سانحہ مچھ:تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا


جنازہ آتے دیکھ کر رحمت للعالمین میت کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ احباب نے عرض کیا حضرت یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ کے خوبصورت تاریخی جواب نے احترام انسانیت کو بلندیوں کی معراج عطا کر دی۔ فرمایا کیا وہ ایک انسان نہیں تھا۔

ہمیں ریاست مدینہ جدید بنانے کے دعویٰ کا خیال تو آیا لیکن ریاست مدینہ کے بانی کے بنیادی اصول ریاست سیکھ نہ پائے۔ اس کے بے کراں تبحر علمی و عملی سے فیض یاب ہونا تو دور کی بات یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریاست مدینہ کی بنیاد انسان دوستی پر تھی۔ اقلیتوں کے تحفظ پر تھی۔ بنیادی انسانی آزادیوں کو یقینی بنانے پر تھی۔ شدید ناموافق حالات میں بھی بانی ریاست مدینہ سب سے آگے خود رہے۔

جب عوامی عہدے سنبھالنے کی تمنا ہو تو خطرات کے لئے بھی تیار ہونا پڑتا ہے۔ بزعم خویش لیڈر بن کر اور حواریوں درباریوں سے چاپلوسی کا شیرہ چاٹنے والے تاریخ کے دھندلکوں میں ایسے گم ہیں کہ کوئی نام لیوا بھی نہیں۔

ایک انسانیت سوز واقعہ بولان کے علاقے مچھ میں نیا سال شروع ہوتے ہیں دو جنوری کو ہوا۔ گیارہ محنت کشوں کے گلے بے دردی سے کاٹ کر ریاست کے چہرے پر معصوموں کے خون کے دھبے اور گہرے کر دیے گئے۔ اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت کے دعوے پھر تار تار ہوئے۔

دنیا بھر میں قتل و غارت کے واقعات کی مذمت کرنے والوں کو ہمت ہی نہ ہوئی کہ ان معصوموں کے ساتھ کھڑے ہو کر ہمدردی کے دو بول بول دیں۔ لواحقین نے سادہ سا مطالبہ رکھ دیا کہ گھر کا بڑا آ جائے تو تدفین بھی کر دیں گے حالانکہ ان کو بھی معلوم ہے کہ شاید کچھ بدلنے والا نہیں۔

ہزارہ والوں کو خبر ہو کہ ابھی تو محترم وزیر اعظم نے قطر سے واپس آ کر سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو سزا سنانی اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات کرنے ہیں۔

ہزاروں والو! سن رکھو کہ آپ میں جتنا بھی حوصلہ ہو معصوم مرنے والوں اور ان کے لواحقین کو بلیک میلر کہنے والے کے حوصلے سے بڑا نہیں ہو سکتا۔ اک بت بنا بیٹھے تھے جو پاش پاش ہوا۔

سات بہنوں کے گھر میں اگر دفنانے والا کوئی مرد نہیں بچا تو ریاست مدینہ جدید میں یہ واقعہ انوکھا نہیں۔ سخت ترین سردی میں اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ بیٹھے رہنا بہت بڑے حوصلے کو چاہتا ہے۔ جب کسی پیارے کی جدائی ہوتی ہے تو تدفین کے بعد آہستہ آہستہ صبر اور قرار آجانا فطرتی عمل ہے۔ لیکن میت کے سرہانے بیٹھ کر ایک ہفتے تک کسی کا انتظار کرنا اور پھر اس کی طرف سے بلیک میلر کا خطاب پانا ایسی صورت حال ہے جہاں الفاظ خاموش اور زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔

عبید اللہ علیم نے کسی ہرجائی کی بے وفائی کا تذکرہ کیا تو انہیں شاید یہ معلوم نہ ہوگا کہ ایک دن خود ساختہ ریاست مدینہ کا سربراہ اس غزل کا لفظ لفظ اپنے اوپر چسپاں کر کے بے رخی اور بے حسی کی مجسم مثال بن جائے گا۔ آئیں ہزارہ کے ہزاروں شہیدوں اور لواحقین کی زندہ لاشوں کی زبانی علیم کی یہ غزل پڑھیں :

کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم باد صبا کہلاؤ تو کیا
اک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے شرماؤ تو کیا
تم آس بندھانے والے تھے
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا
دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا
میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا
ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).