اے وقت، ذرا تھم جا


کس کو معلوم کہ بے خودی کیا چیز ہے؟ خاموشیوں کی زباں کو جاننا اتنا آساں تو نہیں۔ کیا پتہ کس کو معلوم خاموشی کی وجہ؟ دکھ، گلہ، ضد، انا اور بے بسی۔ کس کس چیز میں ڈھونڈئیے خاموشیوں کی زباں کو؟ ایک طرف تو سمندر کی موجوں نے بتایا کہ مستی کیا ہے؟  شمع کو پگھلنے کی آرزو ہے تو پروانے کو جلنے کی تمنا کیوں؟

انسان کی ذات پر عجیب سی کیفیت آتی ہے۔ شکوے کس سے اور گلے کس سے، جو نصیب میں نہیں ہوتا ہے تو ان پر رونا کیسا؟ کہاں گئے وہ خوبصورت لمحے جہاں پہ کچھ پل کے لیے زندگی رک سی جاتی تھی۔ نہ جانے یہ میری انا تھی یا بے بسی جو چند الفاظ کے لیے میں بے زباں ہو گیا۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ زندگی سے زیادہ خوبصورت چیز دنیا میں نہیں ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو محسوس کر لیا جائے۔ لکھ کے اور خود ضامن بن کے بتا رہا ہوں، جس حال میں جی رہا ہوں، بہت ہی خوبصورت ہے۔

اس سوچ سے میرے اوسان خطا ہوتے ہیں کہ وقت کی رفتار بہت تیز ہے، ایسا نہ ہو کہ صرف یادیں ہی رہ جائیں کیونکہ میں اس وقت کو محسوس کرنا چاہتا ہوں، جو کل کی خوبصورت یادیں بننے والی ہے۔ کچھ ایسے لمحے اور واقعات جنہیں صرف سوچا جا سکتا ہے، میں نے دیکھتے دیکھتے انہیں محسوس کیا۔ لیکن گواہ رہے میرا دل اور میرا ضمیر کہ لب پہ کبھی کچھ نہ آیا۔ بس ہر چیز کو گہرائی سے محسوس کیا۔ اگر زندگی کے ان لمحوں کو روکنے کا کوئی ذریعہ ہوتا تو میں ضرور کوشش کرتا۔

یقین مانیں کہ بعض دفعہ خاموشیاں چہچہاتی ہے، لیکن سننے کے لیے خاص لوگ چاہییں۔ اگر کچھ لمحوں پر اتنی تصانیف لکھی جائیں کہ شہر نا پرساں کے لائبریریاں بھر جائیں۔ کچھ چیزوں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا فقدان پڑ جاتا ہے۔ کبھی کبھار انسان کو ایک ایسی کہانی میں سفر کی ضرورت پڑتی ہے کہ جس کی ابتدا میں ساری عمر گزر جائے اور انتہا کا ذکر ہی نہ ہو۔

کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن یہ اقرار میرا مرشد یعنی میرا قلب کرتا ہے کہ اگر حقیقت میں زندگی کو گہرائی سے محسوس کرنا چاہتے ہو، تو خاموش فضاؤں میں تنہائی اختیار کرو۔ دنیا آپ کو ایک کھلونے کی طرح لگے لگی۔ آج پھر کچھ حد تک ناکام کوشش کی کہ وہ سب چیزیں زباں پر آئیں جو کہ میں کہنا چاہتا ہوں۔

کبھی کبھی تو یوں محسوس کرتا ہوں کہ بہت سی ناکامیوں اور محرومیوں کا شکار ہوں۔ مکمل طور پر ادھورا ہوں۔ میں جس طرح سوچتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں، شاید حقیقت میں اس طرح کوئی بھی چیز نہ ہو۔ یہ صرف میرے بکھرے ہوئے خیالات ہیں لیکن پھر بھی اتنی بے چینی اور بے سکونی کیوں؟

میرا یقین کیجیے کہ جس طرح میں نے دنیا اور زندگی کو محسوس کیا۔ اس میں اگر خوشی کا وجود ہے تو وہ بھی آنسوؤں کے بدلے میں ہے۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، میں اس غم اور درد کی تلاش میں ہوں، جس سے میری چشم سے آنسوؤں کے ساتھ لب پہ تبسم اور ہنسی آ جائے۔ نہیں جانتا کہ کیا ہے جو میں ہر دفعہ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور آخر میں سب کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔ بس آخر میں اتنا ضرور لکھوں گا کہ اے وقت! ذرا تھم جا! مجھے بہت کچھ کہنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).