رات رازوں کی امین ہوتی ہے


تین دن قبل بھاپ اڑاتی چائے کے ایک پیالے کو سامنے رکھے ایک خیال سا ذہن میں آیا کہ جیسے جیسے رات گہری ہوتی ہے، ویسے ویسے اس کی خاموش آواز میں اضافہ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ رات کے اس پہر جب سب خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں، تب نکل کر محسوس کریں تو ایک عجیب سا سکوت طاری ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ رات ہماری ہم راز بننے کو ہمہ تن گوش ہے۔ یہ اتنی خاموش اور متوجہ معلوم ہوتی ہے کہ محض دل کی دھڑکنوں سے سب جان لیتی ہے اور الفاظ کے استعمال کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ اس قدر سکون لیے ہوتی ہی کہ انسان اپنا ہر راز، اپنی ہر خوشی، اپنا ہر دکھ اس کے حوالے کر کے مطمئن اور پرسکون ہو جاتا ہے۔ رات کا یہ سکوت انسان کے ہر قسم کے آنسو کو کسی بیش قیمت ہیرے کی مانند سنبھال لیتا ہے۔

ویسے تو رات اور اندھیرے کے معانی کچھ اچھے خیال نہیں کیے جاتے لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے تو اس سے بہترین کچھ نہیں ہے۔ یہ ہر قسم کی برائی کو خود میں سمیٹ کر اچھائی کے لیے جگہ بناتی ہے۔ یہ ہر قسم کے دکھ اور تکلیف خود میں سمو کر خوشی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ شب کی پر سکون آغوش میں انسان اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر کے خود کو اگلے دن کی جنگ کے لیے تیار کرتا ہے۔

یہ رات کسی کے جذبات و احساسات کو تولتی نہیں ہے۔ بس خاموشی سے سنتی ہے اور ہر تکلیف خود میں جذب کر کے راحت کا سامان کرتی ہے۔ انسان کے ہر آنسو کو خود پی کر اس کے چہرے پہ مسکان لاتی ہے۔ منتشر دھڑکنوں کو سلجھاتی اور سنوارتی ہے۔ الجھے خیالات میں سلجھاؤ لاتی ہے۔ اپنے اندر کی قدرتی روشنی سے امید کی کرن دکھاتی ہے۔ صبح کے اجالے کی جانب لے کر جاتی ہے۔ پست ہمت کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔

سنا ہے کہ رات کا یہ وقت خدا اور بندے کے بیچ موجود ہر رکاوٹ اور دوری کو مٹا کر قریب لے آتا ہے اور انسان اپنی ہر بات خدا سے کہہ ڈالتا ہے۔ رات کی اس تاریکی میں ہونے والی خدا اور بندے کی گفتگو اس رات کے علاوہ کوئی چوتھا نہیں جان پاتا اور یہ تمام راز اس کی آغوش میں دفن رہتے ہیں۔ خامشی کے یہ الفاظ جس حساب سے خدا اور بندے کی دوری کو مٹاتے ہیں، ویسی طاقت میں کسی دوسرے لفظ یا گفتگو میں نہیں دیکھ پائی۔ یہ الفاظ خدا اور بندے کے بیچ جس طرح ایک پل باندھ دیتے ہیں، ویسی تعمیراتی صلاحیت میں قرآن اور رسول صلی اللہ و علیہ و سلم کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھ پائی۔ میرے خیال اور تجربے کے حساب سے رات کا یہ اندھیرا عام نہیں بلکہ ایک ایسی آغوش ہے جس میں سمٹ کر انسان راحت اور سکون کے اگلے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔

مجھے یہ رات ہے سمیٹے ہوئے
میری خامشی لپیٹے ہوئے
سموئے ہوئے راز سب
آغوش میں اس کی بیٹھے ہوئے

اکثر لوگ رات کو سیاہ، تاریک اور گمراہ کن تصور کرتے ہیں جس کی کوکھ سے تمام جرائم جنم لیتے ہیں مگر مجھے یہ رات اللہ کی بنائی ہوئی ایک ایسی چادر لگتی ہے جو تمام جرائم اور برائیوں کو ڈھانپ کر پوری دنیا کے سامنے انسان کا بھرم قائم رکھتی ہے۔ سچ ہے کہ لوگ اس کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہیں مگر اس طرح قصوروار تو انسان ٹھہرا نہ کہ یہ رات کیونکہ یہ اختیار تو انسان کا ہوتا ہے کہ وہ اس رات کی تاریکی میں جرم کا رستہ اپنائے یا خدا سے اپنا تعلق قائم کر کے اس کو مضبوط کرنے کے لیے مزید سرگرم ہو۔ یہ رات تو اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے جس میں انسان اس کو رنگنا چاہے۔

دنیا کی مختلف تہذیبوں پہ نظر دوڑائیں تو رات کے بے شمار معانی سامنے آتے ہیں۔ کہیں اس کو شیطانیت اور جرائم سے منسوب کیا جاتا ہے تو کہیں اس کو خطرے اور موت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ نادیدہ کا خوف رات کا اہم عنصر خیال کیا جاتا ہے۔ آدھی رات کا وقت برائی کے آغاز کا وقت سمجھا جاتا ہے۔ جادو اور اس سے جڑی ہر شے آدھی رات سے منسوب ہے۔ 3 بجے کے وقت کو شیطانی طاقتوں کے عروج کا وقت تصور کیا جاتا ہے۔

عام خیال ہے کہ تمام اساطیری اور غیر مرئی مخلوقات رات کے وقت زیادہ چاق و چوبند ہوتی ہیں۔ سیکسنز (Saxons ) رات کے اندھیرے کو ”ڈیتھ مسٹ“ یعنی ”موت کی دھند“ کہتے ہیں۔ ان سب خیالات کے برعکس رات کے اندھیرے کو علم کی کمی کے تصور سے بھی جوڑا جاتا ہے کہ علم نہ ہو تو زندگی میں رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے۔

اسلامی تہذیب میں رات کی اہمیت قطعی مختلف ہے۔ اس کو خوش آئند انکشافات اور ترقی کی منزل کی جانب سفر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ قرآن کا نزول رات کے وقت یقینی اور مکمل بنا کر اس کی طاقت میں بے پناہ اضافہ کیا گیا ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ و علیہ و سلم کا مشہور جنت تک کا سفر رات کی تاریکی میں وقوع پذیر ہوا۔ ایک اور نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام پہ یہ انکشاف رات کے پہر ہوا کی اس دنیا اور پوری کائنات کو چلانے والا مالک کوئی اور ہے جو سب سے افضل اور طاقتور ترین ہے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں جرائم اور برائی کا سہرا رات کے سر باندھنا، میرے حساب سے نا انصافی ہے۔

رات کی اپنی ہی ایک قدرتی روشنی ہوتی ہے جو سیدھے اور صحیح راستے کو منور کرتی ہے۔ یہ روشنی اور اندھیرے کا حسین امتزاج ہوتی ہے جو برائی کو خود میں سمو کر اچھائی کا راستہ روشن کرتی ہے۔ اب یہ انسان کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ کس راستے کو چنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).