ٹرمپ، بڑے بے آبرو ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست کھانے کے بعد اقتدار سے چمٹے رہنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ٹرمپ جس سطح تک گر گئے ہیں وہ تشویشناک ہے، امریکی نائب صدر مائیک پینس کی طرف سے آئین کی 25ویں ترمیم کے تحت فارغ کرنے سے انکار پر جوبائیڈن کی پارٹی ڈیموکریٹس کی طرف سے مسلسل یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ٹرمپ کی چھٹی ہونے سے پہلے پہلے اس کا مواخذہ کر کے فارغ کیا جائے، ڈیموکریٹس ارکان نے مواخذے کے لیے مسودہ بھی تیار کر لیا ہے۔

پہلے تو ٹرمپ کی پارٹی ریپبلکن کے سینیٹرز کی اکثریت ان کا ساتھ دے رہی تھی لیکن جس انداز سے کانگریس کی طرف سے نو منتخب جوبائیڈن کی جیت کی تصدیق کرنے سے عین قبل ٹرمپ کے بہت سے دائیں بازو کے امریکیوں نے کانگریس کی عمارت پر دھاوا بول دیا اس سے خاتون سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ صورتحال پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک کے عوام اور حکمرانوں کے لیے حیران کن تھی۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایسے ممالک میں جب جمہوری عمل کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو امریکی حکمرانوں یا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اس قسم کے بیان اچھنبے کی بات نہیں ہوتی کہ انہیں فلاں ملک میں جمہوریت کی پامالی پر تشویش ہے۔

1999 ء میں شہباز شریف بھی خصوصی طور پر امریکہ گئے تھے تاکہ امریکی انتظامیہ کو آگاہ کریں کہ پاکستان میں میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے کس طرح کے خطرات لاحق ہیں۔ تاہم اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کو فارغ کر دیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے سابق دور میں امریکہ میں مقیم پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا فوج کے ساتھ تعلقات اور جمہوری حکومت کو لاحق خطرات کے حوالے سے مبینہ طور پر اس وقت کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف مائیک مولن کو لکھا گیا میمو، سکینڈل بن گیا تھا۔

جس کی صحت سے آصف زرداری اور حسین حقانی انکاری ہیں لیکن اب تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ امریکہ جسے جمہوریت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہیں جمہوری اقدار کو اس کے صدر نے ہی تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ ٹرمپ کا لاابالی پن اور ہٹ دھرمی ان کے دور کا خاصہ رہا ہے لیکن کسی کو امید نہیں تھی کہ وہ اس حد تک گرجائیں گے، اب صورتحال یہ ہے کہ امریکی صدر کی بوالعجبیوں کی وجہ سے سینیٹ بھی ری پبلکن پارٹی کے ہاتھ سے جاتی رہی ہے۔ صورتحال اتنی دگرگوں ہوگئی ہے کہ ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے امریکی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملے کو متنبہ کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں ٹرمپ جیسے شخص سے ہوشیار رہیں، کہیں وہ پاگل پن سے کام لیتے ہوئے ایٹمی بٹن ہی استعمال نہ کر بیٹھیں۔

ٹرمپ کا وفادار اور قریبی سٹاف بھی ان کو ایک ایک کر کے چھوڑتا جا رہا ہے، ٹویٹر انتظامیہ نے ان کا اکائونٹ مستقل بند کر دیا ہے ا ور ایک لحاظ سے وہ عبرت کا نشان بن رہے ہیں اسی طرح جیسے کئی ممالک میں جب کسی آمر کے برے دن آتے ہیں تو حال یہی ہوتا ہے کہ “بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے”، ٹرمپ تو جمہوری طور پر منتخب صدر تھے اگر وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو جاتے تو امریکہ کے لیے تو ایک ٹریجیڈی تھی ہی لیکن دنیا میں جمہوری اداروں کی بقا کے لیے بڑا سیٹ بیک ہوتا۔

بد قسمتی سے دنیا میں حالیہ برسوں میں ایسا رجحان آیا ہے کہ ووٹ کے ذریعے آنے والے حکمران آمر مطلق بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو ہے ہی، بھارت میں نریندر مودی، روس میں ولادیمیرپیوٹن، اسرائیل کے نتن یاہو اورسب سے بڑھ کر ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن ،انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں اپنے ہی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مقام شکر کہ ٹرمپ کے پیدا کردہ بحران کے باوجود یہ ثابت ہوا کہ وہاں پر جمہوری ادارے مستحکم ہیں اور ریاست کے ستون اپنی اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے جتنے بھی سابق وزرائے دفاع ہیں انہوں نے ایک خط کے ذریعے ٹرمپ کو متنبہ کیا کہ وہ اپنے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل سے امریکی افواج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کریں۔

امریکی فوجی قیادت نے بھی ٹرمپ کی حالیہ سرگرمیوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ اسی طرح نائب صدر مائیک پینس جو کہ ٹرمپ کے دست راست تھے اور ان کے بہت سے نظریات سے اتفاق بھی کرتے تھے لیکن جب کانگریس میں نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی توثیق کا معاملہ آیا تو انہوں نے ٹرمپ کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ اس کی توثیق نہ کریں۔ امریکی انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ری پبلکن پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران نے بھی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہی رول ادا کیا۔

اس بنا پر وہاں جمہوریت بچ گئی ورنہ اکثر ملکوں میں جب جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی ہے تو مزاحمت تو کیا کوئی آواز اٹھانے والا بھی نہیں ہوتا۔اس سلسلے میں امریکی میڈیا بھی داد کا مستحق ہے کہ اس نے آزاد روی سے کام لیتے ہوئے ٹرمپ کو نکیل ڈالنے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا۔ گویا کہ امریکہ میں جمہوریت اتنی مضبوط ہے کہ ٹرمپ کی بھی میڈیا کی آواز دبانے کی کوشش ناکامی سے ہمکنار ہوئی ورنہ تیسری دنیا میں جب “میرے عزیز ہم وطنو!” کی آواز آتی ہے تو ہو کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).