اب اورنگ آباد کا نام سمبھاجی نگر رکھنے کی منطق کیا ہے؟


 

اورنگزیب

‘اس سرزمین نے بے تحاشا تباہی دیکھی ہے، اس کے جسم بے شمار زخموں سے چھلنی ہے، ان سب کے باوجود حیدرآباد کوئی مثال نہیں ہے۔’ حیدرآباد کے بارے میں یہ قول راگھویندر عالم پور کا ہے۔ لیکن یہاں آپ اورنگ آباد کو حیدرآباد کی جگہ پر رکھ سکتے ہیں۔ باقی سب ایک جیسا ہے۔

اورنگ آباد اور حیدرآباد میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں شہر کثیر الجہت ثقافت اور حسن اخلاق کے لیے مشہور ہیں۔

اورنگ آباد کبھی دکن میں طاقت کا مرکز تھا۔ یہ بہت سی سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے۔

جب نظام خاندان نے اپنے اقتدار کی بنیاد رکھی تو اورنگ آباد نے کافی اہمیت حاصل کرلی۔ اگرچہ نظام کا دارالحکومت حیدرآباد تھا لیکن اورنگ آباد کو دوسرا دارالحکومت ہونے کا شرف حاصل تھا۔

چونکہ یہ نظام کی سلطنت کے نواح میں سب سے بڑا اور اہم شہر تھا لہذا اس کو مخصوص درجہ حاصل تھا۔

لیکن آج حیدرآباد اورنگ آباد دونوں ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ حیدرآباد کا نام ‘بھاگیہ نگر’ اور اورنگ آباد کا نام ‘سمبھاجی نگر’ رکھنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

‘لو اورنگ آباد’ اور ‘سپر سمبھاجی نگر’

اورنگ آباد سٹی اور اورنگ آباد ضلع کا نام تبدیل کرنے کی بحث تھوڑے تھوڑے وقفے سے اٹھتی رہتی ہے۔

حال ہی میں اورنگ آباد شہر میں جگہ جگہ ‘لو اورنگ آباد’ اور ‘سپر سمبھاجی نگر’ لکھے ہوئے سائن بورڈز نظر آئے۔

اس نے ایک بار پھر شہر کے نام پر تنازعے کو ہوا دی اور کئی سیاسی جماعتیں اس میں کود پڑیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کہنا ہے کہ ‘شیوسینا کئی سالوں سے اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ریاست میں اب شیوسینا اقتدار میں ہے، لہذا اسے شہر کا نام سمبھاجی نگر رکھ کر یہ مطالبہ پورا کرنا چاہیے۔

دوسری طرف کانگریس نے واضح کیا ہے کہ ‘وہ شہر کا نام تبدیل کرنے کے کسی بھی اقدام کی شدید مخالفت کرے گی۔’

اس معاملے پر کانگریس اور شیوسینا کی مخلوط حکومت کے درمیان فرق ہے۔ وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے نے کہا ہے کہ ‘اتحاد کی مخلوط حکومت سیکولرازم کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور مغل شہنشاہ اورنگزیب اس خانے میں فٹ نہیں بیٹھتے ہیں۔ وہ سیکولر نہیں تھے۔’

ٹھاکرے نے اپنے حالیہ بیانات میں کئی بار اورنگ آباد کو ‘سمبھاجی نگر’ کہا ہے جس پر کانگریس پارٹی کو اعتراض ہے۔

کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے یہ مسئلہ ترجیحی نہیں ہے۔ اس پر تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کانگریس پارٹی نام کی تبدیلی کی سیاست کے خلاف ہے جس سے معاشرے میں دراڑ پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ تاہم کانگریس پارٹی نے بھی واضح کیا ہے کہ انھیں سمبھاجی مہاراج سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

مہاراشٹرا نو نرمان سینا نے اورنگ آباد کا نام بدلنے کے لیے جاری مہم کی حمایت کی ہے۔

شیوسینا نے اپنے ترجمان اخبار ‘سامنا’ میں اپنا مؤقف واضح کردیا ہے۔ سامنا کے اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ ‘بالاحصاب ٹھاکرے نے اورنگ آباد کا نام’ سمبھاجی نگر ‘رکھا تھا اور لوگوں نے اسے قبول کرلیا تھا۔’

لیکن اورنگ آباد اکثر مقامی سیاست کی وجہ سے سرخیوں میں رہا ہے۔ اگر ہم شہری انتخابی حلقے پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کو اتنی اہمیت کیوں دے رہی ہیں۔ اس شہر کے نام کا معاملہ بار بار کیوں سامنے آتا ہے؟

دراصل اورنگ آباد میں زیادہ ہندو آبادی ہے لیکن مسلم آبادی بھی کم نہیں ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے نام کو سیاسی مقاصد کے لیے تبدیل کرنے کے لیے زور و شور اسے اٹھایا جاتا ہے۔

راجت داگ سے اورنگ آباد تک

اورنگ آباد میں مقیم ریٹائرڈ پروفیسر اور مورخ دلاری قریشی کا کہنا ہے کہ ‘عام طور پر اورنگ آباد کی معلوم تاریخ صرف یادو خاندان تک ہی محدود رہی ہے لیکن یہاں ستوہنا سلطنت اور اس دور کے شواہد بھی ہیں۔’

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘کنہری کے غاروں میں جو کتبے ہیں ان میں ستوہنوں نے اورنگ آباد کا ذکر راجت داگ کے طور پر کیا ہے۔ یہ غاریں اورنگ آباد یونیورسٹی (ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد) میں ہیں۔ دراصل یہ تجارتی راستے میں ایک اہم مرکز تھا۔ یہ تجارتی راستہ اججین مہیشتی-برہان پور-اجنتا-بھوکاردن-راجت داگ-پریٹشٹھان سینٹر سے ہوتا ہوا گزرتا تھا۔’

یادووں کے عہد میں دیوگیری یعنی دولت آباد ایک نمایاں مقام بن گیا تھا۔ بعد میں علاؤالدین خلجی نے دولت آباد کے قلعے پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔

دیوگری یا دولت آباد

دیوگری یا دولت آباد

سنہ 1327 میں محمد بن تغلق نے دارالحکومت کو دہلی سے دولت آباد منتقل کرنے کا فرمان جاری کیا تھا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ لیکن سنہ 1334 میں اس نے اپنا خیال بدل لیا اور دہلی کو دارالحکومت رکھنے کا فیصلہ کیا۔

سنہ 1499 میں دولت آباد احمد نگر کے نظام شاہی کے زیر اقتدار آیا۔ اگلے 137 سال تک دولت آباد نظام کے قبضے میں رہا۔

تغلق کے دور حکومت میں دولت آباد میں تعمیراتی کام

چونکہ محمد بن تغلق اپنا دارالحکومت دہلی سے دولت آباد منتقل کرنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے راستے میں کئی جگہوں پر سرائے قائم کی، کنویں کھدوائے اور مساجد بنوائیں۔ اورنگ آباد بھی ایسی ہی ایک جگہ تھی۔

دلاری قریشی کا کہنا ہے کہ تغلق نے اورنگ آباد میں ایک جگہ پر ایک سرائے، کنواں اور مسجد تعمیر کرائی تھی۔ آج اس جگہ کو ‘جونا بازار’ کہا جاتا ہے۔

کھڈکی اور چکلٹھانا

ملک عنبر احمد نگر کے نظام کے وزیر اعظم اور کمانڈر تھے۔ انھوں نے چکلٹھانہ کی لڑائی میں مغلوں کو شکست دی تھی۔

ملک عنبر کو یہ مقام بہت پسند تھا۔ انھوں نے کھڈکی گاؤں کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا اور اسی پر اورنگ آباد شہر کی پہلی بنیاد رکھی گئی۔

ملک امبر نے یہاں سڑکیں، پل اور پانی کی فراہمی کے لیے نہریں تعمیر کرائیں۔ انھوں نے نوکھنڈا جیسے محل بھی بنوائے تھے۔

انھوں نے پرتگالیوں کے لیے ایک چرچ بھی بنایا (ملک عنبر جنجیرہ میں اپنے کام کے دوران پرتگالیوں کے رابطے میں آئے تھے)۔

دولت آباد

محمد بن تغلق کے دور حکومت مین دولت آباد میں بہت سے تعمیراتی کام ہوئے

مسماری کے باوجود وجود قائم رہا

مغل بادشاہ جہانگیر نے سنہ 1616 میں کھڈکی پر حملہ کیا اور شہر کو تباہ و برباد کردیا۔

بادشاہ کی افواج نے اتنی تباہی مچا‏ئی کہ شہر کو ہوش میں آنے میں کئی دہائیاں لگ گئیں۔ ملک عنبر نے اسے دوبارہ بنانے کی کوشش کی لیکن سنہ 1626 میں اس کی موت ہو گئی۔

فتح نگر سے خزیستہ کی بنیاد تک

کچھ سالوں کے بعد ملک عنبر کا بیٹا فتح خان کچھ وقت کے لیے کھڈکی آیا۔

تاریخ کے اسکالر پشکر سوہنی کہتے ہیں: ‘انھوں نے اس شہر کا نیا نام فتح نگر رکھا۔ لیکن مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنے بیٹے اورنگزیب کو سنہ 1636 میں دکن کا صوبیدار بنا دیا۔ اس وقت اس شہر کا نام تبدیل کر دیا گیا۔’

سنہ 1657 کے بعد ، خوزیستہ بنیاد کا نام اورنگ آباد رکھ دیا گیا۔ اورنگ آباد مغل تاریخ میں اتنا ہی اہم ہے جتنا لاہور، دہلی اور برہان پور۔

ملک عنبر

ملک عنبر

اورنگزیب کا پسندیدہ شہر

ابتدا میں اورنگزیب کا قیام کچھ دیر دولت آباد میں رہا لیکن بعد میں وہ خوزیستہ بنیاد چلے گئے۔

انھیں یہ جگہ پسند آ گئی، لہذا ایک بڑی تعداد وہاں آکر آباد ہوگئی۔ شہر میں باون پورہ بسائے گئے۔ اس کی قلعہ بندی کی گئی۔ بعد میں اسے دکن کا دارالحکومت بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ملک عنبر کی طرح اورن زیب نے بھی 11 نہریں تعمیر کرائیں۔

دلاری قریشی بتاتی ہیں کہ بہت سارے سیاحوں نے اس شہر کی خوبصورتی کا ذکر ہے۔

انھوں نے کہا: ‘اورنگ آباد کا ایک ایسے شہر ذکر کیا گیا ہے جہاں ہوا خوشبو سے بھری ہے، جہاں پانی امرت (آب حیات) کی طرح ہو۔ اورنگزیب سنہ 1681 میں یہاں آیا تھا اور پھر اس نے کبھی دکن نہیں چھوڑا۔ شہنشاہ اورنگزیب نے یہاں خلد آباد میں ایک چھوٹا سا مقبرہ تعمیر کرنے اور اس پر تلسی کے پودے لگانے کی وصیت کی تھی۔

بادشاہ جہانگیر

بادشاہ جہانگیر

آصف جاہی حکومت

اورنگزیب کی موت کے بعد دکن میں مغل حکمرانی پہلے کی طرح کبھی طاقتور نہیں ہوسکی۔

یہاں صوبیدار کی حیثیت سے آنے والے نظام آصف جاہ اول نے مغلوں کے خلاف بغاوت کی اور اپنا اقتدار قائم کیا۔ لیکن اورنگ آباد ان کا بھی ریاستی دارالحکومت رہا۔

تیسرے نظام نے سنہ 1761 میں حیدرآباد میں اپنا دارالحکومت قائم کیا۔ تب تک اورنگ آباد بہت سارے بادشاہوں کا دارالحکومت رہا تھا۔

ہوسکتا ہے کہ حیدرآباد نیا دارالحکومت بن گیا ہو لیکن اورنگ آباد کی اس کے بعد بھی پرانے دارالحکومت کے طور پر اہمیت قائم رہی۔

سنہ 1948 میں جب ریاست حیدرآباد کو انڈیا میں ضم کر لیا گیا تو اورنگ آباد کے ساتھ مراٹھاواڑ کا علاقہ بھی انڈیا کا حصہ بن گیا۔

بادشاہ اورنگزیب

بادشاہ اورنگزیب

اورنگ آباد سمبھاجی نگر بنانے کی کوشش کب شروع ہوئی؟

شیوسینا نے سنہ 1988 میں اورنگ آباد میونسپل انتخابات میں 27 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد بالا صاحب ٹھاکرے نے ثقافتی منڈل میدان میں ایک ریلی سے خطاب کیا۔ اس ریلی میں انھوں نے اعلان کیا کہ اورنگ آباد کا نام سمبھاجی نگر ہوگا۔

اس کے بعد شیوسینا کارکن آج بھی اورنگ آباد کو سمبھاجی نگر کہتے ہیں۔ اور شیو سینا کے ترجمان اخبار میں بھی اسے سمبھاجی نگر ہی لکھا جاتا ہے۔

جب بھی بلدیاتی انتخابات میں اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ انتخابی مسئلہ بن جاتا ہے۔

پہلی شیوسینا-بی جے پی حکومت کے دوران منظوری

در حقیقت سنہ 1995 میں اورنگ آباد بلدیہ کے ایک اجلاس میں اورنگ آباد کو سمبھاجی نگر بنانے کی قرارداد منظور کی گئی۔

اس کے بعد اسے ریاستی حکومت کو بھیج دیا گیا۔ سنہ 1995 میں مہاراشٹر میں شیوسینا-بی جے پی کی مخلوط حکومت تھی۔

اس وقت سابق رکن پارلیمان چندرکانت کھیرے اورنگ آباد کے سرپرست وزیر تھے۔ اسمبلی کے سابق اسپیکر ہری بھاؤ باگڈے ضلع جالنا کے سرپرست وزیر تھے۔

انھوں نے کابینہ کے اجلاس میں اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی جسے قبول کرلیا گیا۔

چندرکانت کھیرے نے بی بی سی مراٹھی سے پہلے کی گفتگو میں کہا تھا: ‘جب 1995 میں شیوسینا-بی جے پی کی مخلوط حکومت تھی تو کابینہ نے اورنگ آباد کا نام سمبھاجی نگر رکھنے کے تجویز کو منظور کیا تھا۔ ہم نے اس کا نام سمبھاجی نگر رکھ دیا۔ لیکن کسی نے عدالت میں اپیل کی۔ ہائی کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ نے بھی ہمارے حق میں فیصلہ کیا۔ لیکن اس دوران ہمارا اتحاد الیکشن ہار گیا اور اورنگ آباد کا معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا۔’

جب ان سے پوچھا گیا کہ اورنگ آباد شہر کا نام سمبھا جی نگر کیوں رکھا جائے؟ تو انھوں نے کہا کہ اس کا نام اورنگ زیب جیسے ‘ڈکٹیٹر’ حکمراں کے نام پر نہیں رہنا چاہیے۔

انھوں نے کہا: ‘ایک وقت میں اس شہر کا نام کھڈکی تھا۔ اورنگزیب نے نام تبدیل کرکے اورنگ آباد کردیا۔ اورنگزیب نے سمبھاجی مہاراج کو سونیری محل میں چار ماہ تک قید رکھا۔ ان کے خلاف یہاں مقدمہ چلا۔ وہ ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ لہذا اسی لیے ہم اس کا نام سمبھاجی نگر رکھنا چاہتے ہیں۔’

سنہ 1996 میں شیوسینا-بی جے پی اتحاد کی کابینہ نے سمبھاجی نگر کے نام کو منظور کیا تھا۔ لیکن اس وقت اورنگ آباد بلدیہ کے کونسلر مشتاق احمد نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا۔ سنہ 2018 میں مشتاق احمد نے بی بی سی مراٹھی سے اس بارے میں بات کی۔

انھوں نے کہا تھا: ‘1996 میں اس وقت کی ریاستی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص اورنگ آباد کے نام کے بارے میں کو اعتراض درج کرنا چاہتا ہے تو کرا سکتا ہے۔ ہم نے اس نوٹیفکیشن میں نام تبدیل کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی لیکن عدالت نے یہ استدعا مسترد کردی کہ معاملہ ابھی نوٹیفیکیشن تک ہی محدود ہے۔ اپیل قبل از وقت ہے۔’

مشتاق نے بتایا کہ ‘پھر ہم نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ سپریم کورٹ نے درخواست منظور کر لی اور ریاستی حکومت کو سخت و سست کہا۔ ایک جج نے ریاستی حکومت کو یہ کہتے ہوئے سرزنش کی کہ شہروں کے نام تبدیل کرنے کے بجائے ان کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن مزید سماعت سے پہلے ریاست میں کانگریس اور این سی پی کی مخلوط حکومت آ گئی ہے۔

‘وزیراعلیٰ ولاسراؤ دیش مکھ نے اورنگ آباد کا نام سمبھاجی نگر رکھنے کا نوٹیفکیشن منسوخ کردیا اور پھر اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں دائر ہماری درخواست فطری طور پر خارج ہو گئی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp