خوشحالی کا فارمولا اور تاریخ کا درس


\"\"جدید ریاست اپنی اساس میں سماج کے انتظامی بندوبست کا ڈھانچہ ہوتی ہے لہٰذا اس سے متعلق ہماری سوچ، فکر، دانش، جدوجہد اور فہم و فراست کا ارتکاز صرف معاشرے کے انتظام پر ہی ہونا چاہیے۔
جب سماج، سیاست اور ریاست سے متعلق ہم اپنی سوچوں اور ذہنی صلاحیتوں کو انتظامی امور اور مابعد از طبیعیات میں تقسیم کرتے ہیں تو اصل میں ہم خود کو دھوکہ کھانے کے لیے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ مذہب کے سہارے قائم کیا گیا اقتدار یا مذہب کے ذریعے اقتدار کو قائم رکھنے کی جدوجہد ظلم و بربریت اور ناانصافی کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا موجب ہی بنی ہے۔
بنو امیہ، بنو عباس اور عثمانیوں کی حکومتوں سے لے کر مغلوں کی شہنشاہیت تک کا زمانہ یہی پتہ دیتا ہے کہ جہاں اہلیانِ اقتدار کے محلوں میں شرابوں اور ہزاروں لونڈیوں تک کی سہولیات میسر تھیں وہاں رعایا کے مقدر میں فاقہ کشی اور محرومیاں رقص کرتی تھیں اور ملا جہاں حکمران طبقے کے لیے ہر قسم کے ظلم و ستم اور قتل و بربریت کے لیے شرعی جواز گھڑتا رہا وہیں محروم طبقات کو ”دنیا چند روزہ ہے“ کا بھاشن دے کر صبر کی تلقین کرتا اور اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ بخشتا رہا۔

پچھلے پانچ چھ برسوں سے شام میں مذہب کے سہارے اقتدار چھیننے اور اقتدار قائم رکھنے کی جنگ میں لاکھوں بے گناہ بارود اور گولی کی نظر ہو چکے ہیں اور باقی اپنا گھر بار چھوڑ کر امریکہ، ترکی و یورپ میں در بدر بھٹک رہے ہیں جبکہ تمام تر بربریت کے باوجود داعش و بشار الاسد کو مسلکی بنیادوں پر لاکھوں افراد کی حمایت حاصل ہے۔

ذرا تصور کیجئے کہ اگر شام میں اقتدار کی لڑائی مذہب و مسلک اور تعصب کی بجائے فقط سماجی انتظام کو مد نظر رکھ کر لڑی جاتی تو کیا پھر بھی اتنا ہی نقصان ہوتا؟
نہیں اور ہر گز نہیں کیونکہ انتظامی ضروریات و امور کے مسالک نہیں ہوتے روٹی، کپڑا، مکان، امن و امان اور بہتر معیار زندگی کی خواہش تمام مزاہب و مسالک کے ماننے والوں کو یکساں ہوتی ہے لہٰذا بشار الاسد خود کو انتظامی امور کا اہل ثابت کرتا اور انسانی حقوق کو یقینی بناتا یا پھر عوامی احتجاج کے ہاتھوں مجبور ہو کر اقتدار سے دستبردار ہو جاتا۔

شام میں جاری ظلم و ستم کی فلم کا ٹریلر ہم اپنے گھر یعنی پاکستان میں بھی دیکھ چکے ہیں جب طالبان نے نفاذ شریعت و خلافت کے نام پر اقتدار چھیننے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے ستر ہزار پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اقتصادی و معاشی نقصان اس کے علاوہ ہے۔

مسلم معاشروں میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ نیا نہیں ہے جس انتشار کا ہم آج شکار ہیں یورپ تیرھویں اور سترھویں صدی کے درمیان اسی انتشار، سیاسی بحران اور ملا گردی سے کروڑوں جانیں گنوانے کے بعد کلیسا کو سیاست سے دور کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
یورپ کی خوشحالی و ترقی فیوڈل ازم کے خاتمے اور مذہب کے ریاستی امور میں مداخلت کی بندش سے ممکن ہوئی ہے۔

جب ہمیں ترقی و خوشحالی کے فارمولا واسطے چھ ہزار سالہ تجرباتی انسانی تاریخ میسر ہے تو اسی فارمولا کی خاطر خود سے تجربات کر کے نقصان اٹھانے اور وقت ضائع کرنے کی بجائے تاریخ ہی سے سیکھ لینا چاہیے۔ ہمیں یہ سیکھ لینا چاہیے ریاست کا مقصد مادی ضروریات اور انسانی حقوق سے جڑا ہے نا کہ الہامی پیغام اور مابعد از طبیعیات کے معاملات سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments