گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ: مستقبل کی سیاست کی ضرورت


ریاستی اور حکومتی معاملات طے کردہ ضابطے کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ اس ضابطے کو آئین کہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ امور 1973ء کے آئین کے مطابق نمٹائے جا رہے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو اس آئین کے نفاذ سے اب تک حکومتی معاملات چلانے اور ریاستی معاملات سنبھالنے میں بہت سی الجھنیں اور پیچیدگیاں درپیش رہی ہیں اور اب تک ہیں۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

1973ء کے آئین کو متفقہ آئین کہا جاتا ہے لیکن اب کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ اس وقت کے چند بلوچ اراکین اسمبلی نے اس آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔اگر ایسا ہے تو پھر کیا یہ آئین متفقہ نہیں اکثریتی ہے؟ آئین کے مطابق جمہوری حکومتوں میں تسلسل ہونا چاہیے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ آئین کے نفاذ کے بعد جمہوری حکومتوں میں تسلسل نہیں ہے۔ تو پھر کیا یہ آئین میں کسی جھول کی وجہ سے ہے؟

1973ء کے آئین کے مطابق پاکستان میں مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور آئین کو توڑنے والے کی سزا ایک غدار کی قرار پائی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ آئین کے نفاذ کے 47 برس کے دوران اب تک 2 مرتبہ آئین توڑا گیا اور تقریباً 20 برس تک مارشل لاء لگا رہا۔

آئین توڑنے اور مارشل لاء لگانے والے کو غداری کی سزا بھی نہیں دی گئی بلکہ مارشل لاء لگانے والے دونوں جرنیلوں نے اپنی اپنی سیاسی پارٹیاں قائم کیں۔ کیا پاکستان میں مارشل لاء لگتے رہنے کا سبب آئین کا فلیکسی بل نہ ہونا ہے اور مارشل لاء لگانے والے کو سزا نہ ملنا کیا آئین چلانے والوں کی کمزوری اور مفاد پرستی ہے؟ اسی آئین کی کتاب میں لکھا گیا تھا کہ جمہوری حکومت کی میعاد 5 سال ہوگی لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ 2008ء سے پہلے کی تمام جمہوری حکومتیں 5 سال سے قبل ہی رخصت ہو گئیں۔

2008 ء کے بعد بننے والی جمہوری حکومتوں کو بھی کچھ عرصے بعد سے ہی مڈٹرم الیکشنز اور مستعفی ہوجاؤ کے بھرپور دباؤ کا مسلسل سامنا رہا ہے۔ آئین کے تحت بننے والی جمہوری حکومتیں اپنی میعاد پوری نہیں کرپائیں۔ کیا یہ آئین انہیں اپنی میعاد پوری کرنے کے لیے پورا تحفظ نہیں دیتا؟

1973ء کے آئین میں انتخابات کا طریقہ کار واضح طور پر درج ہے جس کے مطابق ملک بھر میں موجود حلقہ بندیوں سے سیاسی جماعتوں کے امیدوار قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے الیکشن میں حصہ لیں گے اور زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا فرد رکن اسمبلی بنے گا اور جس سیاسی پارٹی کے اراکین کی تعداد زیادہ ہوگی وہ اپنی حکومت بنائے گی۔

یہ بات ہم سب کے تجربے اور مشاہدے کی ہے کہ انتخابات کے اس عمل کے دوران روپیہ پیسہ، برادری، فرقہ وارانہ تعصب، صوبائی تعصب، لسانی تعصب اور کسی حد تک بدمعاشی وغیرہ کا دور دورہ ہوتا ہے جو کہ مخصوص لوگوں یا گروہوں کا ہی کام ہے جن کی سرپرستی عموماً سیاسی جماعتیں کرتی ہیں اور یہی لوگ ان سیاسی جماعتوں کے نام پر اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے ہیں۔ اب آپ غور کریں کہ عام لوگ انتخابات میں نہ تو روپیہ پیسہ بہانے کی سکت رکھتے ہیں نہ برادری ازم سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی بدمعاشی کے طور طریقے اپنا سکتے ہیں۔

اس طرح منطقی طور پر وہ پاکستان میں انتخابات کے جاری روایتی طریقوں کے تحت انتخاب لڑنے کے اہل نہیں رہتے جو کہ جمہوریت کی اصل روح کے خلاف ہے۔ تو پھر کیا یہ آئین عام فرد کو اسمبلیوں میں لانے کے لیے مددگار ہے یا اس کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے ذریعے طاقتور لوگ ہی اسمبلی میں آسکتے ہیں؟

1973ء کے آئین کے مطابق اکثریتی پارٹی اپنی حکومت بنائے گی۔ اس طرح جو جماعت اکثریت میں آئے وہ اپنی اکثریت قائم رکھنے کے لیے اپنے ممبران کے ہاتھوں آسانی سے بلیک میل ہوتی رہے گی اور اگر کوئی جماعت پوری طرح اکثریت حاصل کرنے کی بجائے اکثریت کے قریب قریب ہو تو مکمل اکثریت حاصل کرنے کے لیے دوسری جماعتوں سے الحاق کرے گی جو کہ بلیک میل ہونے کا ایک آسان راستہ ہوگا۔

1973ء کے بعد دیکھا جائے تو تمام جمہوری اسمبلیوں میں اپنی اکثریت قائم رکھنے یا حاصل کرنے کے لیے تقریباً سب حکومتیں بلیک میل ہوتی آئی ہیں۔ اس طرح حکومت قائم رکھنے کے شوق میں حکومتی جماعتیں اپنے ممبران اور اتحادیوں کی سیوا میں لگی رہی ہیں جبکہ عوام سوتیلے ہوتے گئے۔ تو پھر کیا یہ آئین عام لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے حکومت بنواتا ہے یا حکومت قائم رکھنے کے لیے اپنے اور اتحادی اراکین اسمبلی کی خدمت کرواتا ہے؟

1973ء کے آئین میں تحریر ہے کہ حکومت اور تمام حکومتی معاملات صرف اور صرف سول افراد ہی چلائیں گے جبکہ مسلمانوں کی تاریخ اور پاکستان کے زمینی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ حکومتی معاملات میں سپہ سالاروں اور مسلح افواج کا عمل دخل ضرور رہا ہے۔ اسی لیے 1973ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد تمام سول حکومتوں کا فوج سے بالواسطہ یا بلا واسطہ الجھاؤ نظر آیا۔ تو پھر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فوج اور سول اداروں کے حکومتی معاملات میں اختیارات کے حوالے سے آئین میں کوئی عبارت کم لکھی گئی ہے؟

1973ء کے آئین کے مطابق صدر اور وزیراعظم کے دو دفاتر موجود ہیں۔ ان اعلیٰ ترین دفاتر کے بارے میں غور کریں تو ان کے درمیان آپس میں اختلافات رہے ہیں یا اختلافات ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان دو علیحدہ علیحدہ دفاتر پر بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں۔ ایسے اعلیٰ ترین عہدوں کے دفاتر دو ہوں یا ایک، عوام کو شاید کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر ان دو دفاتر کو ایک بنا دیا جائے تو اخراجات اور اختلافات میں بہت کمی واقع ہو گی جس سے سازشی مایوس اور عوام سکھی ہوں گے۔کیا آئین کے ذریعے ہی ایسا نہیں ہو سکتا؟

1973ء کے آئین میں اب تک 20 ترامیم ہو چکی ہیں جن میں سب سے لمبی چوڑی 18 ویں ترمیم ہے۔ اس ایک ترمیم کے اندر 100 سے زائد نکات تھے جو تجزیہ نگاروں کے نزدیک علیحدہ علیحدہ ترامیم تھیں۔ گویا 18 ویں ترمیم کو 100 سے زائد ترامیم پر چھتری بناکر رکھ دیا گیا۔ اگر 1973ء کے آئین میں اس قدر ترامیم کی ضرورت تھی اور اس کے بعد بھی ابھی مکمل اطمینان موجود نہیں ہے تو کیا اسے ایک مکمل آئین کہا جاسکتا ہے؟

ملکوں اور قوموں کے لیے آئین اور معاہدے اس لیے ہوتے ہیں کہ وہاں کے لوگ ایک بہترین نظم و نسق کے ساتھ رہ سکیں اور ان کا نظم و نسق چلانے والی حکومت بہترین ضابطے اور قواعد کے تحت حکومت چلائے لیکن اگر یہ نتائج کسی آئین یا معاہدے سے حاصل نہ ہو رہے ہوں تو کیا اس کی جگہ نئے آئین کے بارے میں وہاں کے لوگوں کا مل جل کر سوچنا جمہوری عمل نہیں ہوگا؟ ویسے بھی اسمبلی والے مختلف ترامیم پر متفق تو ہو ہی جاتے ہیں۔ اس لیے مستقبل کی سیاست کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).