صدر ٹرمپ کے جاتے ہی شمالی کوریا اپنی پرانی بیان بازی پر واپس، امریکہ کو سب سے بڑا دشمن قرار دیا


کم جونگ ان
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے کہا ہے کہ امریکہ ان کے ملک کا 'سب سے بڑا دشمن' ہے اور انھیں یہ توقع نہیں کہ پیانگ یانگ کے بارے میں واشنگٹن اپنی پالیسی تبدیل کرے گا، خواہ کوئی بھی صدر ہو۔

شمالی کوریا کے رہنما نے اپنی حکمراں ورکرز پارٹی کی شاذ و نادر منعقد ہونے والی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے اسلحہ خانے اور فوجی صلاحیت کو بڑھانے کا بھی عہد کیا۔

انھوں نے کہا کہ ان کے جوہری آبدوز کے منصوبے تقریبا مکمل ہوچکے ہیں۔

ان کے تبصرے اس وقت سامنے آئے ہیں جب نو منتخب صدر جو بائیڈن امریکہ میں اقتدار سنبھالنے کی تیاری میں ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسٹر کِم کے ریمارکس آنے والی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہیں۔ مسٹر بائیڈن 20 جنوری کو صدارت کا حلف لیں گے اور اسی دن سے ان کی صدرات کا دور شروع ہوگا۔

مسٹر کِم کے سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ گرم جوش تعلقات تھے حالانکہ کے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے بارے میں بات چیت پر کوئی ٹھوس پیشرفت نہ ہوسکی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

صدر ٹرمپ شمالی کوریا کی سرحد عبور کر گئے

ٹرمپ کی شمالی کوریا کے سربراہ کو ملاقات کی دعوت

ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان کی تاریخی ملاقات

اپنی تاریخ کی آٹھویں کانگریس میں ورکرز پارٹی سے اپنے تازہ خطاب میں کم جونگ ان نے کہا کہ پیانگ یانگ اپنے جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا جب تک کہ ‘دشمن قوتیں’ انھیں شمالی کوریا کے خلاف پہلے استعمال کرنے کا ارادہ نہ کریں۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی کے سی این اے کی خبر کے مطابق انھوں نے کہا کہ امریکہ ‘ہمارے انقلاب کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارا سب سے بڑا دشمن۔۔۔ خواہ کوئی بھی اقتدار میں ہو، شمالی کوریا کے خلاف اس کی پالیسی کی اصل نوعیت کبھی نہیں بدلے گی۔’

ان کی تقریر میں مطلوبہ ہتھیاروں کی ایک فہرست کا خاکہ بھی پیش کیا گیا جس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل شامل ہیں جو زمین یا سمندر سے لانچ کیے جا سکیں اور اس کے علاوہ ‘انتہائی بڑے ہتھیار’ بھی شامل ہیں۔

سخت اقتصادی پابندیوں کے باوجود شمالی کوریا اپنے اسلحہ خانے میں نمایاں طور پر اضافہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

رواں ہفتے کے شروع میں مسٹر کِم نے اعتراف کیا کہ ایک الگ تھلگ پڑجانے والے ملک کے لیے ان کا پانچ سالہ معاشی منصوبہ ‘تقریبا ہر شعبے’ میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

شمالی کوریا نے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گذشتہ جنوری میں اپنی سرحدیں بند کردیں حالانکہ اس کا دعوی رہا ہے کہ ان کے یہاں کورونا کا کوئی کیس نہیں تھا۔

اپنے پڑوسی اور اتحادی ملک چین کے ساتھ اس کی تجارت میں تقریبا 80 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ طوفان اور سیلاب نے شمالی کوریا میں مکانات اور فصلوں کو تباہ کردیا ہے۔ شمالی کوریا اپنے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے سخت بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہے۔

ٹرمپ اور کم

کم اور ٹرمپ کی نزدیکیاں

صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما سے تاریخی ملاقاتیں کیں اور ان کے ساتھ دوستانہ انداز میں پیش آئے لیکن اس سے قبل دونوں ایک دوسرے پر فقرے کستے رہے تھے۔

سنہ 2017 کے اخیر میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کی جانب سے انھیں ‘بوڑھا’ کہنے کہ جواب میں کہا تھا کہ انھوں نے تو کبھی کم جونگ کو ‘پست قد اور موٹا’ نہیں کہا۔

صدر ٹرمپ نے اپنی اشیا کے دورے پر ویتنام میں کہا تھا کہ انھوں نے کِم جونگ اُن سے دوستی کرنے کی بہت کوشش کی اور شاید یہ کسی روز ہو بھی جائے لیکن ایسا کب ہو گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اس دورے سے قبل شمالی کوریا کی وزارتِ خارجہ نے امریکی صدر کو ایک مرتبہ پھر ‘جنگجو’ اور ‘بدمزاج’ قرار دیتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے پر زور دیا تھا۔

اس کے بعد سنہ 2018 میں سنگاپور میں کم جونگ ان اور صدر ٹرمپ کے درمیان ملاقات ہوئی جو کسی بھی امریکی صدر سے شمالی کوریا کے کسی رہنما کے درمیان پہلی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات اگرچہ بہت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی تاہم یہ تاریخی نوعیت کی تھی اور اس کے بعد پھر دونوں رہنما سنہ 2019 میں ہنوئی میں ملے۔

اس کے بعد جون میں ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی اور جنوبی کوریا کے بارڈر پر سخت سکیورٹی والے علاقے میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے تاریخی مصافحہ کیا۔

اس موقعے پر دونوں رہنماؤوں نے جوہری مذاکرات شروع کرنے کے لیے ٹیم بنانے پر اتفاق کیا تھا۔

سنہ 2018 میں دونوں رہنماؤں کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے سنگاپور میں ہونے والے اجلاس کا دوسرا دور شمالی کوریا کی رضامندی کے بغیر ہی ختم ہو گیا تھا لیکن صدر ٹرمپ نے اسے ایک ‘برا معاہدہ’ قرار دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp