کاروں کی مینو فیکچرنگ اور اسمبلنگ کا گورکھ دھندہ


موجودہ حکومت نے نئے سال کو ترقی اور خوشحالی کا سال قرار دیا ہے۔ پچھلے سال کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت، تعلیم اور دیگر شعبوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اگر موازنہ کیا جائے تو حکومت کے بر وقت ہنگامی اقدامات کی بدولت معیشت کو اس قدر نقصان نہیں پہنچا جس قدر دنیا کے دیگر ممالک کو پہنچا ہے۔ کورونا وبا کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے تعمیرات کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے کئی مراعات دیں جس کے بعد ملک میں تعمیرات کا عمل تیز ہو گیا اس طرح لوگوں کو روزگار بھی ملا اور معیشت کی بحالی میں مدد بھی حاصل ہوئی۔

معیشت کی بحالی کے لیے سب سے ضروری یہی تھا کہ ملک میں تمام شعبوں کی صنعتوں کو فروغ دیا جائے ، انہیں مراعات دی جائیں اور اس شعبے میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے۔ اگر ہم بات کریں آٹو موٹیو انڈسٹری (کاروں کی صنعت) کی، تو اس شعبے کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس شعبے سے وابستہ صنعتیں خودمینوفیکچرنگ (تیاری) کر رہی ہیں یا صرف تیار شدہ پارٹس باہر سے منگوا کر اس کی اسمبلنگ کر رہی ہے۔

جب کسی نے نئی گاڑی لینی ہو تو اس کے لئے بکنگ کرانا پڑتی ہے۔ نئی کار وصول کرتے کرتے ایک سے دو ماہ لگ جاتے ہیں لیکن اگر موقع پر کار لینی ہو تو کار کی اصل قیمت سے زائد رقم ادا کرنا پڑتی ہے جسے پریمئیم یا آن منی کہتے ہے۔ آن منی کی رقم ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ مختلف ماڈلز کی کاروں کی آن کی رقم مختلف ہوتی ہے۔ کار کی اصل رقم سے زائد رقم (آن منی) دینے کی سب سے بڑی وجہ کاروں کی پیداوار میں کمی ہے حالانکہ کورونا کے باوجود کاروں کی طلب میں اضافہ ہوا لیکن طلب کے مقابلے میں پیداوار کم ہے جس کی بنیادی وجہ ملک میں کاروں کی مینوفیکچرنگ (تیاری) کی بجائے اس کے پارٹس منگوا کر اس کی اسمبلنگ کی جاتی ہے۔

کار ڈیلرز کی بکنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے پارٹس درآمد کیے جاتے ہیں بعد میں ان پارٹس کو اسمبلڈ کر کے کسٹمر کو کار کی ڈیلیوری دے دی جاتی ہے۔ اگر ملک کے اندر مکمل طور پر کاروں کی مینوفیکچرنگ شروع ہو جائے تو اس سے نہ صرف معیشت کی بحالی میں مدد ملے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے ۔ آن منی کے رجحان کو فروغ دینے میں ان لوگوں کا بھی ہاتھ ہے جو فوری کار حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک اضافی رقم د ینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔

حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے کاروں کی پیداوار سے متعلق رپورٹ طلب کی ہے۔ نئی گاڑیوں کی خریداری کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کے لئے پچھلے سال اپریل میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ ایک عرصہ کے بعد اس شعبے کی جانب توجہ دی جا رہی ہے جس کے بعد عوام پرامید ہیں کہ اب اس شعبے میں سالہا سال سے قائم اجارہ داری کا خاتمہ ہو سکے گا۔

مینو فیکچرنگ اور اسمبلنگ کا کھیل صرف گاڑیوں کی صنعت میں ہی نہیں بلکہ دیگر گھریلو الیکٹرانکس میں بھی کھیلا جا رہا ہے۔ ملک میں بہت سی کمپنیاں جو مینوفیکچرنگ کا دعویٰ کرتی ہیں حقیقیت میں وہ مینوفیکچررز ہیں ہی نہیں بلکہ ان کا کام پارٹس منگوا کر انھیں جوڑنا اور پھر مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کر دینا ہے۔ اگر گاڑیاں، موبائل، اے سی اور دیگر اہم گھریلو استعمال کی الیکٹرانکس ملکی سطح پر تیار ہوں گی تو ایک تو ان کی قیمت میں واضح کمی ہوگی، دوسرا پیداواری صلاحیت بڑھے گی اور طلب کا توازن برقرار ہوگا اور سب سے بڑھ کر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے ۔

گاڑیوں سمیت کسی بھی الیکٹرانکس کی اشیاء کی قیمتوں میں تب تک کمی ممکن نہیں جب تک کے ان کی تیاری ملکی یا مقامی سطح پر نہ ہو جائے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین سمیت دیگر کئی ممالک کی بہت سی کمپنیاں اب بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہشمند ہیں لیکن ان نئی کمپنیوں کو بہتر مواقع نہیں مل رہے، شاید پہلے سے موجود کمپنیاں ان کو جگہ بنانے نہیں دے رہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ ایسے اقدامات کرے جس سے ملکی سطح پر پیداواری صلاحیت بڑھے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ مینوفیکچرنگ ملکی سطح پر ہو اور صرف ان پارٹس کو درآمد کیا جائے جو بہت ضروری ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).