ایرانی جہاز کا حادثہ: فلائیٹ پی ایس 752 میں جان گنوانے والوں کی یاد میں


پائلٹ ولادیمر گپاننکو کی اہلیہ کترینا کہتی ہیں کہ میری بیٹی مجھے بتاتی ہے کہ وہ اب بھی اپنے والد کو اپنے ساتھ محسوس کرتی ہے اور اس لیے وہ ان کی قبر پر نہیں جانا چاہتی۔

آٹھ جنوری 2020 کو ایران کے پاسداران انقلاب نے یوکرین انٹرنیشل ائیر لائنز (یو آئی اے) کا ایک مسافر بردار طیارہ مار گرایا تھا۔ طیارے نے نشانے بننے سے تھوڑی ہی دیر پہلے تہران کے ہوائی اڈے سے پرواز بھری تھی۔

ایرانی حکام نے ابتدا میں تو اس واقعے کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا تھا لیکن جب بہت بڑی تعداد میں واضح ثبوت سامنے آنے لگے تو صدر روحانی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ ایک ‘تباہ کن غلطی تھی۔’

اس واقعے کو ہوئے اب ایک سال گزر چکا ہے۔ یوکرین کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس روز گزرنے والے لمحات کے بارے میں تحقیقات کی راہ میں ایران رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔

جبکہ دوسری جانب اس حادثے میں نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین یہ جاننے کے لیے بےچین ہیں کہ فلائٹ پی ایس 752 کو گرانے کے ذمہ دار کون تھے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

حادثے کے باعث متاثر ہونے والے خاندانوں کے لیے بنائی گئی تنظیم کے سربراہ حمید اسماعلیون کا کہنا ہے کہ اس تباہی کو ہوئے ایک سال گزر گیا ہے لیکن نتیجہ ابھی تک صفر ہے۔

فلائٹ پی ایس 752 کو گرانے کی وجہ کیا تھی؟

امریکہ اور ایران کے درمیان سنہ 2020 کے آغاز پر شدید تناؤ تھا۔

تین جنوری سنہ 2020 کو امریکی فوج نے اعلیٰ ایرانی جنرل، قاسم سلیمانی کو بغداد میں قتل کر دیا تھا۔ وہ ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کے بعد ایران کی سب سے بااثر شخصیت تھے۔

آٹھ جنوری کی صبح ایران نے جواباً عراق میں دو امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا۔

اسی دن، مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجکر 12 منٹ پر یو ائی اے کی فلائٹ نمبر پی ایس 752 نے تہران کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے اڑان بھری اور کچھ ہی دیر بعد دو میزائلوں کے ذریعے اسے نشانہ بنا کر مار گرایا گیا۔

اس پرواز میں سفر کرنے والے 176 افراد ہلاک ہو گئے۔ ان میں 50 سالہ ندا سادیگی بھی شامل تھیں جو کرسمس کی چھٹیاں منانے کے بعد اپنے ملک سے واپس کینیڈا جا رہی تھیں۔

ان کے بیٹے امیر علی کہتے ہیں کہ جس روز میری امی کی جان گئی میں نے ان سے اس دن بات کی تھی۔

وہ ہماری آخری کال تھی۔ میں نے کہا کہ میں ان کے بارے میں پریشان تھا۔ تو وہ کہنے لگیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور کل ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔

مشرق وسطی میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی وجہ سے قطرینہ گاپوننکو نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ تہران کی جانب ڈیوٹی مت کریں۔ توجواب میں ان کے شوہر نے کہا کہ فلائٹ کو ملتوی نہیں کیا جائے گا اور انھیں فلائی کرنا ہی ہو گا۔

قطرینہ کہتی ہیں کہ میں نے ان سے کہا وہاں لڑائی ہو رہی ہے تو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ یا تو شروع ہو رہی ہے یا ختم ہو رہی ہے۔

کیا جو کچھ ہوا ایران اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے؟

یوکرین کے تفتیش کار کہتے ہیں کہ جیسے ہی انھوں نے جہاز گرنے کے مقام پر بلڈوزر کو دیکھا تو انھیں اسی وقت سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے کام میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں اور شواہد مٹائے جا رہے ہیں۔

جہاں گرنے کے دو دن بعد، دس جنوری کو یوکرین کے حکام ایران پہنچے جہاں انھوں نے جہاز گرنے والے مقام کا معائنہ کیا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس مقام کو محفوظ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی تاہم انھیں وہاں سے میزائل حملے کے شواہد مل گئے۔.

The bodies of those killed at the crash site

حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں

یوکرین کی قومی ایئر لائنز کے بوئنگ طیارے کی عمر صرف تین سال تھی اور چند روز قبل ہی اس کا ٹیکنیکل جائزہ لیا گیا تھا جس میں جہاز میں کوئی خامی نہیں ملی تھی۔ جہاز کا عملہ بھی انتہائی تجربہ کار تھا

یو آئی اے کے صدر یوہینی ڈائخنے کہتے ہیں کہ ‘ہمیں حد درجہ یقین تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی جہاز میں جس سے یہ واقعہ پیش آیا۔ یہ صرف اور صرف بیرونی عنصر تھا’

اسی دن، دس جنوری کو کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے عوامی طور پر کہا کہ جہاز کو مار گرایا گیا ہے۔

یوکرین کے نائب وزیر خارجہ یووہن ینن کا کہنا ہے کہ صرف اس بیان کے بعد ہی ایرانی مجبور ہوئے کہ وہ تسلیم کریں کہ جہاز ایران کے فضائی دفاع کے نظام نے مار گرایا تھا۔

اگلے روز، جنوری کی 11 تاریخ کو ایرانی حکام نے اسی بات کا اعتراف کیا۔

ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے بیان میں کہا: ‘جیسے ہی مجھے اطلاع دی گئی کہ یہ ایک ناقابل قبول غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، میں نے فوراً حکم دیا کہ اس معلومات کو سب کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ عوام جان سکے۔’

تفتیش کاروں کے لیے دشواریاں

ایران کے اعتراف کے باوجود یہ واضح نہیں تھا کہ ایسا کیا ہوا کہ ایک کمرشل فلائٹ کو ایرانی حکام نے میزائل سے نشانہ بنایا۔

یوکرین کے تفتیش کاروں کو دوبارہ جہاز گرنے والے علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ملی۔

یوکرینی نائب وزیر خارجہ یووہن ینن کہتے ہیں کہ یوکرین نے ایران کو تجویز دی کہ مشترکہ تحقیقات کی جائیں۔

‘ہم اس بات پر مصر تھے کہ مشترکہ تحقیقات کی جائیں جس میں دونوں ملکوں کے ماہرین شامل ہوں۔ لیکن آج تک یہ باتیں اور وعدہ محض کاغذ پر ہیں۔’

یوکرین کے نائب پراسکیوٹر جنرل گنڈوز مامیدوو اس تحقیقات کے پورے سلسلے کے ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے آج تک ایران کی جانب سے کی گئی کرمنل تفتیش کے حوالے سے کوئی دستاویز نہیں دیکھی ہے۔

The departures board at Imam Khomeini Tehran International Airport.

تہران کا ہوائی اڈہ

وہ کہتے ہیں: ‘میں ایرانی تفتیش پر صرف اس وقت اعتماد کرنا شروع کروں گا جب میں ان کی دستاویزات دیکھوں گا۔ مگر آج کے لیے مجھے ان کی تفتیش پر بہت شک ہے۔

لواحقین کے لیے تکلیف

اور پھر وہ لواحقین جن کے پیارے اس حادثے میں ہلاک ہو گئے وہ بھی انصاف کے انتظار میں ہیں اور ایرانی حکام کی جانب سے کوئی رابطہ نہ ہونے پر پریشان بھی ہیں۔

حمید اسماعلیون کی اہلیہ اور نو سالہ بیٹی اس واقعہ میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ایک انجانے شخص مجھے حادثے کے سات ماہ بعد میری بیوی کے میڈیکل سرٹیفیکٹ کی تصاویر بھیجیں۔ وہ دستاویزات اسے جہاز تباہ ہونے کے مقام سے ملی تھیں۔’

کترینا گپاننکو بھی کچھ اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔

‘کوئی کپڑے نہیں۔ نہ اس کا چمڑے کا بیگ، نہ اس کی ذاتی دستاویزات، نہ موبائل، نہ ٹیبلیٹ، نہ کریڈٹ کارڈ۔ کچھ بھی مجھے واپس نہیں دیا گیا۔ کوئی بھی چیز جو ثبوت بن سکتی تھی وہ نہیں دی گئی۔ ابھی تک تو اپنے طور پر جی رہی ہوں لیکن لگتا ہے کہ ہمیں ابھی بھی ماہر نفسیات کی ضرورت ہے۔’

وہ مزید کہتی ہیں: ‘ہماری چھوٹی بیٹی سات برس کی ہے۔ وہ خوش ہوتی ہے اور پانچ منٹ میں پھر رونا شروع کر دیتی ہے کیونکہ اس کے والد اس کے پاس نہیں ہیں۔’

جوابات کی کھوج

پھر جولائی میں ایسا محسوس ہوا کہ کوئی پیشرفت ہوئی ہے۔

ایران کی سول ایوی ایشن کی رپورٹ شائع ہوئی جس میں ‘انسانی غلطی’ اور ‘ناقص تبادلہ خیال’ کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ میزائل کی بیٹری نے صحیح سے کام نہیں کیا جس کے باعث میزائل کا ہدف بنانے کا نظام کمرشل طیارے کو دشمن سمجھ بیٹھا۔

اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ میزائل کے نظام نے کمانڈ سینٹر سے رابطہ کیے بغیر اور اجازت لیے بغیر میزائل کو فائر کر دیا۔

لیکن یوکرینی حکام کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے وہ بار بار تبدیل ہوتے ایرانی موقف سے پریشان ہیں۔

گنڈوز مامیدوو کہتے ہیں: ‘جب ہم مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ میں تھے تو ہمیں ایران سے کچھ جوابات ملنے شروع ہوئے۔ اس کے بعد سے ہمارے پاس مزید سوالات ہیں۔’

Boeing 737-800

بوئنگ 737 کو قابل اعتماد طیاروں میں شمار کیا جاتا ہے

تفتیش کاروں کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ پرواز کو اڑنے کی اجازت کیوں دی گئی تھی۔

ایران نے اپنی فضائی حدود کو بند نہیں کیا اور یو آئی اے کے مطابق طیارے کے عملے کو بھی کسی قسم کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں کہ ایران جنگی صورتحال کے لیے تیار ہو رہا ہے۔

یو آئی اے کا طیارہ بوئنگ 737 ایک کروز میزائل کے مقابلے میں دو گنا لمبا ہوتا ہے اور رفتار میں بھی کہیں آہستہ۔

لیکن کیا ایران اپنے میزائل سسٹم جس میں احکامات درج ہوتے ہیں، ان کا ریکارڈ فراہم کرے گا؟

کمرشل طیاروں کے بھی اپنے کوڈز ہوتے ہیں جن کی مدد سے انھیں شناخت کیا جاتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میزائل کے نظام نے اس جہاز کو کیوں نہیں پہچانا؟

ایرانی حکام کہتے ہیں کہ میزائل فائر کرنے والی بیٹری ملک کے فضائی دفاع کے نظام سے منسلک نہیں تھی۔

کینیڈا کے وزیر خارجہ فرانسوا فیلیپ شیمپین نے بھی اسی بارے میں سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایران نے اپنی فضائی حدود بند نہیں کی۔

یوکرینی نائب وزیر خارجہ یووہن ینن کہتے ہیں کہ ‘ہمارے ساتھ بہت طاقتور اتحادی ہیں اور ہمارے ساتھ سچ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ دیر یا سویر، ہمیں وہ نتیجہ مل جائے گا جس کی ہمیں تلاش ہے۔’

معاوضے سے پہلے سچ

ایران نے وعدہ کیا ہے کہ لواحقین کو فی کس ڈیڑھ لاکھ ڈالر دیے جائیں گے۔ لیکن یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سچ جاننا چاہتے ہیں کہ طیارہ پر حملہ کیوں کیا گیا۔

یووہن ینن نے کہا کہ سب سے پہلے تو طیارے پر حملے کی وجوہات جاننی ہوں گی اور پھر اس کے بعد جو بھی اس کا ذمہ دار ہے ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پھر اس کے بعد ہم معاوضے کی بات کریں گے۔’

ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو بھی امید ہے کہ ذمہ داران کی شناخت کر کے انصاف کیا جائے گا۔

ندا سادیگی کے بیٹے عامرعلی علیوی کہتے ہیں کہ ‘یہ ضروری ہے کہ تفتیش کی جائے اور پھر عالمی عدالت انصاف جایا جائے۔ لیکن اس کے لیے پہلے سچ جاننا ہوگا۔ ایران سے معاوضے کی بات کرنا ناکافی ہے اگر ہم یہ نہیں جان سکے کہ حادثہ ہوا کیسے تھا۔’

مزید رپورٹنگ: وکٹوریا ژوگان اور یانا رائیبوسکا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp