محبت کرنے والی ہر عورت تمثال ہے


آج کل یو اے ای یاترا پہ ہوں۔ سوچا تھا یہاں بڑی فرصت رہے گی۔ کتابیں پڑھنے کا بہترین ماحول ہو گا۔ مگر وہ کہتے ہیں ناں، ”دکھ ڈھاڈھے نیں تے جندڑی ملوک“ ۔ بس وہی صورت حال ہے۔ ”میں تمثال ہوں“ آنے سے پہلے ان کتابوں میں شامل تھی۔ جو میں ساتھ لائی۔ چار دن ہوئے ایک ہی نشست میں کتاب ختم ہوئے۔ اور چار دن سے میں اس کے اثر میں ہوں۔ کئی بار کتاب کھولی۔ پڑھی، ہائی لائٹ کیا۔ اور پھر اس پہ سوچتی رہی۔ مجھے کتاب اور فلم دونوں کا اثر دیر تک محسوس ہوتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں بہت کم ایسے لوگ دیکھے، یا پڑھے۔ جنہوں نے اپنے متعلق خطرناک حد تک سچ لکھا ہو۔ تمثال ان میں ایک نیا اضافہ ہیں۔ انہوں نے جس بے باکی سے اپنی محبتوں کو تسلیم کر کے سفاکی کی حد تک سچ بیان کیا ہے۔ وہ قابل داد ہے۔

محبت سے میرا تعارف رسالے پڑھنے کی عمر میں جا کے ہوا۔ رسالوں اور فلموں میں جیسی محبت دکھائی جاتی تھی۔ وہ کہیں نہ کہیں آپ کے اندر جگہ ضرور بناتی ہے۔ چاہے آپ جتنے بھی حقیقت پسند ہو جائیں۔ محبت کے لیے آپ کے دل میں ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔ چاہے آپ کسی بھی عمر میں پہنچ جائیں۔ محبت کا رنگ آپ کو اپنے اثر میں لے لے گا۔ محبت کے متعلق مجھے یوں ہی لگتا تھا کہ کسی دن کالج جاتے کسی نہ کسی ہیرو نما لڑکے سے ٹکراؤں گی۔

اور پھر ہر طرف گانے بجیں گے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ زندگی تو مجھے وہ گزارنی پڑی جو شاید فلموں میں بھی کسی نے نہ دکھائی ہو۔ میں نے جس سے عشق کیا اسی سے شادی کی۔ اس وقت سوچ یہ تھی کہ جس سے عشق ہوتا ہے، شادی بھی اسی سے لازمی کرنی ہوتی ہے۔ ورنہ عشق تو ادھورا رہے گا۔ عشق سے متعلقہ میرے خیالات کم و بیش تمثال جیسے ہیں۔ عشق کرو تو بھرپور کرو۔ اظہار کرنے میں کبھی کنجوسی مت دکھاؤ۔ تمثال کا تیسرا عشق اس کا خاوند تھا۔

میرا پہلا عشق میرا خاوند تھا۔ اب میں یہ سمجھتی ہوں۔ جس سے عشق کرو اس سے شادی اس وقت کرو۔ جب یہ لگے کہ آنے والی زندگی میں آپ دونوں کی زندگیوں میں کسی تیسرے کا عمل دخل نہیں ہو گا۔ ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد میاں بیوی کی زندگیوں پہ ان سے زیادہ سسرالی رشتے داروں کا حق ہو جاتا ہے۔ عورت پہ یہ بوجھ پڑ جاتا ہے کہ اس نے گھر کے آٹھ افراد کو بیک وقت خوش رکھنا ہے۔ اور اففف بھی نہیں کرنا۔ میرا تجربہ ہے یا جو میں نے مشاہدہ کیا ہے اس کے مطابق اگر کسی عشق کو موت کے گھاٹ اتارنا ہے۔ تو ان کی شادی کر کے جوائنٹ فیملی میں چھوڑ دو۔ جہاں ساس کا حکم ٹالنا قیامت کو بلانے جیسا ماحول ہو۔ وہاں کون سا عشق اور کیسی محبت۔ مگر میرا معشوق کہتا تھا محبت کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ میں نے ادا کی۔ بھرپور کی۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ میں نے اپنے لفظوں پہ پہرے دیے۔

تمثال کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس نے اپنے فطری انداز میں اپنی تمام زندگی کھول کے سامنے رکھ دی۔ چاہے وہ اس کی جنسی زندگی ہے یا چاہے وہ اس کی عائلی و محبتیں کرتے گزرتی زندگی ہے۔ اس نے بے باکی سے لکھا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے سماج میں اگر تمام عورتیں ایسے سچ بولنے لگیں۔ تو پدرسری سوچ میں ایک بڑی دراڑ پڑ سکتی ہے۔ ہمارے کاندھوں پہ جو وفاداری، عزت و غیرت کے بوجھ ڈال دیے جاتے ہیں۔ ان سے چھٹکارا ممکن ہو سکتا ہے۔ جس وقت مرد کو محبت ہوتی ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ وہ غیر شادی شدہ ہے یا شادی شدہ ہے۔ عورتوں پہ اس حوالے سے بھی ذمہ داری ہے۔ شادی شدہ عورت کو حق نہیں کہ وہ کسی کو پسند کر سکے۔ کر بھی لے تو اس کا اظہار مت کرے۔ مگر کیا ہی بات ہے تمثال کی کہ اس نے نہ صرف عشق کیے۔ بلکہ ہر ممکن حد تک نبھائے۔

مجھے تمثال کے پانچویں عشق کا کردار سب سے زیادہ پسند آیا۔ وہ واقعی عشق کے قابل کردار تھا۔ ایسے تمام کردار جو آپ کو انکریج کریں۔ جو آپ کی محبت کا احترام کریں۔ اور جو آپ کو عزت بھی دیں۔ وہ قابل محبت ہیں۔ اس کردار کی موت پڑھ کے تو کچھ دیر تک میں بھی صدمے میں رہی۔ اس پانچویں عشق کے بیٹے کا کردار بہت خوبصورت رہا۔ زندگی میں ایسے ہی لوگوں کے دم سے محبت پہ اعتبار قائم ہے۔

تمثال کے ڈاکٹر سے مجھے تھوڑا اختلاف رہا۔ وہی اختلاف جو آگے چل کے رعنا نے تمثال کو بتائے۔ مگر مجھے سب سے زیادہ دکھ رعنا اور راحمہ کے رویے سے پہنچا۔ جو دوست ہونے کی دعوے دار تو تھیں۔ مگر ان کی دوستی ایک بودی اور بے بنیاد سی بات پہ ختم ہو گئی۔ اگر دوستی میں ٹرسٹ نہیں۔ تو پھر وہ دوستی نہیں وقت گزاری ہے۔ مجھے کہیں نہ کہیں کچھ باتوں میں کچھ معاملات میں یوں لگا۔ جیسے یہ میری کہانی ہے۔ شاید یہ ہر اس عورت کی کہانی ہے۔ جو بولڈ ہے۔ جو معاشرے کے طے کیے پیرامیٹرز پہ چلنے سے انکار کرنے لگتی ہے۔ جو اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہے۔ ہر وہ عورت تمثال ہے۔ جو تمثال کی طرح ڈٹ کے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے۔ اور پھر اپنا سو فیصد اس رشتے کو دیتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں بند کمروں میں سب کچھ چلتا ہے۔ محبتیں بھی، جنسی معاملات بھی۔ مگر ان کو تسلیم کرنا دل گردے کا کام ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اگر ڈاکٹر خالد سہیل تمثال کا نفسیاتی تجزیہ کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ میں تمثال ہوں کو شاید لوگ اس طرح پسند نہ کریں۔ کیونکہ یہ ایک عورت کی کہانی ہے۔ ایسی عورت جو اپنے آپ کو پہچانتی ہے۔ جو ایک زندگی سے بھرپور عورت ہے۔ جو دمکنے کے لیے بنی ہے۔ محبت کرنے کے لیے بنی ہے۔ میں تمثال سے ضرور ملنا چاہوں گی۔ اگر یہ کالم تمثال تک پہنچے اور وہ اسے پڑھے تو یہ یقین رکھے کہ دنیا میں ایک عورت ایسی ضرور ہے۔ جو اسے صرف پڑھ کے اس سے محبت محسوس کر رہی ہے۔ وہ عورت میں ہوں۔ جیتی رہو تمثال۔ اور سچ لکھتی رہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).