اپنے کام سے کام رکھنے کا چلن


’کیا سوچ رہے ہیں ، فاروق بھائی؟‘

ڈاکٹر خلیل طوقار نے میرے چہرے پر خیال کی لہریں گنیں اور اپنے نرم، ملیح لہجے میں دریافت کیا۔میں تھوڑا گڑبڑا گیا:

’سوچ تو کچھ نہیں رہا تھاڈاکٹر صاحب!بس، اندازہ لگا رہا تھا‘۔

’کس بات کا اندازہ؟‘۔

’اس بات کا اندازہ کہ آپ لوگوں کی نماز خراب کرنے کے لیے کوئی اپنا ستر توڑنا چاہے تو اُس کی گستاخی یا جرأت رندانہ کی سطح کیا ہونی چاہیے؟‘۔

اب کے چکرانے کی باری ڈاکٹر صاحب کی تھی لیکن میرے ذہن میں تو بچپن کی ایک تلخ یاد ڈوب ابھر رہی تھی۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں کوئی چوتھی یا پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے اباجی کے ساتھ نماز کے لیے مسجد کوجایا کرتا تھا۔ والدہ کی ہدایت یہ تھی کہ والد کے قریب رہنا ہے اور اگر وہ کوئی تکلیف محسوس کریں تو جیب سے گولی نکال کر ان کی زبان تلے رکھنی ہے لیکن مسجد کے نظام میں کم عمر بچوں کو بڑوں کی صف میں کھڑے ہونے کی اجازت نہ تھی، انھیں بہرصورت آخری صف میں ہی جگہ ملتی۔وہ رمضان کے دن تھے۔

تراویح کی بیس رکعتیں مکمل ہو چکی تھیں ، کچھ لوگ دوزانو بیٹھے تسبیحات میں مصروف تھے اور کچھ نوافل کی ادائیگی میں، اس دوران محسوس ہوا کہ ابا جی جیسے کچھ بے چین ہورہے ہیں، صف پھلانگ کر میں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی توبے دھیانی میں کسی سے آگے گزر گیا۔

بس یہی جرم تھا کہ پیچھے کھڑے کسی بزرگ نے نماز توڑی اور بازو سے پکڑ کر مجھے کھینچا پھر منھ پر زناٹے کاتھپڑ دے مارا۔کوئی چالیس برس پہلے پیش آنے والے اس واقعے کی یاد مجھے چارشی(ایشیائی استنبول کا ایک محلہ جہاں ڈاکٹر خلیل طوقار رہتے ہیں) کی دو منزلہ مسجد میں نماز جمعہ کے دوران آئی جب میں نے یہ دیکھا کہ برمودا میں ملبوس صرف بچے نہیں ، بہت سے بڑے بھی رکوع و سجود میں مصروف ہیں، دوران نمازجن میں سے کئیوںکا پائنچا سرک کر گھٹنوں تک جا پہنچتا اور بعضوں کا اس سے بھی اوپر لیکن نہ صرف یہ کہ وہ خود نماز میں مصروف رہتے بلکہ ارد گرد کے نمازیوں کی نماز بھی ان مناظر سے بالکل متاثر نہیں ہوتی۔ایک اور یاد نے مجھے آن گھیرا۔میں اُن دنوں ایف اے میں پڑھتا تھا، اباجی کو رخصت ہوئے کئی برس بیت چکے تھے۔

نماز میں اُن دنوں بھی پڑھتا تھا لیکن ٹانواں ٹانواں لیکن ابا جی کی یاد ستاتی تو بے چین ہو کر مسجد جاپہنچتا۔وہ عصر کا وقت تھا، مسجد کی دہلیز تک پہنچا تو اندازہ ہوا کہ کوئی دم جاتا ہے کہ امام صاحب سلام پھیر دیں گے، بس اسی لیے جلدی میں بھاگتا ہوا جماعت میں شامل ہو گیا، اسی دوران امام صاحب نے سلام پھیر ا اور کہا کہ ہمارے لڑکے اسکولوں سے اٹھ کر کالجوں تک پہنچتے پہنچتے ادب آداب سے بالکل بے نیاز ہوجاتے ہیں، بڑے چھوٹے کی تمیزتوانھیں پہلے ہی نہ تھی، اب یہ اتنے گستاخ ہو گئے ہیں کہ ننگے سر نماز بھی پڑھ لیتے ہیں۔کانوں میں سیسہ انڈیلتے ہوئے یہ الفاظ میں نے حالت نماز میں سنے ، رکعتیں پوری کرکے سلام پھیرا اور مسجد سے نکل آیا۔

اس کے بعد پھر کبھی اُس بزرگ کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھی۔بچپن اور لڑکپن کے یہ واقعات مجھے کبھی یاد نہ آتے ، اگر میں استنبول نہ جاتا اور اِس شہر ہزار داستاں میں محبی ڈاکٹر خلیل طوقار مجھے اپنے گھر نہ لے جاتے اور ان کے ہاں رہتے ہوئے جمعے کا دن نہ آتا اور میں ان کے محلے کی مسجد میں جمعے کی نمازکے لیے نہ جاتا۔اِس خیال نے مجھے عین نماز کے دوران پریشان کر دیا کہ ابھی کوئی ہاتھ لپکتا ہوا آئے گا اور میرے برابر کھڑے برمودا پوش نوجوان کو کان سے پکڑ کرمسجد سے نکال دے گا یا اس مسجد کے در و دیوار تھپڑ کے زناٹے سے گونج اٹھیں گے لیکن یہ سب نہ ہوا ۔ روّیوں کا یہی فرق تھا جن پر غور کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے مجھے پکڑا اور ہم باتیں کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوگئے جہاں بھابھی صاحبہ آڑو کے شربت کے ساتھ ہماری منتظر تھیں۔

بھابھی صاحبہ نے ایک گلاس مجھے دیا اور ایک ڈاکٹر صاحب کو،ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’تشکرلر‘ یعنی شکریہ پھر مجھے بتایا کہ یہ شربت گھر کا بنا ہوا ہے۔’اچھا، جدید ویسٹرنائزڈ ترکوں کے ہاں شربت ابھی تک گھروں میں بنتے ہیں؟‘۔ میں ابھی اپنی اسی حیرت میں تھا کہ انھوں نے کہا کہ صرف شربت ہی نہیں، آڑو بھی گھر ہی کے ہیں۔’ہیں، چوتھی پانچویں منزل کے اپارٹمنٹ میں آڑو کا درخت کہاں سے آگیا؟‘۔ میں جو ابھی پہلی حیرت سے نمٹ نہیں پایا تھا، اب دوسری حیرت سے دوچار تھا۔ معلوم ہوا کہ اپارٹمنٹس اگرچہ اونچے اونچے بن چکے ہیں اور گھروں سے نکل کر فاسٹ فوڈ سے لطف اندوز ہونے کی عادت بھی اِن لوگوں میںپختہ ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود ایشیائی استنبول میں محلے داری کے نظام پر کوئی آنچ نہیں آئی۔

خواتین پڑھی لکھی ہیں،بہت سے کام کاج کرتی ہیں لیکن اچار مربعے بھی بناتی ہیں اور صرف بناتی نہیں،بنانے کے بعد پاس پڑوس میں بھی بھیجنا ضروری سمجھتی ہیں۔ بھابھی صاحبہ والے شربت کے آڑو بھی پڑوس کے کسی گھر سے آئے تھے۔میری وہاں موجودگی کے دوران کوئی اور پھل شاید خوبانیاں بھی کسی پڑوسی کے ہاں سے آئی تھیں۔ محلہ چارشی میں بھابھی صاحبہ کے اچار مربعوںاور شربت کی دھوم ہے اور شربت بھی ایسا کہ پانی ڈالتے چلے جائیے، مٹھاس میں ذرا کمی نہیں ہوتی۔ ہمارے ترک بھائیوں کو میٹھا خوب مرغوب ہے۔

شاید یہ بھی اسی مٹھاس کی دین ہے کہ مسجد میں کوئی کسی’ گستاخ‘ برمودا پوش کے کان تھپڑ سے لال نہیں کرتا اورنہ کوئی کلمہ گو کسی دوسرے حتیٰ کہ اس کے عقیدے سے بھی سروکار نہیں رکھتا ۔ میٹھا تو ہمارے ہاں بھی بہت کھایا جاتا ہے لیکن نہیں معلوم اس کی تاثیر کیا ہوئی؟ عین اُن اداس شب و روز میں جب بے بسی کی موت ماردیے دیے جانے والے ہزارے والوں کے دکھ میں پوری  قوم سوگوار تھی، ایسی کیفیت میں بھی بہت سے ایسے پتھر دل موجود تھے جنھوں نے مرنے والوں اور ان کے دکھی لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کو کار ثواب جانا اور اس تیر و نشتر کو صدقہ جاریہ کی طرح آگے بڑھانے کی تلقین کی۔

یہی دکھ تھا جس کی شدت میں رؤف طاہر جیسے مجسمہ صدق و وفا کی یاد بھی پیچھے رہ گئی اور میں نے اہل ہزارہ کو یاد کیا نیزچارشی کے گلی کوچوں کو جہاں میں نے اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پانے کی جستجو کی۔ کیا کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ ہم لوگ بھی اپنے کام سے کام رکھنے کا چلن سیکھ سیکھیں؟

بشکریہ روزنامہ ایکپسریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).