سانحہ مچھ میں ہلاک ہونے والے ہزارہ متاثرین کی نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی


کوئٹہ
بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برداری سے تعلق رکنے والے کان کنوں کی تدفین کی تمام تیاریاں مکمل کی گئی ہیں اور ان کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے۔

کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق نمازِ جنازہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

گذشتہ شب حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد مچھ میں ہلاک کیے جانے والے کان کنوں کی میتوں کو مغربی بائی پاس کے علاقے میں دھرنے کی جگہ سے ہزارہ ٹائون میں ولی عصر امام بارگاہ منتقل کیا گیا تھا۔

یاد رہے گذشتہ سنیچر بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلہ فیلڈ میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کم از کم 10 کان کنوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے میتوں سمیت کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے علاقے میں ایک احتجاجی دھرنا دیا جو شدید سردی میں چھ روز تک جاری رہا۔

یہ بھی پڑھیے

حکومت سے مذاکرات کامیاب، ہزارہ متاثرین کا دھرنا ختم کرنے اور لاشوں کی تدفین کا اعلان

’جناب وزیِرِ اعظم! تعزیت کرنے مت جائیں مگر لواحقین کا دل تو نہ دکھائیں‘

ہزارہ قتل: جے آئی ٹی کی تشکیل، دھرنے کے شرکا وزیراعظم کے منتظر

گذشتہ شب قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے دھرنے کے مقام پر گفتگو میں بتایا تھا کہ جیسے ہی مقتولین کی تدفین ہو گی وزیراعظم کوئٹہ کے لیے روانہ ہوں گے اور آرمی چیف بھی کوئٹہ جائیں گے اور لواحقین سے تعزیت کریں گے۔

اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا تھا کہ میتوں کی تدفین پر رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے اور اب وزیراعظم کوئٹہ جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف ابھی بحرین سے ملک واپس پہنچے ہیں وہ ابھی وزیراعظم کے ہمراہ جائیں گے یا نہیں انھیں معلوم نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ وزیراعظم آج یا کل کوئٹہ جائیں گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیر تو ہو گئی ہے لیکن اچھی بات ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو گیا ہے اور اس کا کریڈٹ دھرنا دینے والوں کو جاتا ہے۔

خیال رہے کہ دھرنے کے شرکا نے میتوں کی تدفین کو وزیر اعظم کی آمد سے مشروط کیا تھا تاہم گذشتہ شب مذاکرات کے نتیجے میں انھوں نے اس شرط میں نرمی کرتے ہوئے ان کی آمد سے پہلے ہی تدفین کا اعلان کیا تھا۔

مذاکرات کے بعد وفاقی وزیر علی زیدی نے میڈیا سے گفتگو میں ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہزارہ متاثرین کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ بات چیت میں مچھ واقعے کے حوالے سے جے آئی ٹیم کی تشکیل کا مطالبہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے ذمہ داران کا تعین کیے جانے کے مطالبے کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام فیصلے لوگوں کی مشاورت سے ہوں گے اور بلوچستان کے حوالے سے سکیورٹی پلان پر نظرثانی کی جائے گی۔

مچھ متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کوئٹہ اور دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک سمیت کراچی میں 20 سے زائد مقامات پر احتجاج اور دھرنے ختم کر دے گئے ہیں۔

عمران خان

’کسی بھی ملک کے وزیرِ اعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کرتے‘

اس سے قبل جمعے کی صبح پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اگر ہزارہ برادری مچھ میں قتل ہونے والے اپنے 11 افراد کی تدفین کر دیں تو وہ آج ہی کوئٹہ جائیں گے مگر ’بلیک میلنگ‘ میں نہیں آئیں گے۔

اسلام آباد میں سپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مچھ واقعے کے بعد انھوں نے فوراً وزیرِ داخلہ کو اور پھر دو وفاقی وزرا کو یہ بتانے کے لیے لواحقین کے پاس کوئٹہ بھیجا کہ حکومت پوری طرح ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا ’میں نے انھیں یقین دلایا کہ ہم لواحقین کا پوری طرح ان کا خیال رکھیں گے کیونکہ ان کے کمانے والے ہلاک ہوئے ہیں اور انھیں معاوضہ دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کل تک حکومت لواحقین کے سارے مطالبات مان چکی ہے، اب ان کا مطالبہ ہے کہ وزیرِاعظم آئیں تو دفنائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ہم نے انھیں یہ پیغام پہنچایا ہے کہ جب آپ کے سارے مطالبات مان لیے ہیں، تو یہ مطالبہ کرنا کہ ہم وزیرِ اعظم کے نہ آنے تک نہیں دفنائیں گے، تو کسی بھی ملک کے وزیرِ اعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کرتے۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ اس طرح ہوا تو کل کو ہر کوئی ملک کے وزیرِ اعظم کو بلیک میل کرے گا جس میں ان کے مطابق سب سے پہلے ملک کی اپوزیشن جماعتیں ہوں گی۔

’میں نے انھیں کہا ہے کہ جیسے ہی آپ انھیں دفنائیں گے تو میں کوئٹہ آؤں گا اور لواحقین سے ملوں گا۔ آج اس پلیٹ فارم سے دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ آج دفنائیں گے تو میں آج کوئٹہ جاؤں گا۔‘

عمران خان نے کہا کہ یہ مطالبہ ناقابلِ فہم ہے کہ وزیرِاعظم آئے گا تو دفنائیں گے۔

اگرچہ وزیر اعظم نے ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ وہ کئی سانحات کے بعد ان کے پاس گئے بھی ہیں اور انھوں نے ان کا خوف بھی دیکھا ہوا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں پر شاید سب سے زیادہ ظلم ہوا ہے، ان کو ٹارگٹ کیا گیا اور خاص طور پر 11 ستمبر کے بعد ان پر جس طرح ظلم کیا گیا، انھیں قتل کیا گیا، کسی اور کمیونٹی پر اس طرح کا ظلم نہیں ہوا۔‘

انھوں نے اس واقعے کو انڈیا کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سازش کے تحت ملک میں اہلِسنت اور اہلِ تشیع علما کو قتل کر کے ملک میں انتشار پھیلانے کا منصوبہ تھا، جس سے ان کے مطابق وہ مارچ میں ہی اپنی کابینہ کو خبردار کر چکے تھے۔

انھوں نے کہا کہ وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنھوں نے چار بڑے واقعات روکے مگر اس کے باوجود ایک بڑے سنی عالم کا کراچی میں قتل کیا گیا اور حکومت نے بڑی مشکل سے یہ فرقہ وارانہ تفریق کی آگ بجھائی۔

دھرنا

خواتین بھی اپنے بچوں سمیت بڑی تعداد میں دھرنے میں شریک ہیں

دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پچھلے چند مہینوں میں چار ایسے گروہ پکڑے ہیں جو شیعہ سنی فساد کروانے کے لیے دونوں مسالک کے علما کو قتل کرنا چاہتے تھے۔

’میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس المناک واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ان کے سارے مطالبے منظور کر کے میں نے وزیرِ اعظم کو رپورٹ جمع کروا دی تھی۔‘

شیخ رشید نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ سمجھ نہیں رہے کہ سیاست کے لیے بڑا وقت پڑا ہے۔‘

’آج ہمیں امید ہے کہ علما کرام، ان کے قبائلی افراد ان سے بات چیت کر رہے ہیں، جیسے یہ ’مسئلہ‘ طے ہو گیا وہ یہاں سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔‘

شیخ رشید نے کہا کہ عمران خان ہزارہ قبیلے سے ایک خاص ہمدردی رکھتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ عمران خان کے کوئٹہ جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تاہم وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ جائیں تو تدفین ہوچکی ہو تاکہ تمام باتیں تفصیل اور خوشدلی کے ساتھ مثبت طریقے کے ساتھ ہوں اور فیصلہ کُن اقدامات کیے جا سکیں۔

انھوں نے کہا کہ انھوں نے ایف سی کو پہلے ہی علاقے کی بڑے پیمانے پر تلاش کے لیے حکم دیا ہے تاکہ ان مجرموں کو سزا دی جا سکے جنھوں نے کان کنوں کو اور پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو چند عرصہ قبل ہلاک کیا۔

انھوں نے کہا تھا کہ اگر آج تدفین ہو جائے تو عمران خان آج شام کو ہی کوئٹہ جا سکتے ہیں۔

ہزارہ

ایک سوال پر انھوں نے کہا تھا کہ میتوں کو احترام کے لحاظ میں دیکھنا چاہیے اور ان کی تدفین کر دینی چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت نے اس حوالے سے تمام علما کرام، سکالرز اور مجلس وحدت المسلمین سے تعاون مانگا ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر موجود ہے اور اسلام آباد، لاہور، پشاور، اور کوئٹہ میں ہائی الرٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے ’را‘ کے ایجنٹ اور ان کے پے رول پر کام کرنے والوں کی طرف سے خطرات ہیں اور 20 مذہبی اور سیاسی افراد کی جانوں کو خطرہ ہے اور انھیں مطلع کر دیا گیا ہے۔

شیخ رشید نے کہا کہ مظاہرین کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں، ڈی سی اور ڈی پی او کو معطل کر دیا گیا ہے مگر ان کا بلوچستان حکومت کے خاتمے کا مطالبہ ان کی وزارت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ تدفین کے عمل میں ہی وزیرِاعظم وہاں موجود ہوں گے لیکن کچھ لوگ اس معاملے پر سیاست کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ’عمران خان کے وہاں جانے میں تاخیر کی ایک وجہ یہ ہے کہ (حکومت کے پاس) بہت ساری ایسی معلومات ہیں جو ان کے مطابق عوام کے سامنے نہیں لائی جا سکتیں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ دھرنے کے مقام پر اگر وزیرِ اعظم وہاں گئے اور لوگوں کے مجمعے کو وزیرِ اعظم کی سکیورٹی کی وجہ سے دور کیا گیا تو بدمزگی پیدا ہو سکتی ہے، اس لیے ’بہتر طریقے اور سلیقے سے جانا بھی‘ ہماری جستجو ہے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ نے عمران خان کے ہزارہ برادری کو بلیک میلر قرار دینے کے بیان سے متعلق سوال کو ہنس کر ٹالتے ہوئے کہا کہ ’چھوڑیں، یہ ایسے ہی باتیں ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بطور وزیرِ داخلہ وہ تصدیق نہیں کر سکتے کہ اس میں کون سا گروہ ملوث ہے مگر حکومت بہت وسیع پیمانے پر اس علاقے میں چھان بین کر رہی ہے۔

یاد رہے مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے علاقے میں چھ دن جاری رہا۔

بی بی سی کے نمائندے محمد کاظم کے مطابق شدید سردی کے باوجود مردوں کے ساتھ خواتین بھی اپنے بچوں سمیت بڑی تعداد میں دھرنے میں شریک ہوئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp