ریپ، ٹو فنگر ٹیسٹ اور عورت کی عزت نفس


لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ نے جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے مروجہ طبی معائنے کو عورت کی عزت نفس کے متصادم قرار دیتے ہوئے ٹو فنگر ٹیسٹ کو منسوخ کر کے بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق پنجاب حکومت کو قانون وضع کرنے کا حکم دیا ہے۔ جنسی تشدد کی شکار خواتین کے لیڈی ڈاکٹر سے معائنے کے طریق کار کو درست نہ سمجھتے ہوئے شاید یہ تصور کیا گیا ہے کہ دراصل ریپ کنواری لڑکی کی عزت نفس کو اتنا مجروح نہیں کرتا جتنا لیڈی ڈاکٹر کی رپورٹ جو یہ بتاتی ہے کہ ریپ شدہ خاتون کی وجائنا میں دو انگلیاں داخل کی جا سکتی ہیں اور اگر کی جا سکتی ہیں تو اس عمل میں لڑکی کو درد ہوتا ہے یا نہیں۔

دوسرا یہ کہ لڑکی کا پردہ بکارت محفوظ ہے یا پھٹا ہوا۔ ان کے مطابق شاید یہ تصور کیا گیا ہے کہ لیڈی ڈاکٹر کی رپورٹ سے ملزم فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ چونکہ لڑکی کا پردہ بکارت پھٹا ہوا ہے اور اس کی وجائنا میں دو انگلیاں بغیر درد کے ڈالی جا سکتی ہیں لہاذا لڑکی اخلاقی طور پر کرپٹ ہے اور اس نے تو لڑکی کی مرضی سے اسے ریپ کیا ہے۔

اصل میں انسانی جسم پر کیے گئے تشدد، ریپ اور غیر فطری اموات کی جانچ کے لیے دنیا جہان میں میڈیکل سائنس ”جورس پروڈنس“ سے مدد لی جاتی ہے۔ انسانی جسم پر ہونے والے غیر فطری عوامل اور تشدد ایسے نشانات چھوڑ جاتے ہیں جو ملزم یا مجرم کا گناہ یا بے گناہی ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ریپ میں بھی میڈیکل وٹنس کی اہمیت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ لیڈی ڈاکٹر کی معائنہ رپورٹ کو پولیس فائل سے نکال دیا جائے تو یہ ثابت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے کہ ریپ ہوا ہے یا نہیں۔

صرف اس بات پر یہ شہادت ختم کر دینا کہ اس معائنے سے عورت کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، میرے خیال میں درست نہیں۔ جنسی تشدد کے گناہ گار کو باعزت بری کروانے میں پولیس کی بے عملی اور عدالت میں وکلا کے وکٹم سے سوال جواب کا عمل جتنا عورت کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے اس کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ اور اس حوالے سے قانون سازی بھی اہم سمجھی جانی چاہیے۔

یوں تو ریپ ایسا گناہ ہے جس پر آسمان بھی سو آنسو روتا ہے۔ مگر دنیا میں گناہ گار کو سزا دلوانے کے لیے جو بھی قوانین بنائے گئے ہیں ان میں اس بات کو بطور خاص ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ کوئی بے گناہ نہ پکڑا جائے۔ اس لئے سخت اور پکی گواہی کو ترجیح دی گئی ہے۔ ریپ کیس میں زیادہ تر لوگ تو اپنی عزت بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کے اوپر ہونے والے ظلم کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ حق بجانب بھی ہیں کہ بچی کے مستقبل پر کئی سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ کارروائی کرنا چاہتے ہیں اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں ایک طویل جنگ لڑنی پڑتی ہے۔

مروجہ طریق کار یہ ہے کہ لڑکی کے لواحقین تھانے جا کر ریپ کی رپورٹ درج کرواتے ہیں۔ پولیس ہی کی نگرانی میں خاتون میڈیکل افسر بچی کا معائنہ کرتی ہے۔ معائنے سے پہلے وہ بچی اور والدین سے معائنے کی تحریری اجازت لیتی ہے۔ معائنے کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک جنرل معائنہ، جس میں لیڈی ڈاکٹر بچی کی ذہنی اور جسمانی حالت بیان کرتی ہے۔ اس کی بلوغت کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کے جسم پر کسی طرح کے تشدد کی نشان دہی کرتی ہے اور ریپ کی مزاحمت کے نشان تلاش کرتی ہے جو کبھی ملتے ہیں کبھی نہیں۔ اس کے کپڑوں پر مرد کے سیمن کے دھبے تلاش کرتی ہے یہ کپڑے بھی فرانزک شہادت کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پردہ بکارت کا معائنہ کرتی ہے اور اگر پردہ بکارت موجود ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریپ کامیاب نہیں ہوا۔ اگر پردہ بکارت پھٹا ہوا ہے تو لیڈی ڈاکٹر باقاعدہ اس کے بارے لکھتی ہے کہ پردہ بکارت فریش پھٹا ہے یا پرانا۔

پھر وہ ٹو فنگر ٹیسٹ کرتی ہے اور لکھتی ہے ٹو فنگر ٹیسٹ پین فل ہے یا نہیں۔ اس کے بعد وجائنل سویب لے کر سیمن کی تشخیص اور ڈی این اے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ عام طور پر ڈاکٹر اپنی حتمی رائے نہیں دیتی حتیٰ کی لیبارٹری کی رپورٹ آ جاتی ہے جس کے بعد وہ فیصلہ کرتی ہے۔ لیڈی ڈاکٹر اپنے طور پر کسی بھی خاتون کا معائنہ نہیں کرتی۔ اس لیے ریپ کیس کا معائنہ پولیس اور وکٹم کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

ایک اور صورت تب ہوتی ہے جب پولیس کسی اغوا شدہ لڑکی کو برآمد کرتی ہے۔ ایسی صورت میں مرد اور عورت دونوں کا طبی معائنہ کرایا جاتا ہے۔ تب بھی برآمد شدہ لڑکی کی مرضی کے بغیر لیڈی ڈاکٹر معائنہ نہیں کرتی۔ اصل بات یہ ہے کہ میڈیکل جیورس کے مطابق اگر لیڈی ڈاکٹر معائنہ کرے تو وہ کبھی بھی اپنی رپورٹ میں یہ نہیں لکھتی کہ لڑکی کنواری ہے یا لڑکی کنواری نہیں۔ ہاں اس کی رپورٹ سے وکلا اور پولیس اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق نتائج اخذ کرتے اور اسے استعمال ضرور کرتے ہیں۔

میڈیکل رپورٹ کرانے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ بدقماش لوگ اپنے دشمنوں کو پھنسانے یا ان سے کوئی پرانا بدلہ لینے کے لئے اپنی بچیوں کو اس قربان گاہ پر چڑھاتے ہیں اور جھوٹے پرچے کروا کر مخالفین کو سولی چڑھانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ آپ شاید یہ بات نہ مانیں مگر میرا تیس سالہ میڈیکو لیگل تجربہ کئی بار اس مشاہدے سے حیران ہو چکا ہے۔ ایسے ہی معاملات میں صحیح میڈیکل رپورٹ وکٹم کو انصاف دلانے میں مدد کرتی ہے۔

صرف لیڈی ڈاکٹر کا معائنہ ہی تو عزت نفس کو مجروح نہیں کرتا۔ عورت کا طبی معائنہ ممنوع قرار دے دیا جائے تو صرف گواہی کی بنیاد پر جزا سزا کرنی پڑے گی۔ اس کا سراسر فائدہ ملزموں کو ہی ہوگا۔ دراصل ریپ سے بڑا عورت کا استحصال کیا ہوگا؟ اس کے بعد رشتے داروں کے توہین آمیز کلمات، پولیس کے خاتون اور لواحقین کے ساتھ روئیے، اور عدالت میں عورت پر وکلا کے سوالات کی صورت میزائل حملے، لیڈی ڈاکٹر کے معائنے سے کہیں زیادہ عورت کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں۔ ہمیں ہر لیول پر اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔ علیحدہ خواتین پولیس اسٹیشن، خاتون جج کی عدالت اور خاتون وکلا نیز پریس سے بچاؤ اس حوالے سے اہم اقدام ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).