مچھ میں کان کنوں کا قتل: عمران خان کے دورے اور معاہدے پر ہزارہ برادری کیا کہتی ہے؟


عمران خان، ہزارہ، مچھ
ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کا یہ خیال تھا کہ وزیر اعظم مچھ میں قتل کیے جانے والے کان کنوں کے لواحقین سے ملاقات کے لیے ہزارہ ٹاؤن کی امام بارگاہ ولی العصر میں آئیں گے جہاں وہ فاتحہ لینے کے لیے بیٹھے تھے مگر ان کے وہاں آنے کے بجائے لواحقین اور دھرنا کمیٹی کے اراکین کو ان سے ملاقات کے لیے کہیں اور لے جایا گیا۔

جب صحافی کان کنوں کی تدفین کے بعد اس امام بارگاہ میں پہنچے تو وہاں لوگ استفسار کرتے دکھائی دیے کہ کیا وزیر اعظم اپنے لوگوں سے اتنے خائف ہیں کہ وہ ہزارہ ٹاؤن کا دورہ نہیں کر سکتے؟

یہ بھی پڑھیے

’چھوٹے بھائی کو کیسے بتائیں کہ اب بابا کبھی گھر نہیں آئیں گے‘

’جناب وزیِرِ اعظم! تعزیت کرنے مت جائیں مگر لواحقین کا دل تو نہ دکھائیں‘

’بلیک میلنگ کا لفظ ہزارہ برادری کے لیے نہیں پی ڈی ایم کے لیے استعمال کیا تھا‘

مچھ میں 10 ہزارہ کان کنوں کا قتل، دولتِ اسلامیہ نے ذمہ داری قبول کر لی

ان لوگوں میں پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن دُر محمد ہزارہ بھی شامل تھے جن کا کہنا تھا کہ کہہ رہے تھے کہ 2013 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف علمدار روڈ پر ہونے والے دو خودکش حملوں کے بعد دھرنے کے شرکا کے پاس آئے تھے اور ان کے مطالبے پر بلوچستان میں اپنی حکومت کو معطل کیا تھا، لیکن عمران خان نے یہاں آنے کے بجائے لواحقین کو اپنے پاس بلا لیا۔

دھرنے کے شرکا کا پہلے یہ مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ان کے پاس آئیں تو اس کے بعد لاشوں کی تدفین کی جائے گی، مگر چھٹے روز حکام اور دھرنے کے شرکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں دھرنا کمیٹی نے حکومت کی یہ بات مان لی کہ پہلے میتوں کی تدفین کی جائے، پھر وزیر اعظم آئیں گے۔

سنیچر کی دوپہر جب ہزارہ ٹاؤن میں میتوں کی تدفین مکمل ہوئی تو اس کے تھوڑی دیر بعد وزیر اعظم کوئٹہ پہنچے۔ پہلے وہ گورنر ہاؤس گئے جہاں انھوں نے ایک اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے بعد وزیر اعظم سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی پہنچے جہاں قتل ہونے والے کان کنوں کے لواحقین کو ان سے ملاقات کے لیے لے جایا گیا تھا۔

عمران خان، ہزارہ، مچھ

سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی ہزارہ ٹاؤن سے متصل بروری روڈ پر واقع ہے۔ وہاں ملاقات کرنے والوں میں ہلاک ہونے والے کان کنوں کی خواتین رشتہ دار بھی شامل تھیں۔

ملاقات کے بعد دھرنا کمیٹی کے رکن اور مجلس وحدت المسلمین کے رہنما آغا رضا نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ لواحقین حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے مطمئن ہیں، اسی لیے دھرنے کو ختم کیا گیا۔

اس معاہدے میں کیا چیز منفرد ہے؟

آغا رضا نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ دھرنے کے شرکاء کے جو مطالبات تھے ان سب کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔

معاہدے کی جو شقیں ہیں ان میں سے زیادہ تر وہی ہیں جو کہ ماضی میں ایسے دھرنوں کے مواقع پر ہوتے رہے ہیں لیکن اس میں عملدرآمد کے حوالے سے منفرد بات لواحقین کو معاوضوں کی فوری ادائیگی کی تھی۔

انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دہشتگردی کے واقعات میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔

ماضی میں اس کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا تھا اس میں لواحقین کو معاوضوں کی ادائیگی میں نہ صرف تاخیر ہوتی تھی، بلکہ ان کی وصولی تک لوگوں کو ایک تکلیف دہ صورتحال سے گزرنا پڑتا تھا۔

تاہم آغا رضا کے مطابق اس مرتبہ لواحقین کو معاوضوں کی فوری ادائیگی کی گئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے ہر ہلاک ہونے والے کان کُن کے لواحقین کو پندرہ پندرہ لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا ہے۔

متاثرہ خاندانوں کا کیا کہنا ہے؟

وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والوں میں ایک ایسی خاتون بھی شامل تھیں جن کا بھائی سانحہ مچھ میں ہلاک ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے شرکاء کے مطالبات تسلیم ہو جانے پر اُنھوں نے دھرنا ختم کیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ملاقات میں وزیر اعظم نے کہا کہ ماضی میں ہزارہ برادری سے جتنے بھی معاہدے ہوئے وہ تحریری نہیں تھے، اور ان کی حکومت نے برادری کے مطالبات پر عملدرآمد کی یقین دہانی تحریری طور کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے یہ بھی یقین دہانی کروائی کہ آنے والے وقتوں میں ایسا نہیں ہوگا، بلکہ حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔

عمران خان، ہزارہ، مچھ

ملاقات کرنے والوں میں بزرگ شخص یعقوب علی بھی شامل تھے جن کے اس واقعے میں پانچ رشتے دار مارے گئے، جن میں ان کے بیٹے صادق اور نواسہ احمد شاہ شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا نواسہ احمد شاہ کالج میں پڑھتا تھا۔ ’چونکہ تعلیمی ادارے بند تھے، اس لیے وہ ماں باپ کے لیے کچھ کمانے کے لیے محنت مزدوری کرنے گیا تھا۔‘

جب ان سے اُن کی رائے پوچھی گئی کہ کیا اس معاہدے کے بعد حالات میں کوئی بہتری آئے گی تو ان کا جواب نفی میں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 22 سال کے دوران اُنھوں نے حالات کی بہتری کے حوالے سے بہت ساری باتیں سنیں، لیکن ایسے واقعات نہیں رک سکے۔

’22 سال کے دوران ایسی باتیں سن سن کر ہم تھک چکے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp