امریکہ میں جمہوریت کے پرخچے


امریکہ دنیا کی سپر پاور، دنیا کی سب سے بڑی جمہو ریت، دنیا میں ترقی یافتہ اور باشعور مملکت، مہذب معاشرہ کہلا نے والے ملک میں 3 نومبر 2020 ء کو صدارتی انتخابات ہوئے۔ ٹرمپ دوسری بات ریپبلکن کی جانب سے صدارتی امیدوار تھے جب کہ ڈیموکریٹس کی جانب جو بائیڈن صدارتی امیدوار تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو شکست ہونے لگی تو ٹرمپ نے نامنظور نامنظور کا واویلا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ شکست اس کا پیچھا کرنے لگی مختلف امریکی ریاستوں سے ایک ایک کر کے ٹرمپ کو شکست اور بائیڈن کو زیادہ ووٹ ملنے شروع ہوئے توٹرمپ نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ عدالت میں بھی چلا گیا، جہا ں پر اسے منہ کی کھانا پڑی۔

اقتدار کی منتقلی کا عمل امریکہ جمہوریت کے مطابق آگے بڑھ رہا تھا۔ ٹرمپ میں نا مانوں کی ضد پر قائم رہا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ چور مچائے شور والی کیفیت پیدا کر کے امریکیوں کو قائل کر لے گا کہ جو بائیڈن نے اس کا الیکشن چوری کیا ہے، چنانچہ خوب واویلا کیا لیکن شکست پر شکست اس کا مقدر ہوتی چلی گئی۔ یہ وہی ٹرمپ ہے جس نے سابقہ الیکشن میں ہیلری کو شکست دی تھی اور ٹرمپ کو ساڑھے سات کروڑ ووٹ ملے تھے۔ حالانکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو سیاسی مقابلہ ہیلری کلنٹن سے کسی طور بنتا ہی نہیں تھا، پھر بھی نہ معلوم کس طرح ٹرمپ کامیاب ہو گیا۔

ہیلری ایک پڑھی لکھی، تجربہ کار سیاسی شعور رکھنے والے سیاست داں تھی۔ لیکن ٹرمپ نے امریکیوں پر اپنی اداکاری کا ایسا جادو چلایا کہ کامیاب ہو گیا۔ چار سالہ دور صدارت میں ٹرمپ کی پالیسیاں، اس کے بیانات اور اس کی بڑکیاں اسے لے ڈوبیں۔ مسلمانوں کے خلاف بیانات، کشمیر کے حوالے سے کہتا رہا کہ وہ ثالثی کرنے کو تیار ہے۔ وہ در اصل ثالثی پر نہیں بلکہ اندر سے بھارت کا سپورٹر تھا۔ وہ کسی طور پر مودی کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ترغیب نہیں دے سکتا تھا۔

عمران خان سے دوستی کی بات بھی کر کے اس نے عمران خان اور پاکستانیوں کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ گورا ہے اسے کالے امریکیوں سے نفرت ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ ایک کالے امریکی کو ایک گورے امریکی فوجی کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کرنا اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ ٹرمپ کالوں کے خلاف نہیں بلکہ ان کا دشمن ہے۔ ٹرمپ اور ہیلری کے الیکشن کے فوری بعد میں نے ایک کالم بعنوان ”ٹرمپ فاتح۔ ہیلری کو شکست ’لکھا تھا جس میں دونوں کا موازنہ کچھ اس طرح سے کیا تھا“ ہیلری کلنٹن شائستہ، ملنسار، خوش اطوار، خوش مزاج، خوش خلق، خوش بیان، مؤدب، مہذب، سیاسی سوچ، سیاسی فکر اور سیاسی سمجھ بوجھ کی مالک ہیں، امریکی سیاست اور علمی تعلقات کا ادراک رکھتی ہیں، سیاسی خاندان کی بہو یعنی سابق امریکی صدر کی شریک حیات ہے، امریکی حکومت میں اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔

اس کا مقابلہ امریکہ کے ایک ارب پتی شخص ڈونالڈ ٹرمپ سے ہے جو پیسے بنانیکی مشین کہا جاتا ہے ، وہ بزنس کوترقی دینے کے گر تو جانتا ہے لیکن سیاست میں کورا ہے، اس کے اثاثوں کی مالیت 3.7 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے، دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اس کا نمبر 324 واں ہے جب کہ امریکہ میں امارت کے اعتبار سے وہ 156 ویں نمبر پر ہے۔ عادات و اطوار کے اعتبار سے وہ بد تہذیب، بد اطوار، اوچھے پن کا مالک، فحش کلامی کرنے والا، دشنام طراز، دریدہ دہن، کثیف الطبع، کرخت، اجڈ، شیخی خورا اورچھچورا قسم کا انسان ہے، عمر 71 ہو چکی ہے، غیر امریکیوں کو پسند نہیں کرتا حتیٰ کہ اس نے انتخابی مہم کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے گورے اور کالے امریکیوں میں نفرت کی دیوارکھڑی کرنے جیسا حربہ بھی استعمال کر ڈالا، گویا متعصب ذہنیت کا حامل بھی ہے۔

اس کی رائے میں امریکہ میں موجود اقلیتی عوام امریکہ پر بوجھ ہیں اور مسلمان دہشت گرد۔ گزشتہ تین دہائیوں میں وہ 3500 مقدمات میں ملوث ہوا، یہ مقدمات اس کے کاروبار کے حوالے سے ہوئے۔ اس کی آمدنی کا کوئی ٹھکانا نہیں 2015 میں ٹرمپ نے اپنے آپ کو کوئی 38 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا مالک ظاہر کیا۔ اس کی اچھی عادتوں میں ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا نشہ نہیں کرتا۔ نیویارک میں پیدا ہوا، ٹرمپ کا باپ جرمن اور ماں اسکاٹش تھی، ٹرمپ نے تین شادیاں کیں تینوں کا تعلق شوبیز سے ہے، وہ خود بھی شوبیز کا آدمی ہے، موصوف ٹی وی نیٹ ورک میں پروڈیوسر اور میزبان بھی رہ چکے ہیں۔

تعلیم کوئی خاص نہیں 1968 میں معاشیات میں گریجویشن کیا تھا۔ اپنے والد کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے جانشین ہو گیا۔ ٹرمپ کی زندگی کی کہانی میں بہت کھوج لگایا کہ کہیں اس کا تعلق سیاسی معاملات، حکومتی مشینری سے وابستگی، فلاحی اور عوام کی بہتری کے لیے اس کا کوئی کام سامنے آئے لیکن کہیں بھی ایساکچھ نہیں ملا ”۔ میرا یہ تجزیہ ٹرمپ کی شخصیت کی واضح عکاسی کرتا ہے۔

دو روز قبل امریکی ایوان نمائندگان یعنی کانگریس نے اپنے اجلاس میں باقاعدہ طور پر نو منتخب صدر جو بائیڈن کو باقاعدہ امریکہ کا 46 واں صدر کا اعلان کرنا تھا۔ صدارتی انتخاب میں ٹرمپ نے 232 جوبایڈن نے 306 ووٹ حاصل کیے۔ فاتح امیدوار کو 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں ٹرمپ کو شکست تسلیم کر کے کھلے دل کے ساتھ جو بائیڈن کو صدر تسلیم کر لینا چاہیے تھا لیکن حکمرانی کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ عین جب کے امریکی کانگریس کا اجلاس نو منتخب صدر جو بائیڈن کو صدارت کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا۔

ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل کی جانب جانے ہدایت کی ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ بھی آ رہا ہے۔ ٹرمپ کے کے اکسانے پر گورے چڑھ دوڑے کانگریس کی عمارت کی جانب اور دھاوا بول دیا جس کا نظارہ ہم آپ نے ٹی وی پر دیکھا۔ پہلے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ امریکہ کا ایوان یعنی کانگر یس ہے۔ پاکستان میں تو ایسے نظارے کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں لیکن امریکہ میں اس طرح کی غنڈہ گردی اپنی مثال آپ ہے۔ کانگریس کے حال میں موجود کانگریس کے ارکان نے نیچے چھپ کر جان بچائی، کچھ نے بلوائیوں کا مقابلہ کر نے کے لیے ہتھیار نکالیے، نکالنا ہی تھے، دروازوں اور کھڑکیوں سے ٹرمپی دیوانے مکھیوں کی مانند کانگریس کی عمارت میں داخل ہو رہے تھے۔

یہ ہے امریکیوں کو اصلی چہرہ، ان کے اندر کے امریکی در اصل یہی ہیں۔ اس حملے میں زخمی ہونے والے تو بے شمار تھے 4 امریکیوں کی جانیں چلی گئیں اور ایک امریکی پولیس اہل کار شدید زخمی ہوا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔ عمارت کو نقصان پہنچا، فرنیچر اور ساز و سامان تہس نہس کر دیا گیا۔ واشنگٹن میں پندرہ دن کے لیے کرفیولگا دیا گیا۔ بہت سال قبل کا ایک واقع ذہن میں آیا کہ ایک مرتبہ نیو یارک میں اچانک بجلی چلی گئی، کوئی بہت بڑافالٹ ہوا اور پورا نیویارک اندھیرے میں ڈوب گیا۔ اس اندھیرے میں امریکیوں نے جو لوٹ مار مچائی، جس کے ہاتھ جو آیا وہ لے اڑا۔ دکانوں کی دکانیں، مال امریکی لوٹ کر لے گئے۔

عام طور پر انتخابات میں شکست خور اپنی شکست کاواویلا کرتے ہی ہیں۔ خاص طور پر پاکستان میں تو 72 سال کی تاریخ میں صرف ایک الیکشن جو 1970 میں ہوئے، باقی تمام انتخابات کو ہر ہارنے والے نے دھاندلی کے انتخابات کہا اور نئے انتخابات تک وہ واویلا کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو یہ عام سی بات ہے، یہا ں تک عدالتوں پر، ٹی وی اسٹیشنز پر، پیٹرول پمپس پر، عمارتوں پر عملے اور توڑ پھوڑ عام سے بات ہے کہ لیکن امریکہ، جمہوریت کا داعی، تعلیم یافتہ لوگوں کا ملک، دنیا کو پڑھانے، سکھانے والا، مہذب اور شائستہ گوروں اور کالوں کے ملک کے منتخب ایوان جو کیپیٹل ہل کہلاتا ہے، اعلیٰ ترین جمہوری ادارے پرٹرمپ نے اپنے لیے تو جو کچھ بھی کیا وہ اپنی جگہ، اس نے پوری امریکی قوم کو شرمندہ اور رسوا کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

تاریخ میں اس واقعہ کو ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے سیاہ الفاظ سے لکھا جائے گا۔ ان حالات کے باوجود پارلیمنٹ نے نتائج کی توثیق کردی۔ اب ٹرمپ پر دباؤ ہے کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہو جائے۔ بصورت دیگر ڈیمو کریٹس اس کے خلاف مواخذے کی تحریک لے آئیں گے۔ امریکی قانون میں ترمیم 25 کے تحت اگر صدر دماغی طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے تو انہیں ہٹا دیا جاتا ہے۔ امریکی اسپیکر پارلیمنٹ نے ٹرمپ کو پاگل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ خطر ناک صدر نہیں ہو سکتا اور ہمیں اپنے ملک اور جمہوریت کو بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانا ہوگا۔

ٹرمپ نے اپنی رسوائی کو بھانپتے ہوئے اپنے حامیوں سے خود کو الگ کر لیا، حملہ کی مذمت کی، کہا اسے مایوسی ہوئی، کہا کہ وہ پر امن انتقال اقتدار چاہتا ہے لیکن نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کی کابینہ کے کئی ارکان نے استعفے دینے شروع کر دیے ہیں۔ امریکہ کی نئی انتظامیہ کو 20 جنوری کو اپنے کام کا آغاز کرنا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن، ٹرمپ کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی صدارت کے عہدہ کا حلف اٹھالیں گے۔ (9جنوری 2021 ء)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).