ریپ اور قصہ ٹو فنگر ٹیسٹ کا


پنجاب حکومت کے محکمہ صحت سے راہ ورسم بہت پرانی ہے اور محبت یا عداوت کا یہ تعلق کم و بیش اٹھارہ برس تک قائم رہا۔ اس طویل رفاقت کا اختتام کچھ اس طرح سے ہوا کہ ان کی سردمہری میں تو تبدیلی آنے کے کوئی آثار نہیں نظر آتے تھے مگر ہمارا صبر جواب دیے جاتا تھا۔

اس رفاقت میں جگہ جگہ کی خاک پھانکنا پڑی، کبھی حاکم وقت کا حکم اور کبھی اپنی مجبوری۔ لیکن ایک بات تو ہوئی کہ ان زمینوں تک بھی رسائی ہوگئی جہاں شاید ہم ویسے نہ پہنچ پاتے۔ دور دراز دیہاتوں میں عورت زندگی کے نشیب و فراز سے کیسے گزرتی ہے، قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور روایات میں جکڑی وہ عورت ایک ہم نفس کی پرواز دیکھ کر کیا خواب دیکھتی ہے، یہ بھی جان لیا۔

ان شب و روز کی داستانوں میں وہ قصے بھی شامل ہیں جو میڈیکولیگل کیس نمٹانے میں پیش آئے اور جو صفحہ دل پہ لکھے گئے۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ایک طرف مگر عورت کی بےکسی نے متعدد بار آنکھوں کو نم کیا، جنہیں چھپانے کے لئے کبھی ہم رخ موڑ لیتے اور کبھی کہتے کہ شاید آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے۔

آج دل کے تار چھیڑے جانے کا سہرا ہائی کورٹ کے اس فیصلے پہ بندھتا ہے جس میں عورت کے کنوارپن کو چیک کرنے کے لئے ٹو فنگر ٹیسٹ یا دو انگلی معائنہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ پاکستان کی نصف آبادی کے حق میں ایک بڑی کامیابی تو ہے ہی لیکن ہم جیسوں کو کچھ حیرت میں بھی مبتلا کرتا ہے۔

ہم رورل ہیلتھ سنٹر ٹیکسلا، سول ہسپتال مری، رورل ہیلتھ سنٹر احمد نگر چھٹہ اور ایسے ہی نہ جانے کتنے علاقوں میں میڈیگو لیکل کیسسز اور ریپ ہونے والی خواتین کا معائنہ کر کے درجنوں رپورٹ مرتب کر چکے۔ مگر کب کیا یہ ٹو فنگر ٹیسٹ؟ کیا ہے یہ ٹو فنگر ٹیسٹ؟ کسی خاتون کے باکرہ ہونے میں آخر اس ٹیسٹ کی اہمیت کیا ہے؟

ان سوالات کا جواب تلاش کرنے سے پہلے کیوں نہ مسئلہ کو اس کی جڑ سے پکڑا جائے؟ تو چلیے دیکھتے ہیں عورت کے کنوار پن کے معنی کیا ہیں آخر؟

‎ ان چھیڑ، چیرا بند، بن بیاہی، در ناسفتہ، غنچہ نا شگفتہ، باکرہ، ناکتخدا، دوشیزہ۔۔۔۔ پدر سوختہ آرزو مندی نے کیسی کیسی لب سوز اصطلاحات گھڑ رکھی ہیں۔

‎ارے الجھیے نہیں، ہم بتائے دیتے ہیں۔

‎مفہوم عام میں وہ لڑکی جو کبھی جنسی عمل سے نہ گزری ہو اور اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد اس کا شوہر ہو، یا نقب لگا کے آنے والا ریپسٹ!

اس دوشیزگی کو جانچنے کا بھی معاشرے نے ایک پیمانہ قائم کر رکھا ہے اور اس پیمانے کا نام ہے پردہ بکارت!

ریپ کے تمام کیسسز میں اور سہاگ رات میں عورت کی پاکدامنی کا تعین اسی پردے کے سالم ہونے یا نہ ہونے سے لگایا جاتا ہے۔ آخر یہ پردہ ہے کیا؟ جو ایک انسان کی عفت و صداقت کے تول کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔

‎ابتدائی چاند کی شکل جیسی، اندام نہانی کے ابتدائی حصے میں پائی جانے والی جھلی جس کی کوئی افادیت یا مقصد نہیں بالکل ویسے ہی جیسے اپنڈکس جسم میں پایا تو جاتا ہے لیکن ہے ایک عضو معطل۔

‎پردہ بکارت کی ماہیت اور حجم کسی بھی دو عورتوں میں ایک جیسی نہیں ہو تا۔

‎جیسے آنکھیں ناک اور دہانہ ہر کسی کا اپنے جسم کی قامت اور حجم کے لحاظ سے جدا جدا ہوتا ہے۔ سو پردہ بکارت کے لئے انتہائی نرم ونازک اور مختصر ہونے سے لے کر سخت اور حجم میں مختلف ہونا قطعی طور پہ نارمل ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا اور کبھی کبھی یہ اتنی بڑا ہوتا ہے کہ اندام نہانی کے رستے کو سرے سے بند ہی کر دیتا ہے۔

‎عام طور پہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عورت جو پہلی بار جنسی عمل سے گزرے گی، اس کا پردہ بکارت پھوٹنے سے خون نکلے گا اور یہ اس کے کنوارپن اور پاکیزگی کا ایک ثبوت ہو گا۔

‎عرض کرتے چلیں کہ یہ ہر گز ضروری نہیں کہ پردہ بکارت پہلی دفعہ پھوٹنے سے خون کا اخراج ہو، بعض دفعہ یہ جھلی بہت ہی نرم ہوتی ہے سو پھٹنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جنسی عمل سے پہلے ہی کسی اور سرگرمی میں پھوٹ جائے جیسے گھوڑ سواری، جمناسٹک اور مختلف اقسام کی جسمانی سرگرمیاں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پردہ بکارت موجود ہی نہ ہو۔ وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔۔۔

اسی طرح کسی بچی یا لڑکی کے ریپ میں پردہ بکارت کے قائم رہنے یا پھٹ چکنے سے حتمی نتائج تو حاصل نہیں ہوتے، سو ممکنات پہ بات کی جاتی ہے۔ حتمی طور پہ ریپ کی تشخیص جنونی کے مادہ تولید کی موجودگی ہے جس کا تعین میڈیکل ایگزیمنر کی رپورٹ کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ ریپ ہوا ہو اور تولیدی مادے کا یا تو اخراج نہ ہوا ہو یا ٹیسٹ لینے میں تاخیر ہو گئی ہو، یا لیب میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔

(کئی ٹیسٹس false negative نتیجہ دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تولیدی مادہ موجود تھا مگر کسی بھی وجہ سے لیب کے نتیجے میں گڑبڑ ہو گئی)

ریپ کیسز میں رپورٹ دینے کے لئے معائنہ لازم ہے اور اس معائنے کے نتیجے میں میڈیکل بورڈ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ریپ یا جنسی عمل کی کوئی نشانی جسم پہ پائی گئی کہ نہیں۔ یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ ریپ کی کوئی نشانی پائے نہ جانے کا بھی قطعی یہ معنی نہیں کہ ریپ کا امکان ختم ہو گیا۔ بعض صورتوں میں ریپ تو ہوا ہوتا ہے لیکن نشانیاں واضح نہیں ہوتیں۔

معائنے کے اس عمل میں ٹو فنگر ٹیسٹ کا نام ہم نے کبھی نہیں سنا اور نہ ہی کبھی ان معاملات میں شب و روز گزارتے ہوئے اپنی دو انگلیاں استعمال کیں۔ کچھ اور ڈاکٹر دوست جو پاکستان میں میڈیکولیگل کے نظام سے متعلق رہی ہیں، سے ٹو فنگر ٹیسٹ کے متعلق پوچھا تو وہ بھی ہماری طرح ہی بے خبر نکلیں۔

ریپ کا شکار ہونے والی مظلوم خاتون کے معائنے میں جو نکات اہم ہیں وہ بتائے دیتے ہیں۔

میڈیکولیگل معائنہ عدالتی حکم کے بعد کیا جائے گا ‏(Women Protection Act, 2006) ۔

اٹھارہ برس کی خاتون سے تحریری اجازت لینا لازمی امر ہے۔ اگر اٹھارہ برس سے کم ہو تو والدین یا گارڈین کی اجازت چاہیے۔

معائنہ صرف تربیت یافتہ لیڈی ڈاکٹر کر سکتی ہیں۔

اجازت کے بعد خاتون کی شناخت لازم ہے۔

وقوعہ کی تمام تفصیلات پوچھی جانی چاہییں اور وقت اور تاریخ نوٹ کیا جانا چاہئے۔

ریپ کے بعد کپڑے تبدیل کرنا، غسل کرنا، بول وبراز (urine and faeces) سے فراغت کے متعلق پوچھنا ضروری ہے۔

تشدد کی قسم اور اس کے جسم پہ نشان نوٹ کرنا چاہئے جیسے کہ دانتوں کے نشان، مارپیٹ کے داغ، لات اور ٹھوکروں کی ضربات۔

ہتھیار کا استعمال، شراب و نشہ آور اشیا اور گالی گلوچ بھی لکھا جائے گا۔

ازدواجی حثیت، اولاد، ماہانہ ایام اور ان کی تاریخ۔

جنسی تشدد کی تفصیل، جماع، اورل سیکس، تولیدی مادے کا خروج، خون کا بہاؤ، پیٹ میں یا پیٹ کے نچلے حصے میں درد۔

اگر ریپ کا شکار ہونے والی بچی ہے تو اس سے معلومات حاصل کرنے کے لئے گڑیا یا انسانی جسم کی ڈمی استعمال کی جائے گی۔

وقوعہ کے وقت پہنا ہوا لباس اور ان کی حالت جیسے کہ خون ، قے یا تولیدی مادے کے داغ، سوراخ، ٹوٹے ہوئے بٹن۔ داغدار اور مسلی ہوئی جگہوں کے گرد دائرہ بنا کر دستخط اور پھر سیل بند کرکے میڈیکل ایگزیمنر کو خون، تولیدی مادے اور ڈی این کی تحقیق کے لئے بھجوانا ہو گا۔

خاتون کی بظاہر حالت، مایوسی، غصہ، اشتعال، ڈپریشن، اعتماد کے تاثرات نوٹ کرنا ہیں۔

جسم کے معائنے میں مندرجہ ذیل باتیں دیکھی جاتی ہیں۔

سر کا معائنہ اور کھینچے گئے بال

چہرے پہ زخم اور نیل

آنکھوں میں اتری سرخی

ہونٹ اور مسوڑھے

کانوں کی پچھلی سائڈ

گردن اور چھاتی

بازو، ٹانگیں اور ہپس

تولیدی اعضا کا معائنہ ٹارچ اور لینس کی مدد سے کیا جانا چاہیے۔

بیرونی تولیدی اعضاء:

سرخی، ورم، نیل، خراشیں، زخم، خون اور تولیدی مادے کے دھبے

انگلی استعمال کئے بغیر پردہ بکارت کا معائنہ کرتے ہوئے شکل اور ہییت دیکھی جاتی ہے۔ پردہ بکارت ہلال کی طرح ہے یا نہیں، ہموار ہے یا ٹیڑھا میڑھا؟ ان معلومات کا کوئی بھی نتیجہ اخذ کیے بنا اندراج کیا جاتا ہے۔

اندام نہانی کا اندرونی معائنہ سپیکیلوم نامی اوزار سے صرف اس صورت میں کیا جاتا ہے جب خاتون شادی شدہ ہو، اندر گہرے زخم کا شک ہو اور خون کا اخراج ہو رہا ہو۔

اگر خاتون ہچکچاہٹ کا شکار ہو یا بچی کا معاملہ ہو اور طبی نقطہ نگاہ سے معائنہ اشد ضروری ہو تو بے ہوشی کا ٹیکہ لگا کے کیا جا سکتا ہے۔

مقعد(Anus)  کا معائنہ کرتے ہوئے بھی سرخی، سوجن، زخم، خراش، خون اور دوسرے دھبوں کو نوٹ کرنا ضروری ہے۔

کیمیکل ایگزیمنر کو بھیجے جانے والے سیمپلز

لباس

اندام نہانی ، مقعد اور منہ کی رطوبات:

(یہ رطوبات ایک انتہائی باریک ڈنڈی کے ذریعے لی جاتی ہیں جیسے بچوں کے کان کی صفائی کرنے والی باریک سی ڈنڈی جس کے استعمال سے کسی بھی عضو کو نہ تو ضرر پہنچتا ہے اور نہ ہی تکلیف ہوتی ہے)

سر کے بال،

ناخنوں کی کھرچن،

خون

(بلڈ گروپ، ڈی این اے، شراب یا کسی اور دوا کی موجودگی)

پیشاب (حمل یا دوا)

اگر ضرورت ہو تو ؛

ایکس رے ، ایم آر آئی ، الٹراساؤنڈ

صاحبان دانش، ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم اس معائنے کی مکمل تفصیلات آپ کے سامنے پیش کریں جو ایک لیڈی ڈاکٹر کو ریپ کیس میں کرنا ہوتا ہے۔ اب اس سارے قضیے میں ٹو فنگر ٹیسٹ کا واویلا کیا ہے؟ بخدا ہمیں نہیں معلوم۔ اور اگر کوئی اپنے طور پہ بچی یا لڑکی کی اندام نہانی میں انگلیاں ڈال کے اس کی چوڑائی یا لمبائی یا کچھ بھی اور جانچنے کے بعد باکرہ ہونے یا نہ ہونے پہ اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے تو مان لیجیے کہ طب کے پیشہ ورانہ اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور اس کا ریپ کی تصدیق یا تردید سے کوئی تعلق نہیں۔

ویسے گائنالوجسٹ کی زندگی میں دو انگلیوں کا استعمال تو ہے لیکن کچھ اور قصوں اور معاملات میں۔ ان دو انگلیاں کا احوال کہ کہاں، کیوں، کیسے اور کب استعمال کی جاتی ہیں، ایک علیحدہ مضمون کی متقاضی ہیں!

ہمیں علم ہے کہ ہمارے مضمون الف لیلیٰ کی داستان بنتے جارہے ہیں، ایک بات ابھی ختم نہیں ہوتی کہ کوئی اور گورکھ دھندا ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ زندگی کی پرپیچ راہوں میں قدم قدم پہ کوئی نہ کوئی بات کہے جانے کی منتظر ہے اور اداس آنکھوں سے رستہ دیکھتی ہے کہ کب گتھی سلجھائی جائے گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).