پروردگار! یار ہمارا خیال کر


ایک شکوہ اقبال نے خدا سے کر کے بندوں کو اپنے رب سے ہم سخن کر دیا تھا مگر وہ حسن ادا سے کیا گیا شکوہ تھا، ایک شکوہ مجھے بھی اپنے خدا سے ہے۔

مجھے خدا کے سب انسانوں کے خدا ہونے یا نہ ہونے یا صرف ہندو، مسلمان، عیسائی، یہودی یا بدھ مت میں سے کسی ایک کے خدا ہونے سے شکوہ نہیں ہے، اگر کوئی شکوہ ہے تو ”اگنورنس“ کا ہے۔ جب بھی کہیں، کسی آفت میں خدا بھی اپنے ”نائب“ کی طرح مخلوق کی فریاد ان سنی کر دے یا دیر سے پہنچے تو لگتا ہے، ”خدا کہیں گم ہے۔“

بچپن میں سنا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے۔ ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ تو بس خدا کا اپنی ماں جیسا تصور دل میں لیے بڑی ہوتی گئی کہ اپنی ماں کے وجود کی خوشبو اور مامتا کی گرماہٹ تو ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی محسوس ہوتی تھی۔ جیسا استحقاق ماں پر تھا سو ویسا ہی یا اس سے بھی زیادہ استحقاق خدا پر بھی محسوس کیا۔ دھیرے دھیرے پتہ چلا کہ ماں کی محبت مجھ سے اور بہن بھائیوں سے تو غیر مشروط تھی، مگر خاندان اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کہیں نہ کہیں پر کچھ نہ کچھ ”شرائط و ضوابط لاگو“ ہوتی تھیں۔

پھر نانی اماں بتایا کرتیں کہ جنت میں صرف ہم مسلمان ہی جائیں گے تو اس لیے یقین راسخ ہو گیا کہ ”خدا مسلمان ہے“ ۔ تو سوچا ستر ماؤں جیسے رب سوہنے کی مامتا بھی بس ہم مسلمانوں ہی سے غیرمشروط ہے۔ لہذا وہ صرف ہماری ہی منا جاتیں اور دعائیں سن اور قبول کر سکتا ہے۔ اور دیگر مذاہب والوں کی وہ سنی ان سنی کر سکتا۔ کچھ دیر تو ذہن و دل پر اسی خیال کا غلبہ رہا، اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ پڑھتے ہوئے ہمیشہ یہ خیال آتا تھا کہ خدا تو آخر خدا ہے وہ کیوں یہ قتل و غارت اور استحصالی نظام کو ختم نہیں کرتا؟

مگر اس دل نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کی بجائے سب کے لیے دھڑکنا شروع کر دیا۔ پھر جب اس کے بنائی افضل ترین مخلوق نے یہودی جلائے تو سوچا کہ خدا یہودی نہیں ہے، ورنہ ابراہیم کا رب تو آگ کو گلزار بنا سکتا ہے۔ جب اس اشرف المخلوقات نے مسیحی مارنے شروع کیے تو سوچتی کہ خدا ہمارا ”باپ“ نہیں ہے، لہذا اپنی اولاد کی قتل و غارت پر کیوں کسی کو مصلوب کرے؟ خدا عیسائی بھی نہیں تھا جو ان کے گرجا گھروں کی حفاظت سرانجام دے۔

رام نام جپتے ہندوؤں کا ناحق قتل ہوتے دیکھ بھی سوچا کہ خدا مندروں میں نہیں۔ ان کے رام کو آگے بڑھ کر اپنے ہندؤں کے سرخ خون سے ہولی کھیلنے والوں کو ختم کرنا چاہیے۔ جب وہ بدھ مت کے پیروکاروں کو مار رہے تھے تو سوچا گوتم بدھ تو جاتے سمے اپنے عقیدت مندوں کو ”حیات دکھ ہے، ممات دکھ ہے۔ تمام دکھ ہے“ کہہ کر مستعفی ہو چکا ہے۔ خدا بدھا بھی نہیں ہے۔ مگر جب انھوں نے مسجدیں جلانی شروع کیں، تب خدا کہاں تھا؟ تب خدا کیا اپنے گھر میں نہیں تھا؟

جب انھوں نے میری زینب جیسی معصوم بیٹیوں اور بہنوں کو نوچنا شروع کیا، تو کیا خدا کے کلیجے میں ستر ماؤں جیسی تڑپ باقی نہ رہی تھی؟ جب انھوں نے میری روتی بلکتی ماں کو اس کے بچوں کے سامنے گھسیٹا اور روندا تو کیوں خدا نے اپنی ”تمثال“ کی آبرو ریزی پر قہر نہ ڈھایا؟ شاید خدا بھی ستر فرقوں میں سے کسی ایک فرقے کا رب ہو مگر جب وہ شیعہ برادری کے گلے کاٹ رہے تھے اور ان کی مائیں سڑک پر ان کی لاشیں سامنے رکھے چھ روز تک ماتم کرتی رہیں اور زمین کے خلیفہ کو وہ ”بلیک میلر“ لگیں تو پھر بھی خدا نے ان کے لیے بندھے ہاتھوں ماتم نہ کیا، یعنی خدا شیعہ بھی نہیں؟

خدا کی مخلوق تو ایک دوسرے پر ظلم کر سکتی ہے، خدا تو آخر خدا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ایک ”کن“ کہتا ہے تو ناممکنات بھی ممکنات میں بدل جاتی ہیں، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وہ مالک ارض و سما ”کن“ تک بھی کہنے کا محتاج ہے؟ وہ تو محض ارادہ کرتا ہو گا اور سب ہو جاتا ہو گا۔ تو پھر وہ کیوں اس کائنات میں ہمیں بھیج کر ہم سے غافل ہو گیا؟ اسے کیوں وہ مائیں نظر نہیں آ رہیں جو اس ٹھٹھرتی سردی میں اپنے جگر گوشوں کی سر کٹی لاشوں کو رکھے اس امید پر بیٹھی ہیں کہ آئندہ ان کی طرح دیگر مائیں اس دکھ کا بار نہ اٹھائیں، کسی اور بہن کو سسکاریاں بھرتے، کرب میں ڈوبا یہ جملہ نہ کہنا پڑے کہ ”ہمارے گھر میں اب کوئی مرد نہیں بچا۔“ سو میرا اپنے خدا سے شکوہ ہے کہ ہم پر نظر ڈال، اگنور نہ کر کیونکہ

ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں
پروردگار! یار ہمارا خیال کر (افکار علوی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).