے تمام مجالس، ڈانس اور تفریحی کاموں سے بھی منع کیا اور یہ شرط رکھی کہ ہر گھر سے صرف ایک شخص خریداری کرنے کے لیے نکلے گا، یہ وہ تنبیہہ ہے جسے آج کل وبائی بیماری کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں میں پھنسے سبھی لوگ واقف ہوں گے۔

لاک ڈاؤن صرف الگیرہو کے لیے ہی نہیں تھا۔

یونیورسٹی آف لندن کے بربیک کالج کے اطالوی ریناساں تاریخ کے پروفیسر جان ہینڈرسن کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر فلورنس میں انھوں نے 1631 کے موسم بہار میں شہر کو مکمل قرنطینہ کر دیا اور اس وقت بھی آج کل کی طرح قوانین توڑنا عام معمول تھا۔‘

ہینڈرسن کہتے ہیں کہ ’1630 کے موسم گرما سے لے کر 1631 کے موسم گرما تک میں نے تقریباً 550 مختلف کیسز دیکھے جن میں لوگوں پر صحت عامہ کے ضوابط کی مختلف خلاف ورزیوں کے حوالے سے مقدمہ چلایا گیا تھا۔‘ اس دوران اکثر اوقات شہر میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں تھا، لیکن لوگوں سے توقع کی جارہی تھی کہ اگر ان کے گھر کے کسی فرد کو طاعون ہونے کا شبہ ہو اور اسے ہسپتال لے جایا جائے تو وہ 40 دن تک خود کو قرنطینہ کر لیں۔ یہیں سے لفظ ’قرنطین‘ آیا۔ قوارانٹا گیورنی۔ جس کا اطالوی زبان میں مطلب ہے 40 دن۔

ہنڈرسن کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے کہ لوگ بے چین ہو گئے۔‘ سمارٹ فونز، سٹریمنگ سروسز اور سستی کتابوں کے دور سے پہلے بھی لوگوں نے گھروں میں بند رہنے سے ہونے والی بوریت کو مٹانے کے لیے طریقے نکالے۔

عدالتی مقدمات کے مطابق کبھی کبھی لوگ صرف بدقسمتی کا شکار ہو جاتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک مقدمہ ایسا بھی تھا جس میں ایک عورت کو صرف اس لیے جیل کا منھ دیکھنا پڑا کیونکہ جب وہ اپنی ایک مرغی کو گھر کے دروازے کے سامنے سے پکڑ کر واپس آ رہی تھی تو اسے ہیلتھ بورڈ کے ایک رکن نے دیکھ لیا اور طاعون کے ضوابط کو توڑنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ وہ جیل تو گئی لیکن پھر انسانی بنیادوں پر اسے جلد رہا کر دیا گیا۔

ایک اور مقدمے میں ایک عورت نے جس کا بیٹا نیچے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا، ایک ٹوکری لٹکائی جس میں اس نے اپنی جرابوں کا جوڑا ڈالا جو وہ چاہتا تھا کہ اس کی ماں انھیں سی دے۔ پھر اس نے اسے اوپر کھینچ لیا۔ ہینڈرسن کہتے ہیں کہ ’ہیلتھ بورڈ کے ایک افسر نے انھیں دیکھ لیا کہ وہ کیا کر رہی تھیں اور انھیں جیل بھیج دیا۔‘

لیکن کئی لوگوں نے واقعی قابلِ سزا جرم کیے تھے۔

ہینڈرسن کہتے ہیں کہ ’کئی لوگ ایک دوسرے سے متصل گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور دوستوں کے ساتھ مل کر گٹار بجایا اور اکٹھے شراب پی، دوبارہ انھوں نے وبا کے وہ قواعد توڑے جو مختلف گھروں کے افراد کو ملنے سے منع کرتے ہیں۔‘

جسمانی دوری

اس کے بعد چھ فٹ کا قانون آیا، جس میں انجلیریو نے ہدایت دی تھی کہ ’جن لوگوں کو باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے، ضروری ہے اور وہ اپنے ساتھ ایک چھ فٹ لمبی چھڑی رکھیں۔ یہ لازمی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے اتنا فاصلہ برقرار رکھیں۔‘

یہاں انجلیریو واقعی سماجی دوری کے ایک ماہر کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ کئی ماہرین کو اس کا پتہ بھی نہیں تھا۔ اور اس کے باوجود جب کووڈ 19 کی وبائی بیماری کا آغاز ہو تو دنیا بھر کے بہت سارے ممالک نے غیر معمولی طور پر تقریباً یہی پالیسی اپنائی، جس میں کہا گیا ہے کہ لوگ جہاں بھی ممکن ہو دو میٹر (6.6 فٹ) کا فاصلہ رکھیں۔

اس کے بعد برطانیہ، فرانس، سنگاپور، جنوبی کوریا اور جرمنی سمیت متعدد مقامات پر کم سے کم فاصلے کو کم کرکے ایک یا ڈیڑھ میٹر کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ 16 ویں صدی کی پالیسی سائنس کی درست سمت میں تھی: ایک تحقیق کے مطابق دو میٹر کے فاصلے کے مقابلے میں ایک میٹر سے کورونا وائرس کی منتقلی کا خطرہ 10 گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔

انجلیریو نے مزید کہا کہ خوراک بیچنے والی دکانوں کے کاؤنٹرز پر بڑی بڑی ریلز لگا دی جائیں تاکہ لوگ فاصلہ برقرار رکھیں۔ انھوں نے یہ تجویز دی کہ گرجا گھروں میں دعا کے دوران لوگوں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے پرہیز کریں۔

بینیڈکٹو کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں وہ وبائی مرض کے حوالے سے اپنے عہد کے دوسرے ڈاکٹروں سے زیادہ ’گول اورینٹڈ (مقاصد کے حصول پر توجہ دینے والے) تھے۔‘

Many countries now require people to keep two metres apart at all times - roughly the same as that recommended in 16th-Century Sardinia (Credit: Jamie Lawton/Getty Images)

اپنی شاپنگ کو دھونا

ریناسان کو کلاسیکی فلسفہ، ادب اور خاص طور پر آرٹ کے سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جب مائیکل انجیلو، ڈونیٹیلو، رافیل اور لیونارڈو (ڈا ونچی) نے اپنی قدرتی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے شعبے کو بدل کے رکھ دیا تھا۔ لیکن یہ ہماری سائنسی تفہیم کے آگے بڑھنے میں بھی ایک بڑا کارآمد دور تھا۔

یہ وہ دور تھا جب ماہر طبیعیات نکولس کوپرنیکس نے دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے گرد، اور ڈاونچی نے پیراشوٹس، ہیلی کاپٹرز، بکتر بند گاڑیاں اور ابتدائی روبوٹ بنانے کے منصوبے تیار کیے تھے۔ پھر 1500 کے آس پاس، سرکردہ مفکرین نے اس خیال پر کام شروع کیا کہ بیماریاں ’خراب ہوا‘ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، تاکہ اس امکان کو شامل کیا جائے کہ لوگ بدبودار ہوا یا بخارات سے آلودہ اشیا کو چھونے سے بیمار ہو سکتے ہیں۔

بینیڈکٹو کا کہنا ہے کہ ’میں نشاۃ ثانیہ کی ترقی اور 16 ویں صدی میں لوگوں کے بارے میں مزید جاننے کی صلاحیت کے درمیان ایک تعلق دیکھتا ہوں۔ انجیلیریو سمجھ گیا تھا کہ یہ رابطے اور تعلق سے پھیلی تھی۔‘ اس کی ایک مثال اس کا یہ کہنا تھا کہ مالک مکان اپنے گھروں کو ڈس انفیکٹ کریں، قلعی کریں، ہوا دار بنائیں اور ’پانی‘ دیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو بھی چیزیں قیمتی نہیں، انھیں جلا دینا چاہیے، جبکہ مہنگے فرنیچر کو دھویا جائے، ہوا میں رکھا جایے یا اس کی بجائے تندور میں ڈس انفیکٹ (جراثیم سے پاک) کیا جا سکتا ہے۔

اس وقت یہ عام بات تھی کہ سامان کے اپنی منزل پر پہنچتے ہی اسے پہلے ڈس انفیکٹ کیا جاتا تھا خاص طور پر جہازوں کے ذریعے آنے والے سامان کو۔ لیڈز یونیورسٹی کی ابتدائی جدید یورپ کی معاشرتی اور ثقافتی مورخ الیکس بامجی کہتی ہیں کہ جس چیز میں ان کے خیال میں سب سے زیادہ خطرہ تھا وہ ٹیکسٹائل تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن ہر طرح کی چیزیں ڈس انفیکٹ کی جاتی تھیں جن میں خطوط بھی شامل تھے۔ بعض اوقات یہ اپنے پیچھے نشانات چھوڑ جاتے تھے جن میں سے کچھ آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ’اگر دھوئیں اور آگ کو جراثیم کشی کے لیے استعمال کیا گیا تو آپ کو اب بھی یہاں اور وہاں عجیب سے نشان مل سکتے ہیں۔‘

ہیلتھ پاسپورٹ

طاعون کو پھیلنے سے روکنے کا ایک مقبول طریقہ یہ تھا کہ جو بھی شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا پہلے اس کی صحت کا احتیاط سے جائزہ لیا جائے۔ اگرچہ یہ نظام الگیرہو میں تو ناکام رہا، جہاں 1582 میں ’پیشنٹ زیرو‘ گارڈز کے نوٹس میں آئے بغیر نکل گیا تھا لیکن باقی یورپ میں اس وقت بھی یہ طریقہ رائج تھا۔

کچھ کیسز میں حکام نے دستاویزات جاری کر رکھی تھیں، جن کی وجہ سے وہ شخص جس کے پاس یہ دستاویزات موجود ہوتیں وہ پابندیوں کے باوجود دروازے سے نکل سکتا تھا، یا تو اس لیے کہ انھیں طاعون سے پاک ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا تھا یا وہ اثر و رسوخ والے لوگوں کو جانتے تھے۔

یونیورسٹی آف سٹرلنگ میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر فلپ سلاون کہتے ہیں کہ ’لہذا اگر آپ مسافر ہیں اور آپ ایک شہر سے دوسرے شہر میں کاروبار کے لیے جا رہے ہیں یا پھر آپ کے شہر میں طاعون ہے یا آپ طاعون والے شہر میں جا رہے ہیں تو آپ کو صحت کے پاسپورٹ کی ضرورت ہوگی۔‘

جب کووڈ 19 کی عالمی وبا پھیلنا شروع ہوئی تو ’ہیلتھ پاسپورٹ‘ کا تصور دوبارہ متعارف کرایا کیا گیا۔ حال ہی میں لندن، نیویارک، ہانگ کانگ اور سنگاپور سمیت متعدد بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر ’کامن پاس‘ کا تجربہ کیا جا رہا ہے، یہ ایک ڈیجیٹل دستاویز ہے جو صارف کے ٹیسٹ کے نتائج اور ویکسینیشن کے ریکارڈ دکھاتا ہے۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ ان کے انفیکشن کے سٹیٹس کے متعلق بتا کر بین الاقوامی سفر کو زیادہ محفوظ اور موثر بنایا جائے۔

ماہرینِ آثار قدیمہ کو کراس ریل کی سائٹ پہ ملنے والے ڈھانچوں سے 660 سالہ پرانا بیکٹیریا ملا تھا
ماہرینِ آثار قدیمہ کو کراس ریل کی سائٹ پہ ملنے والے ڈھانچوں سے 660 سالہ پرانا بیکٹیریا ملا تھا

قرنطینہ

اٹلی وہ پہلا ملک ہے جس نے ان افراد کو تنہا رہنے یا قرنطینہ کرنے کی ابتدا کی جن کے بارے میں طاعون سے متاثر ہونے کا شبہ ہوتا تھا۔

طاعون کے مریضوں کا پہلا ہسپتال جسے لازاریٹو کہا جاتا ہے کو سنہ 1423 میں وینس میں قائم کیا گیا تھا۔ پھر جلد ہی جو فعال مریض تھے انھیں ان مریضوں سے الگ کیا گیا جو یا تو صحت یاب ہو رہے تھے یا پھر وہ جن میں وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی تھی یا وہ جن کا طاعون کا شکار ہوجانے والوں سے براہ راست یا قریبی رابطہ رہا تھا اور وہ سماجی تنہائی اختیار کیے ہوئے تھے۔

سنہ 1576 تک شہر میں 8000 پرانے اور 10 ہزار مزید مریض آ چکے تھے۔

پھر طاعون کے مریضوں کے لیے بننے والا یہ ہسپتال ایک ماڈل اور مثال بن گیا کہ کیسے مرض پر قابو پانا ہے۔ یہ مثالیں پورے اٹلی میں پھیل گئیں۔ اس میں سارڈینیا بھی شامل ہے جہاں یہ نصف ہسپتال اور نصف جیل میں جیسی صورتحال میں رہتے تھے۔ عموماً وہاں قرنطینہ کی سہولیات لازم تھیں۔ اور کبھی کبھار تو مریض کو براہ راست ہی شہر میں طاعون کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہاں لے جایا جاتا تھا۔

ابام جی کا کہنا ہے کہ انھیں مثبت انداز میں نہیں دیکھا جاتا تھا لوگ انھیں ’جہنم جیسا‘ کہتے تھے۔ وہ حقیقت میں کیسے تھے اس سے قطع نظر یہ شاید اس سوچ کا ردعمل تھا جو ان کے اردگرد پھیلی ہوئی تھی۔

بام جی کے مطابق ان پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا تھا۔ اور ان کے پاس مثالیں ہیں کہ خوراک بہت اچھی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ان ہسپتالوں( لازاریٹوز) میں رہنے والے نصف افراد مر گئے تھے لیکن ہاں باقی نصف تک گھر جا پائے تھے۔ اور یہ وہاں ہونے والی ہلاکتوں کا وہ تناسب تھا جس کا موازنہ باقی ماندہ آبادی سے کیا جا سکتا تھا جو قرنطینہ کی سہولت میں نہیں رہ رہی تھے۔

اینگلیریو میں موجود ہسپتال بہت منظم تھے۔ وہاں طاعون کی وبا پر کنٹرول کرنے کے لیے نگرانی کرنے والوں کا یہ کام تھا کہ وہ ہر چیز کا ٹریک ریکارڈ رکھیں گے جو ان اداروں میں لائی گئی یا وہاں سے باہر لے جائی گئی۔ مثلاً بستر، فرنیچر اور خوراک۔

یہاں معاشرے کے نادار افراد سے علاج معالجے کی فیس نہیں لی جاتی تھی۔

کبھی کبھی مریضوں کو ان کے گھروں سے لایا جاتا تھا اور چھوٹے بچوں کو جن کے والدین نھیں ہوتے تھے انھیں دودھ فراہم کیا جاتا تھا اور وہ اس چار دیواری کے اندر بغیر رکاوٹ کے گھوم پھر سکتے تھے۔

The Lazzaretto Nuovo was built on an island next to Venice in 1468, as a place to quarantine incoming ships and cargo (Credit: Alamy) (Credit: AlFA Visuals/Alamy)

مری ہوئی بلیاں

16ویںصدی میں وباؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور جس طرح سے آج ہم ان سے واقف ہیں، اس کے مابین تمام مماثل اقدامات کے باوجود، کچھ اہم اختلافات موجود ہیں۔

رینساس سارڈینیا میں توہم پرستی اور مذہب انجلیریو کے وبائی منصوبوں کا اہم عنصر تھے۔

ان کی جانب سے نے عوام کو بتایا گیا کہ طاعون خدا کا عذاب ہے، انھوں نے لوگوں کو خبرار کیا کہ وہ بہترین اخلاقی رویہ اپنائیں۔

ان کی کچھ ہدایات صرف غیر موثر ہی نہیں سمجھ سے بالاتر بھی تھیں۔

اس کی ایک مثال یہ تھی کہ ٹرکی اور بلی کو مار کر سمندر میں پھینک دیں۔ یہ حیران کن طور پر وبا پر ایک عام ردعمل تھا۔

مصنف ڈینئیل ڈیفوئی کہتے ہیں کہ سنہ 1665 میں لندن میں آنے والے طاعون کے دوران لندن کے میئر نے وہاں 40 ہزار کتوں اور دو لاکھ بلیوں کو مارنے کا حکم دیا تھا۔ کتوں کو مارنے کے لیے خصوصی افراد کو بھرتی کیا گیا۔

لیکن اتنے بڑے پیمانے پر کتوں کو مارے جانے کا شاید الٹا اثر ہوا ہو۔ چوہے طاعون کی وجہ سمجھے جاتے ہیں کچھ شہروں میں چوہوں کو بھی براہ راست مارا گیا تاہم ایگلیریو کی یاداشتوں میں اس کا ذکر نہیں ہے۔

بہت تیزی سے آگے بڑھیں تو آج اگرچہ اس بات کے سخت شواہد موجود ہیں کہ کتے اور بلیاں بھی کورونا سے متاثر ہو سکتی ہیں تاہم یہ پالتو جانور آج بھی اتنے ہی عزیز ہیں۔ ان کی فلاح کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں پالتو جانوروں کے حصول میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ آسٹریلیا میں ایسے ہی ایک ادارے آر ایس پی سی اے کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے شروع ہونے سے اب تک انھیں اس قسم کی 20 ہزار درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔

بینیڈکٹو کے خیال میں طاعون اور کووڈ 19 کے درمیان موازنے کو کچھ شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ طاعون کی وبا زیادہ بدتر تھی اور اس میں ناقابل فہم تعداد میں اموات ہوئی تھیں۔

تو پھر الغیرو کے مکینوں کے ساتھ کیا ہوا۔ وہاں وبا آٹھ ماہ تک رہی اور پھر 60 برس تک وہاں طاعون نہیں آیا۔ لیکن جب ایسا ہوا تو سب سے پہلے انھوں نے انجیلریو کے دستور کی طرف رجوع کیا۔

1652 کی وبا کے دوران پرومیڈیکس نے خط کے بارے میں ان کی ہدایات پر عمل کیا، جس میں قرنطین، تنہائی، سامان اور مکانات کی تلفی اور شہر کے چاروں طرف سینیٹری کا حصار قائم کیا گیا تھا۔

تقریباً ساڑھے چار صدی پہلے الغیرو پہنچنے والے ایک بدقسمت ملاح نے شاید وبا کو پھیلایا لیکن اس نے کچھ اور بھی کیا تھا۔ اور وہ تھی اپنے وقت کے بعد آنے والوں کے لیے حفظان صحت اور سماجی دوری کی جامع گائیڈ لائن۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp