افغانستان: سڑک کنارے بم پھٹنے اور فضائی حملوں میں 15 ہلاکتیں


افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اتوار کو سڑک کنارے بم دھماکے اور ملک کے دیگر حصوں میں مختلف فضائی حملوں میں 15 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے ہیں۔

حکام کے مطابق اتوار کو کابل میں پیش آنے والے ایک واقعے میں وزارت داخلہ کی ‘نیشنل پبلک پروٹیکشن فورس’ کے ترجمان ضیا ودان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں وہ اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہو گئے۔ حکام کے مطابق حملے میں ایک شخص زخمی بھی ہوا ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو واقعے میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ اس حملے کی ابھی تک کسی تنظیم کی جانب سے ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ تاہم افغان صدر نے الزام لگایا ہے کہ اس کارروائی کی منصوبہ بندی طالبان نے کی۔

افغان صدر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے تشدد میں اضافہ قیامِ امن کی کوششوں کے منافی ہے۔ اُن کے بقول طالبان کا یہ طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے معصوم جانوں کے زیاں اور املاک کو نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کابل سمیت افغانستان کے مختلف حصوں میں حالیہ عرصے میں سرکاری حکام، معروف صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

افغانستان کو داعش سے زبردست خطرہ ہے

افغان اور امریکی حکام کی جانب سے افغانستان میں حالیہ تشدد کے واقعات کا ذمہ دار طالبان کو ٹھیرایا جاتا رہا ہے۔ تاہم طالبان ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

دوسری طرف افغان سیکیورٹی فورسز نے شمال مغربی صوبے نیمروز میں طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے جن میں 12 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔

صوبائی کونسل کے سربراہ باز محمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ‘خاش رود’ گاؤں میں ہونے والے فضائی حملے میں ایک مقامی شہری کا گھر نشانہ بنا جس میں عورتیں اور بچے بھی موجود تھے۔

صوبہ نیمروز کے گورنر نے بھی ان فضائی حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان ایئر فورس نے طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جن میں 12 شدت پسند مارے گئے۔ گورنر کا کہنا تھا کہ حملے میں عام شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔

طالبان کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نہ تو اس علاقے میں اُن کا کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ ہی کوئی جنگجو وہاں موجود تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جس گھر پر حملہ کیا گیا اس کے مالک کا بھی طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔

اتوار کو کابل میں ہونے والا حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب افغان حکام اور طالبان کے درمیان 20 برس سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔

خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان پچھلے سال فروری کے آخر میں امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت غیر ملکی افواج کو 2021 کے وسط تک افغانستان سے واپس جانا ہے۔

مذکورہ معاہدے کے بعد کئی ماہ تک افغان حکومت اور طالبان میں قیدیوں کی رہائی پر تنازع رہا۔ بعد ازاں قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہوا جس کے اگلے مرحلے میں فریقین کے درمیان بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa